جانے والے یعنی پاکستان میں بیسویں صدی کے آخری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی مغفرت کے لئے ہم دعاگو ہیں۔ اللہ بہترین عدل اور انصاف کرنے والا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کے متعدد اقدامات کے خلاف ان کی زندگی میں ہم نے بھرپور گواہی دی۔ آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے ساتھ ساتھ اصل نقصان انہوں سماج کی سطح پر پہنچایا کہ معاشرہ ایسی تقسیم اور کنفیوژن کا شکار ہوا جس کا مظاہرہ خود مشرف صاحب کے حامیوں کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی تباہی ہے جس کا خمیازہ قوم کو دہائیوں تک بھگتنا پڑے گا اور بہت مشکل سے ان خرابیوں کی اصلاح ہو ہائے گی۔
ایک طرف وہ الٹرا لبرل طبقے کے ہیرو تھے اور دوسری طرف وہ لال قلعہ پر پرچم لہرانے کے خواہشمند متوالوں کی آنکھ کا تارا بھی! یہی تقسیم آج ہمارے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو قوموں کو تباہی کے گڑھے میں جا دھکیلتا ہے۔ عدلیہ کی تباہی اور ماورائے قانون اغوا و تشدد کی منظم کارروائیاں مشرف دور کی یادگار ہیں۔
مگر وہ محض برائیوں کا مجموعہ نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں بعض اچھے کام کرنے کی کوشش بھی کی۔ پاکستان میں اعلی تعلیم کے دروازے معاشرے کے کمزور طبقات کے لئے کھولنے’ بیرون ملک پاکستانی طلباء کے لئے اسکالرشپس’ مقامی حکومتوں کے نظام کی ابتدائی کوششیں اور کسی حد تک بیوروکریسی کے شکنجے کو لگام ڈالنے جیسے کئی اقدامات مشرف دور میں پروان چڑھے مگر شومئی قسمت کہ ان میں سے کسی بھی کام کو پائیدار بنیادوں پر استوار نہیں کیا جاسکا۔
جو آج تخت نشین ہیں ان کے لئے مشرف صاحب کی زندگی اور موت دونوں میں بہت سارا سبق پنہاں ہے۔ کوئی ہے جو تدبر کرے؟