پرویز مشرف پہ چوتھا مارشل لا لگاکے طویل عرصہ راج کرنے والے ڈکٹیٹر ایک نہایت متنازع شخص کی صورت دنیا سے رخصت ہوگئے کیونکہ انہیں پسند کرنے اور ناپسند کرنے والے دونوں ہی کی تعداد خاصی ہے البتہ اس کی گنتی پہ مختلف رائے ہوسکتی ہیں ۔ انکی موت پہ کچھ لوگوں کی جانب سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ کہ انکی برائیاں نہ کی جائیں کیونکہ شریعت میں مردہ شخص کی برائی کرنے سےمنع کیا گیا ہے ۔۔۔ اس سلسلے وہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر6516 کا حوالہ دیتے ہیں کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو لوگ مر گئے ان کو برا نہ کہو کیونکہ جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا تھا اس کے پاس وہ خود پہنچ چکے ہیں، انہوں نے برے بھلے جو بھی عمل کئے تھے ویسا بدلہ پا لیا۔“
میں اس سلسلے میں اپنے ذہن میں ایک بات یہ رکھتا ہوں کہ اس ممانعت کا تعلق کسی فرد کی ان برائیوں سے ہے جو ذاتی نوعیت کی ہوں اور ان کا معاشرے پہ اثرانداز ہونے کا معاملہ نہ ہو جیسےام الخباعث شراب کی بابت معاملہ یہ ہے کہ کوئی فرد شراب پینے کی برائی میں مبتلاء ہے تو یہ اس کا ذاتی برا فعل ہے لیکن اگر وہ شراب فروخت کرتا ہے تو یہ اس کا اجتماعی اثر رکھنے والا برا فعل ہے اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان اور ان کی جاگتی آنکھوں کے خواب
پاکستانی ذرائع ابلاغ کا ایک بہت بڑا جرم
خود قران کریم میں فرعون ، شداد ، نمرود ، قارون اور فرعون وغیرہ کی جو برائیاں بیان ہوئی ہیں ان کا سبب بھی انکی برائیوں کے معاشرے پہ اثرانداز ہونے کا معاملہ تھا – ان مثالوں سے بہت واضح ہے کہ دینی حکم ‘امربالمعروف و نہی عن المنکر’ کا مقصد وحید ہی یہ ہے دنیا میں نیکی پھیلائی جائے اور اسے پھیلانے کے عمل میں برائی کرنے والوں کو روکا جائے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ اس سلسلے میں برا کرنے والوں کو بطور مثال عبرت پیش کیا جائے ۔۔۔
پرویزمشرف کی بابت ہمارا مدعا یہ ہےکہ گو موصوف کو اپنی رنگین مزاجی کے باعث یحییٰٰ خان خان ثانی باور کیا جاتا تھا اور انکی ناؤنوش کی صفات اور رنگ رلیوں پہ مبنی حرکات کی بڑی شہرت تھی تاہم یہ معاملہ ان کا ذاتی تھا مگر بطور ایک جرنیل کارگل میں بدترین گھناؤنے فیصلوں پہ مبنی احمقانہ اور شدید نقصان دہ مہم کے نتیجے میں ہوئی ذلت آمیز پسپائی اور عالمی سطح پہ جگ ہنسائی سے قومی ساکھ کو جو زک پہنچی اور اور ملکی خزانے کو بھی جوناقابل تلافی نقصان ہوا وہ کسے معالوم نہیں مستزاد یہ کہ ہمارے 1700 جری فوجیوں کی شہادت تو قومی سانحے سے کم نہیں تھی ۔۔۔
اسی طرح جمہوریت پہ شبخون مارکے اپنے حلف کو پامال کرکے جس طرح آئین اور جمہوریت کو روند ڈالا گیا اورجمہوریت کی بساط لپیٹی گئی وہ بھی بھیانک قومی جرم ہے – اسی طرح بطور حکمران لال مسجد میں سینکڑوں طلبہ و طالبات کو محصور کرکے مارڈالنے کے ایکشن اور بذریعہ آرڈیننس فحاشی کی بطور جرم تنسیخ جیسے سنگین جرائم تو ملک اور معاشرے کی جڑوں کو کھود ڈالنے کے مترادف اقدام ثابت ہوئے اور سب سے بڑھ کے یہ کہ افغانستان میں امریکی ایکشن کے لیئے مکمل تعاؤن بلکہ سرنگوں ہوجانے کی شرمناک ذلت وغیرہ وغیرہ سے تو امت مسلمہ کے اس قلعے ہی کو مسمار کرڈالنے کی سازش رچی گئی ۔
چونکہ مذکورہ بالا ان اقدامات کا ہر پہلو ایک قومی المیہ ہے جس کی سطر سطر سے آئین و جمہوریت اور بیشمار بیگناہوں کا لہو ٹپک رہا ہے چنانچہ اگر ایسے بھیانک جرائم کو بھی یونہی بلا احتساب جانے دیا گیا اور انکے تذکرے سے اجتناب کی روش اپنائی گئی تو پھر ہمیں مستقبل میں بھی مزید ایسے کئی سورماؤں اور اور انکے لہورنگ کارناموں کی خونچکاں داستانوں کا منتظر رہنا چاہیئے ۔۔۔ یاد رکھیئے چونکہ اجتماعی اثرات والے جرائم ہرگز قابل معافی نہیں ہوتے چنانچہ نہ انکے تذکرے سے گریز کا کمبل ڈالا جانا چاہیئےاور نہ ہی ان کے معاملے میں ضروری قانونی چارہ جوئی کا رستہ ترک کرنا چاہیئے کہ یہی زندہ قوموں کی نشانیاں ہیں۔