ذرائع ابلاغ کی ایک ذمے داری عوام کو باخبر رکھنا، خبر کی وضاحت کرنا، تفریح فراہم کرنا اور ایجو کیٹ کرنا بیان کی گئی ہیں۔ موجودہ دور میں اور خاص طور پر پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا میڈیا ایک کام تو خوب کرہا ہے یعنی اپنی دانست میں عوام کو تفریح فراہم کر رہا ہے۔ یہ تفریح خبر کی فراہمی کے ساتھ بھی شامل ہے اور تفریح کے نام پر بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ذرائع ابلاغ نے مزاح جیسی نفیس صنف کو پھکڑ بازی کی پست درجے تک پہنچا دیا ہے۔ خبر کی وضاحت کا کام بھی کسی نہ کسی طرح جاری ہے لیکن وہ جسے توضیح اور تجزیہ کہتے ہیں، وہ صحافت کا اعلی ترین درجہ ہے لیکن آج ہمارے ٹیلی ویژن پر جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں، سیاست کی مبادیات اور تاریخ سے نا واقفیت کے باوصف کچھ لوگ جو تجزیہ اور توضیح کر رہے ہیں، وہ کوئی ایجنڈا تو ہو سکتا ہے لیکن اسے اعلیٰ درجے کا پیشہ دارانہ عمل قرار دینا آسان نہیں۔ خبر تو بہر حال کسی نہ کسی درجے فراہم کی جا رہی ہے لیکن اگر کوئی برا نہ مانے تو حقیقت یہی ہے کہ اکثر و بیشتر یہ خبر کراچی کے شام اخبار سے بلند درجے کی نہیں ہوتی۔
اب رہ گئی ایجوکیشن، ذرایع ابلاغ کے واسطے سے عوام کو ملنے والی تعلیم وہ روایتی تعلیم نہیں ہوتی جو اسکول میں بچوں کو دی جاتی ہے۔ یہی تعلیم ایک عام شہری کو خبر کا اندر باہر سمجھنے کے قابل بناتی ہے اور جہاں قاری یا ناظر کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں وہ اس کی راہنمائی کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔
یہ بات ایک مثال سے سمجھنی آسان ہوگی۔ آج پاکستان کا ہر ماہر معیشت یہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے حکومت اور قوم کو جو قربانیاں دینی پڑیں دی جائیں۔ مطلب یہ ہوا کہ ملک اس وقت ہنگامی دور سے گزر رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ ذرائع کی ذمے داری ہے کہ وہ خود عوام کے مفاد میں انھیں درپیش چیلنج کے لیے تیار کریں۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔
29 جنوری کو جیسے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، فطری طور پر عوام بے چینی کا شکار ہوئے۔ اس موقع پر ذرائع ابلاغ نے عوام کا غیض و غضب دکھایا۔ کسی حد تک یہ ضروری ہے لیکن ایسے مواقع پر یہ بتانا زیادہ ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس چیلنج سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ذرائع ابلاغ عوامی غیض و غضب تو دکھا دیتے ہیں یہ بتانے سے قاصر رہے ہیں کہ ریاست کے پاس اس کے سوا کوئی چارا نہیں تھا۔ ملک کی معیشت کو بہتر بنانے اور عوام کو دیر پا آسودگی اور سہولتوں کی فراہمی کے لیے یہ ضروری ہے۔ ایسا نہ کر کے ذرائع ابلاغ دراصل معاشرے میں ہیجان برپا کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے بعض سیاست دان اپنی حکومت کے دوران سخت اقدامات کو ناگزیر اور مخالف کی حکومت کے دوران سخت اقدامات کو ظلم قرار دیتے ہیں ۔ یہ طرز عمل غیر ذمے دارانہ اور قومی مفاد کے منافی ہے۔