کوئی شبہ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی نے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور اس کے مقابلے میں حکمراں اتحاد کو سبکی کاسامنا کرنا پڑا ہے لیکن یہ ضمنی انتخاب جلد انتخابات کے انعقاد کی ضمانت فراہم نہیں کرتے۔ اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جتھوں کی ایسی سیاست جو عمران خان کر رہے ہیں ، کبھی کسی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بنی۔ فقط اسٹریٹ پاور کسی تبدیلی کا ذریعہ نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ کچھ دیگر عوامل کی موجودگی بھی ضروری ہوتی ہے۔ عمران خان کی مہم جوئی ایسے عوامل سے محروم ہے اور آنے والے دنوں میں بھی انھیں ایسی سہولت کی دستیابی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم کی شکست اور عمران خان کی مقبولیت
ضمنی الیکشن: وہ ٹریپ جو پی ڈی ایم کی شکست کا باعث بنا
مزاحمت اور علی اکبر عباس کی شاعری
مئی کے تجربے کے بعد عمران خان لانگ مارچ کے حتمی اعلان سے جائز طور پر گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کا مئی کا تجربہ ناکام رہا ہے۔ انھیں اب بھی یقین نہیں ہے کہ ان کی آئندہ مہم جوئی مئی سے مختلف ہو گی۔ اب ایسے شواہد ملنے لگے ہیں کہ عمران خان کو اپنی اس کمزوری کا احساس ہو گیا ہے۔ وہ جان گئے ہیں کہ ان کے گرد جمع ہجوم جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی طرح کمٹیڈ نہیں ہے جو ہر طرح کے حالات میں قیادت کی پکار پر کوئی ان ہونی کر دکھائے۔ ان پر پہلی بار یہ کھلا ہے کہ ان کے گرد جمع ہونے والا ہجوم ایک خاص کلاس سے تعلق رکھتا ہے جو ہر قسم کی آزمائش کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ البتہ کھیل تماشے میں شریک ہو سکتا ہے۔ ان پر واضح ہو چکا ہے کہ سال 2014ء کی طرح اس بار انھیں تماشا لگانے کا موقع نہیں ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مارچ کی حتمی تاریخ دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اندازہ ہے کہ وہ لانگ مارچ کی دھمکی دیتے رہیں گے۔
میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے اپنے وقت کا تعین کر رکھا ہے۔ میرے خیال میں وہ فوری طور پر واپس آگئے تو اپنی جماعت اور حکومت پر بوجھ بن جائیں گے لیکن اگر اسحاق ڈار کے اقتصادی ‘ چمتکار’ کے بعد لوٹتے ہیں تو وہ زیادہ سہولت محسوس کریں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ‘ ڈار چمتکار’ شروع ہو چکا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات اور خوردنی تیل سمیت کئی اشیائے صرف کی قیمتوں میں کسی قدر کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ یہ سلسلہ تیزی سے آگے بڑھے۔ آنے والے دنوں میں اس کی توقع کی جاسکتی ہے کہ عوام مہنگائی میں کچھ کمی محسوس کریں۔ ایسا ماحول میاں صاحب کی واپسی کے لیے موزوں ترین ہوگا۔
عمران خان کی واپسی کی ایک ہی وجہ ہے وہ ماضی کے معروف فلم اسٹار مظہر شاہ کی طرح بڑھک بازی کر رہے ہیں۔ عوام بڑھک باز لیڈروں کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو بہادر تصور کیا جاتا ہے۔ عمران فی الحال بہادری کی شہرت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن میرے اندازے کے مطابق لطف اندوزی کا یہ مرحلہ مختصر ہے۔ جلد ہی فارن فنڈنگ کیس سمیت بہت سے دیگر مقدمات کے فیصلے آنے شروع ہو جائیں گے، اس کے بعد حالات بدل جائیں گے