نومبر 30 دن کا ہو گا یا 3 سال کا، فیصلہ نومبر ہی کریگا، اگرچہ نومبر کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں مگر پھر بھی پاکستانی سیاست میں نومبر نہایت اہم ہے۔ عمران خان غدار ہیں یا مسیحا، جو آپ کا دل چاہے مانیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں فرد واحد نے 13 جماعتی اتحاد کو جھٹکا دیا ہے جس سے انکار ممکن نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ جیت نومبر پر اثر انداز ہو گی۔
عمران خان پر نت نئے مقدمات، غداری اور آٗئین شکنی کے الزامات، آڈیو لیکس، قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم 13 جماعتی اتحاد انہیں ریاست کیلئے خطرہ جانتا ہے تو بڑے بڑے جغادری صحافی انکا پوسٹ مارٹم کرتے نظر آتے ہیں، سیاست میں اناڑی قرار دیتے ہیں، سوشل میڈیا پر مہم بھی جاری ہے۔ درست یا غلط، فیصلہ آپکا مگر یہ حقیقت نظر اندار نہیں کی جاسکتی کہ ان کی جیت سے پی ڈی ایم بلبلا اٹھی ہے۔ مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری، نواز شریف، اسفند یار ولی جیسے جدی پشتی سیاستدانوں کو سیاست کی بساط پر بھیانک مات، اس ہار کی ڈھیر ساری لولی لنگڑی تاویلات اور وضاحتیں سامنے آ رہی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ میں اور آپ کچھ بھی جانیں، سیاسی پنڈت، دانشور اینکرز کچھ بھی تجزیہ کریں، عوام کا فیصلہ کچھ اور ہی ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ فیصلہ سازوں، سیاستدانوں، میڈیا ہائوسز کی تمامتر جان توڑ کوششوں کے باوجود عمران خان کا بیانیہ کیوں مقبول ہے؟
یہ بھی پڑھئے:
ضمنی انتخابات کیا جلد انتخابات کی راہ ہموار کریں گے؟
ضمنی الیکشن: وہ ٹریپ جو پی ڈی ایم کی شکست کا باعث بنا
مزاحمت اور علی اکبر عباس کی شاعری
ایمانداری کی بات ہے عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا جس کے باعث یہ جیت ملی ہو، انکا دور بھی گزشتہ حکومت پر الزامات ڈالتے گزر گیا، سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی، مہنگائی، میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوششیں، سیاسی گرفتاریاں اور یہی آج بھی ہو رہا ہے۔ عمران خان کے بیانئے کی بڑھتی مقبولیت فیصلہ سازوں اور حکمراں اتحاد کی نیندیں اڑانے کیلئے کافی ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ حکومت میں رہتے ہوئے عمران خان اتنے خطرناک نہ تھے جتنی بہتر سیاست کا مظاہرہ باہر آنے کے بعد کر رہے ہیں۔عمران خان کی جیت کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ نوجوانوں میں نہایت مقبول ہیں اور یہی نوجوان ووٹ بینک انکا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ 2018 سے اب تک، ان 7 حلقوں میں جہاں سے عمران خان نے ضمنی انتخاب لڑا، 4 سالوں کے دوران ان 7 حلقوں میں 4 لاکھ 41 ہزار 558 نئے ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے، اسی طرح 2008 سے اب تک یعنی گزشتہ 13 سالوں میں ملک بھر میں 2 کروڑ نئے ووٹرز بنے ہیں، یعنی جو لوگ 18 سال کی عمر کو پہنچ کر ووٹر بنے ہیں، گزشتہ 13 سال ہمارے فیصلہ سازوں نے دن رات سیاسی کرپشن کا ڈھول پیٹا ہے، شریف برادران، زرداری، مولانا فضل الرحمان کے خلاف کرپشن کا جہاد جاری رکھا ہے، تو یہ دو کروڑ ووٹرز، بچپن سے اب تک دن رات تینوں کو کرپٹ سنتے سنتے جوان ہوئے ہیں، یہ جہاد انکے ذھنوں میں انڈیلا گیا ہے۔ ذرا خود ہی فیصلہ کریں نوجوان نسل کے پاس عمران خان کے علاوہ کیا چوائس چھوڑا گیا ہے، اگر دو کروڑ نئے ووٹرز عمران خان کو مسیحا جانتے ہیں تو یہ فطری بات ہے۔
عمران خان کی جیت کا دوسرا کریڈٹ ن لیگ کی قیادت میں پی ڈی ایم اتحاد کو جاتا ہے، آپ کو یاد ہو گا میاں نواز شریف نظریاتی سیاستداں بن چکے تھے، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ پورے ملک میں گونج رہا تھا، عوام ن لیگ کیساتھ کھڑے تھے، ایسے میں ووٹ کو عزت دو جیسے مقبول بیانیئے کی خاموشی سے تدفین کر دی گئی، نظریات جلاوطن ہوئے، پی ڈی ایم بن گئی، لطف یہ ہے کہ اس اتحاد میں تمام وہی چہرے شامل ہیں جنکے خلاف فیصلہ ساز 13 سال کرپشن جہاد کرتے رہے، سو عوام کے نزدیک بھان متی کا کنبہ اکٹھا ہو گیا، اب نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والی کیفیت ہے۔
تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک جماعت بمقابلہ 13 جماعتیں، ایک بڑا پیغام ہے کہ تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کیلئے تمام سیاسی پنڈت اکھٹے ہوئے ہیں تو گویا عمران خان نے عوامی نفسیاتی جنگ جیت لی ہے۔ پی ڈی ایم حکمراں اتحاد نے عمران خان کو اتنا بڑا لیڈر بنا دیا ہے کہ سب ملکر مقابلہ کر رہے ہیں مگر قابو کرنے میں ناکام ہیں۔ فیصلہ ساز بھی ساتھ ہیں مگر عمران خان کا بیانیہ پکڑ میں نہیں آ رہا، مقدمات، عدالتیں، ضمانتیں، الزامات، مقتدر حلقوں کی ناپسندیدگی، عوام کی نظروں میں عمران خان مظلوم و مسیحا بنتے جا رہے ہیں۔ یہ سب عناصر ایسے ہیں جو عوام میں مقبول ہیں، بیشک آپ چاہیں تو عمران خان کے بیانئے کا پوسٹ مارٹم کر ڈالیں، جھوٹ کا پلندہ قرار دیں، ڈھکوسلہ، جعلسازی، بکواس، مگر اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف بیانیہ پاکستان میں ہمیشہ مقبول رہا ہے۔
چوتھی اور بڑی وجہ یہ ہے کہ غیر متحرک، بے جان پی ڈی ایم یا حکمراں اتحاد عمران خان کی جیت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ہم نے دیکھا کہ عمران خان ضمنی انتخابی مہم کیلئے پوری طرح متحرک تھے، بھرپور مہم چلائی، ہر حلقے میں کامیاب جلسہ، مقامی تنظیمیں فعال، ایک دن میں پانچ، چار یا تین ایکٹیویٹیز، دوسری جانب یہ حال تھا کہ ن لیگ تو قطعی غیر فعال تھی، لگتا تھا ضمنی انتخابات میں کوئی دلچسپی ہی نہیں، مریم نواز لندن میں، شہباز شریف کار سرکار میں مصروف، حمزہ شہباز گھر سے باہر نہیں نکلے۔ خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق، احسن اقبال حالات حاضرہ پر دانشورانہ تبصرہ کرتے تو نظر آئے مگر جلسے جلوس کو اہمیت نہ دی، رانا ثنااللہ گنڈاسا بکف لانگ مارچ کو للکارتے اور مریم نواز ہر تحریک انصاف کے ہر جلسے کو ناکام ثابت کرتی نظر آئیں۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ن لیگ نے ضمنی انتخابات پورے جوش و خروش کیساتھ ہارنے کیلئے لڑا، اس کے بعد تو یہی ہونا تھا کہ فیصل آباد میں عابد شیر علی شرمناک انداز میں ہار جائیں۔ آصف زرداری علیل، بلاول عالمی محاذ پر مصروف، اس کے باوجود اگر دو نشستیں نکال لیں تو بڑی بات ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے نیم دلانہ ایک آدھ جلسہ تو کیا مگر مولانا قاسم جیسے امیدوار کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی انتخابی مہم نے کہیں نظر نہ آئی، سو باچا خان کا پڑپوتا، ولی خان کا پوتا اور اسفند یار کی بیٹا آبائی حلقہ ہار گیا، ایسے میں غلام بلور کی کیا بات کی جائے۔ رہی بات ایم کیو ایم کی تو حضور جتنے ووٹ انکے امیدوار نے لئے اتنے تو صدقے خیرات میں بانٹ دیا کرتے تھے، حقیقت تو یہ ہے کہ پوری پی ڈی ایم نے ضمنی انتخابی مہم میں تحریک اںصاف کو واک اوور دیا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ نواز شریف برہم ہوں، مریم ناراضگی جتائیں، لیگی قائدین وضاحتیں دیں، پیپلز پارٹی دو نشستیں لیکر نہال ہو، اے این پی اور ایم کیو ایم دھاندلی کے الزام لگائیں۔
پانچویں اور سب سے بڑی وجہ نومبر ہے، جیت کے بعد عمران خان کی باڈی لینگوئج مزید پر اعتماد ہوئی ہے مگر ان کو یہ سجھنا پڑیگا کہ چومکھی جنگ لڑی تو جا سکتی ہے مگر جیتی نہیں جا سکتی۔ نومبر کو 30 دنوں تک محدود رکھنے کیلئے سیاستدانوں کا ایک صفحے پر آنا لازمی ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ 70 سالوں میں سیاستدانوں نے یہ نہیں سیکھا کہ فیصلہ سازی پارلیمان میں کرنی ہے، کسی کی انگلی پکڑ کر نہیں، جب تک یہ نہیں ہو گا جمہوریت، سیاست اور سیاستدان معتبر و محترم نہیں ہو سکتے، ریاست مستحکم اور عوام خوشحال نہیں ہو سکتے۔