عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں چار خوف ناک غلطیاں کی ہیں۔
جمعرات 31 مارچ کو قوم سے ان کا خطاب ان کی سیاسی زندگی کا مشکل ترین خطاب تھا۔ اس موقع پر وہ دکھ کا بھی شکار تھے اور شدید غم و غصّے کا بھی۔ ایسے ہی مرحلے ہوتے ہیں جب ان کو اپنے جذبات پر قابو نہیں رہتا ہے۔ یہی ہوا اور عمران خان خود پر قابو نہ رکھ سکے اور وہ نہ چاہنے کے باوجود امریکا کو اپنے خلاف سازش کا ذمہ دار قرار دے بیٹھے۔
عمران خان کی تقریر کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
امریکا کو الزام دینے کے بعد انھیں غلطی کااحساس ہوا اور انھوں نے نہیں نہیں کہہ کر اس کے ازالے کی کوشش کی لیکن الفاظ تو تیر کی طرح ہوتے ہیں جو ایک بار منھ سے نکل جائیں، ان کا زہر ہو یا زخم، کبھی مندمل نہیں ہو پاتا۔
ان کی دوسری بڑی غلطی آزاد خارجہ پالیسی کا منترا تھی۔ اپنے خلاف سازش سازش کا مقدمہ ایک بار پھر ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ وہ کہتے کہتے رہ گئے کہ سازش کا دستاویزی ثبوت ان کے پاس موجود ہے لیکن کہہ نہ پائے اور۔ بالآخر بات اپنے سفیر کے کیبل تک ہی محدود رہی۔
یہ بھی پڑھئے:
کیا بھٹو اور عمران خان کے خلاف سازش ایک جیسی ہے؟
سازشی خط اور سیاں جی کے نام ایک چٹھی
عمران خان: وہ جیسا نظر آتا ہے ویسا ہے نہیں
ان کی تقریر کی تیسری بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے ایک بار پھر حزب اختلاف پر below the belt حملے کیے۔ ان حملوں کی وجہ سے انھوں خود کو ایک بار پھر ایک غیر سنجیدہ شخصیت قرار دیا۔
عمران خان کے اس طرز عمل کے نتیجے میں معاشرہ بدترین تقسیم کا شکار ہو جائے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ ماضی میں قوم 1977ء میں ایسی کیفیت سے دوچار رہ چکی ہے۔ یہ ہمارا ایسا خوفناک قومی تجربہ ہے جس کے نتیجے میں بھٹو صاحب کی جان گئی اور ملک کو طویل مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا۔
عمران خان کی چوتھی اور خوف ناک غلطی یہ ہے کہ آج وہ پارلیمنٹ میں نہیں گئے۔ انھیں یہ تقریر پارلیمنٹ میں کرنی چاہیے تھی۔ ایسا کر کے وہ پارلیمنٹ کی عزت میں بھی اضافہ کرتے اور اپنے عزت میں بھی۔ یہ بھی ممکن ہوتا کہ اس تقریر کے نتیجے میں سیاست کے میدان میں پائی جانے والی تلخی کچھ کم ہو جاتی۔ ممکن ہے کہ ان کی عوامی حمایت میں بھی کچھ اضافی ہو جاتا۔
ان چار غلطیوں نے عمران خان کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایسا لگتا نہیں کہ آئندہ دو تین روز میں وہ ان غلطیوں کا ازالہ کر پائیں گے۔