کسی قومی جماعت نے آج تک کوے، کتے یا پھر بھیڑئیے کو انتخابی نشان نہیں بنایا حالانکہ شیر اور شاہین کی طرح یہاں تیر بھی موجود ہے جس سے جان خطرے میں رہتی ہے
ملک میں جاری سیاسی ہلچل لمحہ بہ لمحہ بدلتی وفاداریاں ماضی کے رقیب یوں شیر و شکر ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔اور وہ جو ساتھ نبھانے کی قسمیں کھاتے تھے ۔ اب ملے تو یوں ملے جیسے جانتے نہیں.
خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں سارا سارا دن سیاسی تبصروں اور تجزیوں سے دل گھبرایا تو کچھ دیر فطرت سے دل لگانے کا سوچا جانوروں اور جنگلوں سے متعلق دستاویزی فلمیں بناتے دو تین چینلز کی ڈاکیومنٹریز دیکھیں تھوڑا سا مطالعہ کیا اور ایک لمحے کو سیاسی منظر نامے کو مدنظر رکھا تو ذہن چکرا گیا۔
یہ بھی دیکھئے:
ہمارے لیڈران خود کو شیر اور شاہین کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔سیاسی رہنما تو دور ایک عام آدمی کو بھی اگر کتا ،کوا یا بھیڑیا کہا جائے تو یقیناً برا مانے گا۔ ممکن ہاتھا پائی کی نوبت آجائے غور کریں تو برا لگنے پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے ہم کوئی کتے،کوے اور بھیڑئیے جیسے تھوڑی ہیں۔ خاص طور پر قومی شناختی کارڈ رکھنے والوں کا موازنہ ان جانوروں سے کرنا بالکل جائز نہیں ۔ ہماری نظموں قصوں کہانیوں اور کہاوتوں میں یہ جانور زیادہ تر منفی دکھائے جاتے ہیں ۔کسی شخص کو ہوشیاری پر کوے سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔۔ کسی کمیونٹی میں اگر مثالی ایکا ہو تو وہ کوؤں کی برادری قرار دی جاتی ہے ۔
بالکل اسی طرح اگر آپ کسی سے حد سے زیادہ مخلص ہیں تو ناقدین آپ کو فلاں شخص کا کتا کہہ کر پکاریں گے اور اگر آپ خود سے یا اپنے خاندان والوں سے زیادتی پر ایسے آگ بگولہ ہوتے ہیں کہ ملوث افراد کو چیرپھاڑ دیں تو آپ کو بھیڑیا قرار دیا جائے گا ۔۔واضح کردوں کو بھیڑیا قید پر بھوک اور محتاجی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ درندہ خوداری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا یہی وجہ ہے کہ بھیڑئیے سرکس میں شو دکھاتے نظر نہیں آتے ۔
یہ بھی پڑھئے:
قوم سے خطاب میں عمران خان کی چار خوف ناک غلطیاں
کیا بھٹو اور عمران خان کے خلاف سازش ایک جیسی ہے؟
سازشی خط اور سیاں جی کے نام ایک چٹھی
یہ بات بھی قابل ذکر کے بھوک مٹانے کیلئے کبھی بھیڑئیے کو بھیڑئیے کا شکار یا بڑے کوا چھوٹے کوے کو ہڑپ کرتا نظر نہیں آیا کتے بوٹیوں پر جھپٹتے ضرور ہیں مگر کبھی ایک دوسرے کی بوٹیاں نہیں نوچتے اب آتے ہیں شیر اور شاہین کی جانب ہمارے معاشرے بہادر آدمی کو شیردل کہا جاتا ہے ۔یعنی شیر کسی سے نہیں ڈرتا ۔۔ جبکہ یہ حقیقت نہیں اکثر ہاتھیوں کے جھنڈ یہ بپھرے بھینسوں کے ریوڑ کے سامنے شیر کو دم دبا کر بھاگتے دیکھا گیا ہے ۔
بھوک ستائے تو شیر اپنے ہی بچے کھا جاتا ہے ۔۔شیرنی کو زیر اثر لینے کیلئے وہ باقی شیروں سے لڑجاتا ہے ۔۔ اسے پنجرے میں بند کردیں روز تازہ گوشت کھلائیں شیر صاحب مزے سے پنجرے میں مٹر گشت کرتے رہیں گے۔۔ تھوڑی سی تربیت دیں تو سرکس میں بھی وہ کرتب دکھائے گا کہ بار بار دیکھو ہزار بار دیکھو ۔۔شیر ایک چڑیا گھر سے دوسرے چڑیا گھر بغیر چوں چرا کے چلا جاتا ہے۔کہیں شکار پڑا ہو تو طاقتور شیر کمزور شیروں کو ماربھگائے گا اور اکیلا سارا کھانا ہڑپ کر جائے گا ۔۔ان تمام برائیوں کے باوجود کسی کو شیر کہیں تو خوشی سے پھولا نہیں سمائے گا۔۔ شاہین کا معاملہ بھی زیادہ مختلف نہیں ۔۔بلند پرواز ،بلندی پر رہنے کا شوقین شکار کرکے کھاتا ہے۔
مگر پالتو بننے میں اسے بھی شرم نہیں آتی مالک کے ہاتھ پہ شان سے بیٹھتا ہے ایک اشارے پر دوسرے پرندوں کو دبوچ لینے پر داد وصول کرتا ہے ۔ کھانا پینا زبردست ملے تو کیا پہاڑی کیا بلندی محترم شاہین کو ان سے زرا بھی سروکار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کہ اکثر اقسام چڑیا گھر کی زینت بھی بن جاتی ہیں۔ مگر کوا کبھی آپ کے اشارے پر نہیں ناچے گا ۔۔ نہ ہی پنجرے میں قید ہونا چاہے گا ۔۔ مگر بھائی آپ شاہین ہیں کوا کہنا درست نہیں۔ جب ہمارے معاشرے غیرت ،حمیت اور وفاداری کی کوئی وقعت نہیں ۔مفاد پرستی کو سیاسی شعور اور دغابازی کو دوراندیشی قرار دیا جاتا ہے۔
لہذا معاشرے میں شیروں ،شاہینوں اور ٹائیگرز کی بھرمار ہے ۔۔ برادری کے بھلے کی خاطر کائیں کائیں کرتا کوا کوئی نہیں ۔ملک و قوم سے کتے کی طرح وفاداری نبھانا ہم نہیں جانتے ۔۔ حمیت اور غیرت کیلئے جان لڑانا بھیڑیوں کا کام ہے ۔۔ میں سوچتا ہوں کہ ایک دن کیلئے بھی ان جانوروں میں شعور آجائے اور ان کے سامنے کسی ایم این اے کو کوا ،بھیڑیا یا کتا کہا جائے تو اس شخص یہ قبل یہ جانور ہی اس کی درگت بنادیں گے کہ “کہ خبردار ہمیں بدنام نہ کرو “۔
یہ لوگ تو شیر ہیں ،شاہیں ہیں جو اچھی خوراک ملنے پر پنجرے کو مسکن بناتے ہیں شیر چڑیا گھر بدلتا ہے تو یہ پارٹی بدلتے ہیں کسی اور کے سرکس میں کرتب دکھاتے ہیں مالک کے اشارے پر نچلی پروازیں کرتے ہیں اور پھر ہاتھ پہ آ بیٹھتے ہیں ۔۔اچھی قیمت ملے تو مالک باز کسی اور شخص کو بھی بیچ سکتا ہے ۔۔ کتے کہے گا میں ایک بار جس کا کھاؤں مرتے دم تک اس کے گن گاؤں اس کی چوکھٹ پر جان دے دوں کہیں اور نہ جاؤں کوئی اس کی طرف بری نظر سے دیکھے تو بھنبھوڑ ڈالوں ۔۔ پارٹی بدلنا میری فطرت نہیں ۔۔ بھیڑیا شکوہ کرے گا کہ ہماری برادری میں ایک بھائی ن میں اور دوسرا پی ٹی آئی میں نہیں ہوتا ہم ن صحیح معنوں میں نظریاتی جاندار ہیں۔
ہم دنیا کی کسی طاقت کے تابعدار نہیں ہیں ۔۔ ممکن ہے ہارس ٹریڈنگ اور ڈونکی ٹریڈنگ کی اصطلاح پر گھوڑے اور گدھے بھی بدک جائیں۔ گدھا بنیادی طور پر محنت کش جانور ہے کام کرتا ہے تو گھاس ملتی ہے ۔۔ حرام خوری اس کی فطرت میں شامل نہیں اسی طرح گھوڑا دوڑتا ہے تو انعام پاتا ہے جنگ کا میدان ہو یا کھیل کا اس کی اہلیت اس کی اہمیت کی وجہ ہوتی ہے ۔۔نااہلی پر گھوڑے کھیل میں شامل ہوتے ہیں نہ میدان جنگ میں۔
اوپر بتائی گئی تمام باتوں کا بغور جائزہ لیں تو ہم بے شک شیر ہیں شاہین ہیں کسی صورت بھی کوے کتے یا بھیڑئیے کہلانے کے اہل نہیں ہماری وفاداری برائے فروخت ہے ہم کسی ایک کے ہوکر نہیں رہ سکتے۔۔ہمارا نصب العین مجھے نوٹ دکھا میرا۔موڈ بنے ہے ۔۔ اس چیز کا ادراک شاید سیاسی قائدین بھی رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کسی قومی جماعت نے آج تک کوے یا کتے یا پھر بھیڑئیے کو اپنا انتخابی نشان نہیں بنایا لیکن شیر یہاں بھی موجود ہے ۔۔شاہین یہاں بھی پایا جاتا ہے ۔۔ اور وہ تیر بھی موجود ہے جس نے ہمیشہ انسان کی جان ہی لی ہے ۔۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے قائدین اور رہنما واقعی شیر ہیں شیر ۔۔کاش یہ لوگ کوے ،کتے اور بھیڑئیے ہوتے تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا خدا پاکستان کی حفاظت فرمائے۔