ہوا کے دوش ہر بھیجے جانے والے اس خط میں قوم کے ارماں شامل ہیں اگر وہ تھا بیرونی خط تو یہ ہے اندرونی چٹھی اور سیاں جی کے نام
ویسے تو یہ خط 27 دسمبر کی شام کو ہی لکھا جا چکا تھا اور در اصل اس بیرونی خط کا جواب عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی صورت میں پریڈ گرائونڈ میں پاکستان کے ملیننز لوگوں نے دے دیا تھا ۔
کہتے ہیں پاکستان کی تاریخ میں اتنا بڑا جلسہ کبھی نہیں ہوا ۔جلسہ کیا تھا یہ ان طاقتوں کے منہ پر ایک طمانچہ تھا جو کہتے تھے کہ عمران خان اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں اب لوگ ان کے ساتھ نہیں ہیں عمران خان کو پیسے کے زور پر نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا جواب 27 کے جلسے کے ذریعے عمران خان نے دے دیا ہے ۔
یہ بھی دیکھئے:
آپ کہہ سکتے ہیں اس ‘اندرونی خط’ نے یہ ثابت کیا کہ جو Absuletly Not کا پیغام فرزند پاکستان فخر وطن نے صحافی کو دیا تھا یہ اسی کی تصدیق ہے اور اس اعلان پر مہر تصدیق بھی قومیں جھٹکوں کے بعد سنبھلتی ہیں ۔پی ٹی آئی کو اس جھٹکے نے جھنجھوڑا ہے لوگ ایسے اٹھے ہیں جیسے ان کے گھر پر حملہ ہو۔قومیں آلوؤں پیاز ٹماٹروں اور گھی چاول کی قیمت سے نہیں بنتیں بلکہ غیرت سے بنتی ہیں جس کا ثبوت پاکستان کے غیور عوام نے گزشتہ اتوار کو شکرپڑیاں کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع گرائونڈ پر دے دیا ہے ۔کپ گہوٹکی سے علی بشیر گجر نے یہ بتا کر دل باغ باغ کر دیا کہ گنے کی بمپر کراپ ہوئی ہے اور اس کی قیمت بھی کیش مل رہی ہے
آنے والے خط میں جناب وزیر اعظم کو جو دھمکیاں دی گئی ہیں اس کا جواب قوم نے عمران خان پر کھلا اعتماد کر کے دیا ہے ۔یہ جلسہ اس وقت ہوا ہے جب تنظیمیں غیر فعال تھیں ۔پارٹی کا ہر کارکن تنظیم تھا خود میرے گھر گجر گھر 502 سے ریلی نکلی اسی طرح ہر متحرک کارکن اپنے ساتھ لوگوں کا جم غفیر لے کر گیا
قارئین!
ہوں گے کچھ لوگ جن کی نیتوں میں فتور پیدا ہوا ہو گا کہ اسے اب چلتا کرتے ہیں اور اس کی جگہ نئی صورتیں لائی جائیں۔صورتیں نئی نہیں وہی چلے ہوئے کارتوس بوسیدہ چہرے جنہوں نے اس ملک کے وسائل کو شیر مادر سمجھ کر پیا ۔
قوم ان سے یہ پوچھتی ہے کہ دو چیزیں ہیں یا پاکستان تباہ ہو چکا تھا یا یہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں 2018 کی رپورٹس اٹھا کر دیکھ لیں یہ آپ کو بتا رہی ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ۔ شہباز شریف نے کہا تھا کہ آئیں اب ہمیں معیشت ٹھیک کر کے بتائیں ۔
اگر ملک کی صورت حال تباہ تھی خزانہ خالی تھا ڈر تھا کہ ملک کے باہر اثاثے قرض دینے والوں کے ہاتھوں جا رہے تھے تو پوچھنا یہ ہے کہ یہ صورت حال کا نے پیدا کی تھی ؟کس نے پاکستان کے بال بال کو قرضے میں جکڑ کے رکھ دیا تھا ؟ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ حکمرانی کرتے رہے زرداری اور نواز شریف اس عشرہ ء سیاہ اور عشرہ الحزن میں یہی دو حکمران تھے تو پھر کیا عیدی امین اس ملک کو کھا گئے کہ نواز شریف شہباز شریف زرداری یوگنڈہ اور صومالیہ کے حکمران تھے یا اسی ،،بد نصیب پاکستان،، پر صدر اور وزیر اعظم وزیر اعلی بن کر اس ملک کے لوگوں کی ہڈیوں کا گودہ کھا گئے تھے ۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان: وہ جیسا نظر آتا ہے ویسا ہے نہیں
عمران خان کا قصر حکمرانی اور منہ زور آندھی
تحریک عدم اعتماد: وہ تیرگی جو ‘تیرے’ نامہ سیاہ میں تھی
بد قسمتی دیکھئے یہ لوگ آج ایک ہو رہے ہیں نوے کے عشرے میں ان دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کی آج کے اس کھلے خط میں میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا میں اس روز انڈین چینل پر تھا وہاں شیڈو کابینہ کا اعلان کیا جا رہا تھا جس میں صدر آصف علی زرداری بتائے گئے تھے اور وزیر اعظم شہباز شریف جہانگیر ترین کو بھی عہدہ دیا گیا اور مریم کو بھی ۔
میں نے ایک سوال پوچھا کہ حضور یہ بھی پوچھ کر بتائیے گا کہ لاڑکانہ ملتان اور لاہور کی سڑکوں پر جناب وزیر اعظم نے عزت مآب صدر کو حلف سے پہلے گھسیٹنا ہے یہ بعد میں خط کے اس حصے میں پاکستان کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ انڈیا کے چینلز پر جائیں تو وہاں بڑی چالاکی اور ہشیاری سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فوج اور عمران خان کی لڑائی شروع ہو گئی ہے اللہ کا شکر ہے پاکستان سے سارے شرکاء اس کی نفی کر رہے ہیں سب ہی کہہ رہے ہیں کہ یہ جمہوری لڑائی ہے نمبرز گیم ہے جس کے پاس 172 ہوں گے وہ جیت جائے گا۔
قارئین محترم!
سچ پوچھیں دنیاوی خدا ترقی کے راستے پر چلتے پاکستان کی گاڑی کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔ میں کل راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں تھا پہلی بات ہے دعا کیجئے اپریل کے وسط میں میری بائی پاس سرجری ہے اللہ کامیاب کرے وہاں چکوال سے آئے مسلم لیگ ن کے ایک سابق چیئرمین جو علاج کے لیے تشریف لائے تھے جب ان کے صاحبزادے کو بتایا کہ دل کے علاج کے لیے سٹنٹس بائی پاس بیٹری وغیرہ سب ہیلتھ کارڈ پر ہو گی وہ کہنے لگے ہم تو نون لیگ کے ہیں اور ہمیں کون ہیلتھ کارڈ دے گا ۔یہ نون لیگیئے بڑے ،،معصوم،، ہوتے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ شناختی کارڈ ہی ہیلتھ کارڈ ہے ۔چیئرمین جو دلہہ سے تھے ان کے صاحبزادے بہت خوش ہوئے۔ اس قسم کی سہولت سعودی عرب اپنے شہریوں کو نہیں دے سکا
جو آج پاکستان کی اکثریت کو مل رہی ہے ۔کل۔ہی عالمی ادارے بلیننز ٹری سونامی کو سراہا رہے تھے
البتہ اس خط میں میں میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے درخواست کروں گا کہ یہ سہولت فوجی ہسپتالوں میں بھی دی جائے آخر پیسے دے کر ہی علاج ہونا ہے ۔انشورنس کمپنی مریض کا علاج مفت تو نہیں کروائے گی
۔پاکستان تحریک انصاف کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کے بیان کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن مختصرا بتاتا چلوں کہ پاکستان ترقی کے راستے پر چل نکلا ہے ۔5.37 فی صد گروتھ اور وہ بھی کرونا کے دنوں میں ایک حیرت انگیز کامیابی ہے ۔اپ ٹیکسٹائل میں انڈیا اور بنگلہ دیش کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں
خط کے اس حصے میں پوچھنا ہے کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو مہنگائی مہنگائی کا رونا روتے تھے آج آپ مہنگائی بھول کر اس بات پر باہر نکلے ہو کہ عمران خان نے یورپ اور امریکہ سے تعلقات خراب کر لئے ہیں چلیں اگر مان بھی لیں تو کیا چین اور روس سے دوستی بڑھی ہے یا نہیں ۔کل نجم سیٹھی انڈین ٹی وی کو بتا رہے تھے کہ عمران خان کے رہنے سے پاکستان میں اسلام مضبوط ہو گا اور عمران خان کے انڈیا سے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے وہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کو بگاڑے گا ۔
یہ تو صورت حال ہے آج انڈیا اسرائیل امریکہ پاکستان کے خلاف ہو چکے ہیں ان کے آلہ ء کار بنے ہیں نون لیگ پیپلز پارٹی جمعیت العلمائے اسلام عوامی نیشنل پارٹی اور ،،باپ،،
مجھے 1977 کا قومی اتحاد یاد آ رہا ہے پاکستان نیشنل الائنس میں بھی یہی لوگ تھے ولی خان اکبر بگٹی مفتی محمود شاہ احمد نورانی یہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھے ڈالر لاہور میں سستا ہو گیا تھا ہنری کسنجر کی دھمکی بھی آ چکی تھی بھٹو کو ،،مثال ،،بنا دینے کی وارننگ تھی پاکستان کے حکمرانوں کو یہ پہلا خط نہیں ہے ایک خط ہنری کسنجر نے بھی دیا تھا جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تھا۔
آج پاکستان کے محبوب ترین لیڈر کو دھمکایا جا رہا ہے لیکن پاکستان بدل چکا ہے آج سوشل میڈیا کا دور ہے آج کسی کو منظر عام سے ہٹانا آسان نہیں ہے۔
ہوا کے دوش ہر بھیجے جانے والے اس خط میں قوم کے ارماں شامل ہیں اگر وہ تھا بیرونی خط تو یہ ہے اندرونی چٹھی اور سیاں جی کے نام۔