آپ بھٹو کے حق میں ہیں یا مخالف، عمران خان کی حامی ہیں یا خلاف، سازش کا مختصر احوال یہ جاننے کیلئے کافی ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دھرا رہی ہے
ذوالفقار علی بھٹو کو کس نے مارا؟ آزاد عدلیہ؟ فوجی آمر ضیاالحق یا پھر امریکہ؟ پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) یعنی اپوزیشن اتحاد؟ آج لگ بھگ چار عشروں بعد اس واقعے کو قتل کا مقدمہ نہیں بلکہ مقدمے کا قتل جانا جاتا ہے۔ امریکی سازش کے طور پہچانا جاتا ہے۔ کیا تاریخ اپنے آپ کو دھرا رہی ہے، کیا وزیر اعظم عمران خان کو بھی اسی طرح کی عالمی سازش کا سامنا ہے؟
بھٹو صاحب نے 28 اپریل 1977 کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا پاکستان قومی اتحاد ایک عالمی سازش ہے جو ایک بڑی قوت کے ذریعے تیار کی گئی ہے۔ سفید ہاتھی میرے خون کا پیاسا ہے۔ چند دنوں بعد پنڈی کے راجہ بازار میں تقریر کرتے ہوئے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک خط نکال کر لہرایا اور کہا کہ سفید ہاتھی کی طرف سے ’پارٹی از اوور‘ کا پیغام دیا گیا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
5 جولائی 1977 جنرل ضیاالحق جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر بیٹھے۔ عدالت میں نواب محمد احمد قصوری قتل کیس کی سماعت، معزز عدالت میں بھٹو صاحب نے بیان دیتے ہوئے واضح کیا کہ چونکہ انہوں نے پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کا عزم کر رکھا ہے، امریکی مطالبہ مسترد کر چکے ہیں لہذا ہنری کسنجر نے دھمکی دی کہ تمہیں عبرتناک مثال بنایا جائیگا۔
پانچ ماہ لاہور ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک مشکوک قانونی کارروائی چلتی رہی۔ بالاخر جنرل ضیاالحق کے عہد جبر میں سپریم کورٹ نے بھٹو کو سزائے موت سنائی اور 4 اپریل 1979 کو منتخب وزیر اعظم کو پھندے سے لٹکا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے 7 میں سے 3 معزز ججز نے سزائے موت سے اختلاف کیا تھا، پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سیاہ باب کو آج عدالتی قتل تسلیم کیا جاتا ہے، بینچ میں شامل چند معزز جسٹس صاحبان تو یہ اعتراف بھی کر چکے کہ عدلیہ پر شدید دبائو تھا، یہ المیہ تاریخ کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سازشی خط اور سیاں جی کے نام ایک چٹھی
عمران خان: وہ جیسا نظر آتا ہے ویسا ہے نہیں
عمران خان کا قصر حکمرانی اور منہ زور آندھی
تحریک انصاف حکومت کو اپوزیشن اتحاد کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔ عمران خان نے بھی چند روز پہلے جلسے میں ایک خط لہرا کر عوام کو بتایا کہ انہیں عالمی سازش کا سامنا ہے۔ دھمکی دی گئی ہے۔ مزید برداشت نہیں کیا جائیگا۔ پہلے پہل تو اسے محض ایک سیاسی دعویٰ سمجھا گیا مگر معاملہ اس وقت سنگین رخ اختیار کر گیا جب حکومت نے نہ صرف یہ مراسلہ عسکری ادروں سے شیئر کیا بلکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ، اتحادی پارلیمانی قائدین حتی کہ چند صحافیوں تک کو دکھانے کی بات کی گئی۔ سو اب یہ معاملہ سیاسی حدود سے نکل کر قومی سلامتی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے، اگریہ اتنا ہی سنگین ہے جتنا بتایا جا رہا ہے تو اب یہ ایک سنجیدہ معاملہ بن چکا ہے جو قومی رد عمل کا متقاضی ہے۔
اب ایک بار پھر ماضی کی جانب لوٹتے ہیں، پاکستان قومی اتحاد کیا تھا؟ اپوزیشن کے جماعتوں جمیعت العلمائے اسلام، جمیعت العلمائے پاکستان، تحریک استقلال، جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ، این ڈی پی یا موجودہ اے این پی، بلوچستان نیشنل پارٹی، مسلم لیگ قیوم، مسلم لیگ فنکشنل، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، جنہیں نو ستارے کہا جاتا تھا۔ سیاسی اتحاد یا بھٹو مخالف تحریک میں مفتی محمود، شاہ احمد نورانی، اصغر خان، نوابزادہ نصراللہ خان، میاں طفیل محمد، ولی خان، چوہدری ظہور الہی، پیر پگارا پیش پیش تھے۔
یہ اتحاد مختلف الخیال، مختلف الجہت، مختلف المقاصد نوعیت پر مشتمل تھا جس کا واحد مشترکہ مقصد بھٹو حکومت کو ہٹانا تھا۔ ذرا یہ بھی جانتے چلیں کہ عدلیہ میں کون کون شامل تھا، سب سے پہلے تو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق، جنکا عدالتی رویہ، ریمارکس اور فیصلہ آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ سپریم کورٹ میں بھٹو کو پھانسی دینے حق میں چیف جسٹس انوار الحق، جسٹس محمد اکرم، جسٹس کرم الہی چوہان، جسٹس نسیم حسن شاہ شامل تھے، جسٹس نسیم حسن شاہ یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ بھٹو کو پھانسی دینے کیلئے عدلیہ پر جنرل ضیاالحق کا شدید دبائو تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسٹس دراب پٹیل، جسٹس غلام صفدر شاہ اور جسٹس محمد حلیم نے دبائو کے باوجود انصاف کرتے ہوئے فیصلے سے اختلاف کیا۔
رہی بات جنرل ضیاالحق کی، تو انہوں نے اقتدار کے لالچ میں جس طرح مذھب کارڈ استعمال کیا اسے قوم آج بھی بھگت رہی ہے۔ گیارہ سالہ آمریت میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا مذھب کارڈ کے ذریعے پھیلنے والی فرقہ پرستی، مسلکی نفرت، انتہا پسندی، تعصب اور شدت پسندی کی فصل نے جو پاکستان کے عوام آج تک کاٹ رہے ہیں۔ اب آخری فریق امریکہ، امریکی وزیر خارجہ نے عبرتناک مثال بنانے کا کہا یا نہیں، اسکی تصدیق تو نہیں کی جاسکی مگر ہنری کسنجر نے لاہور میں بھٹو سے ایٹمی پروگرام بند کرنے کو کہا جس سے انکار کیا گیا۔ اسکی تصدیق امریکی حکام بھی کرتے ہیں۔
قطع نظر کہ آپ بھٹو کے حق میں ہیں یا مخالف، عمران خان کی حامی ہیں یا خلاف، ماضی کا مختصر احوال یہ جاننے کیلئے کافی ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دھرا رہی ہے۔ جلسے، جلوس، ریلیاں، تقاریر، سیاسی جوڑ توڑ، بیانات، الزامات، بڑی مماثلث ہے۔ اس وقت بھی امریکہ ناراض تھا، اسلامی بلاک، تیل کا ہتھیار، ایٹمی پروگرام، آج بھی امریکہ ناراض ہے۔ چین کا علاقائی اتحاد، ون بیلٹ ون روڈ اور پھر روس کا حالیہ دورہ، عالمی بساط پر مہروں کی صف بندی یکساں نظر آتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر بھٹو کا عدالتی قتل امریکی سازش تھی تو اس میں کون کون شریک جرم تھا، فوجی آمر، عدلیہ، حزب اختلاف؟ ہاتھی تو سفید ہی رہا ہو گا مگر مہاوت تو کالے تھے ناں۔