منی بجٹ کیا تباہی لائے گا؟ اس سے عوام کی زندگی کس طرح متاثر ہوگی اور لوگوں کے مسائل پہلے کی نسبت بڑھ جائیں گے۔
اس موضوع پر پاکستانی عوام خوف و ہراس کے عالم بہت دنوں سے غور کر رہے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن ہے۔ مہنگائی کا بم ہے۔ اس کی وجہ سے شیر خوار بچوں سے دودھ اور مریضوں سے دوائیں چھن جائیں گی۔ یہ بھی درست ہے کہ اس سے اسٹیٹ بینک پارلیمنٹ کی گرفت سے نکل جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے عوام کی زندگی فوری طور پر متاثر کیسے ہوگی؟
ریاست اپنے عوام پر دو طرح کے ٹیکس عاید کرتی ہے۔
منی بجٹ کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
1- براہ راست ٹیکس
2- بالواسطہ ٹیکس
سمجھ دار، بالغ نظر اور عوام دوست حکومتیں براہ راست ٹیکس عائد کرتی ہیں۔ کیوں کہ ایسی حکومتوں کا صرف ایک ہی چہرہ ہوتا ہے۔ وہ دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کے دعوے کر اقتدار میں آنے کے بعد عوام دشمنی پر نہیں اتر اتیں۔ درست فیصلے کرتی ہیں اور بروقت فیصلے کرتی ہیں۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں نہ آٹااور چینی کے نرخ آسمان پر پہنچتے ہیں اور نہ بلیک مارکیٹنگ کر کے دولت کمانے والے کابینہ میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ براہ راست ٹیکس لگاتی ہیں۔ براہ ٹیکس کیا ہے:
1- انکم ٹیکس
2- دولت ٹیکس
3- زرعی ٹیکس
اس کے مقابلے میں کئی چہرے رکھنے حکومتیں ہوتی ہیں۔ ایسی حکومتیں عوام کو دھوکا دینے کی عادی ہوتی ہیں۔ ایسی حکومتیں خفیہ ٹیکس لگاتی ہیں۔ یہی کام موجودہ حکومت نے بھی کیا۔ طاقت ور طبقات پر براہ راست ٹیکس لگانے کے بجائے عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگا دیے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان حکومت کی بے تدبیری سے دفاع بھی خطرے سے دوچار
بلوچستان کا سال نو کے لیے سب سے بڑا چیلنج؛ معدنیات کی آمدنی
تیس دسمبر: آج پاکستان کی نامور گلوکارہ کوثر پروین کی برسی ہے
یہی وجہ ہے کہ اس منی بجٹ کے ذریعے شیر خوار بچوں سے دودھ اور مریضوں سے دوائیں مزید دور کر دی گئیں۔۔ اسٹیٹ بینک پر پارلیمنٹ کی بالادستی ختم کر کے معیشت غیر ملکی طاقتوں کے گرفت میں دے دی گئی۔ منی بجٹ نے پاکستان کا معاشی قبلہ بدل کر خوفناک تباہی کاراستہ کھول دیا۔ ان معنوں میں یہ مہنگائی کا محض ایک بم نہیں تباہی کا کلسٹر بم ہے۔ یعنی ایک ایسا بم ہے جس میں چھپے ہوئے مزید سیکڑوں بم مدتوں عوام کی زندگی میں تلخی گھولتے رہیں گے۔
تباہی کے اس کلسٹر بم کے بعد ایک اور عذاب پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی کی شکل میں آنے والا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد پاکستانی عوام کو یہ لیوی چار روپے فی لیٹر ادا کرنی ہے۔ ہر پندرہ روز کے بعد جب پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو گا تو اس کے نتیجے میں یہ لیوی ازخود بڑھ جائے گی۔ اس طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر پندرہ روز کے بعد دوہرا اضافہ ہو گا۔
یہ ہے اس حکومت کی معاشی پالیسی اور یہ ہے وہ کلسٹر بم جو پاکستانی عوام تقریباً گر چکا ہے۔