الہان عمر اور راشدہ طالب و ہ پہلی دو مسلمان امریکی سیاستدان خواتین ہیں جو امریکی ایوان نمائند گان کی ممبر بننے میں کامیاب رہی ہیں. انھوں نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم پر الیکشن جیتا۔ مسلم خواتین کی کامیابی امریکہ میں بسنے والی مسلمان کمیونٹی کیلئے اُمید کی کِرن سمجھی جارہی ہے۔ اسی طرح پوری اسلامی دنیا کیلئے بھی۔
وہ امریکیوں کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گی۔ مسلمانوں کا وہ تشخص جو نائن الیون کے واقعے مسخ ہوا، بحال کرا سکیں گی۔
یہ بھی دیکھئے:
الہان عمر راشدہ طالب سے عمر اور تجربہ کے لحاظ سے پیچھے ہیں۔ لیکن اسلامی اقدار سے لگاؤ اور مسلمانوں کے حوالے سے ان کے دو ٹوک موقف نے ان کا قدبڑھا دیا ہے۔ صومالین نژادافریکن امریکی الہان عمر ریاست پنسوٹا سے پہلی امریکی مسلمان رکن ہیں۔ ان کی حالیہ سیاسی خدمات میں بہت نمایاں ہیں جیسے:
1۔ امریکہ میں لیبر کے لئے کم از کم پندرہ ڈالر فی گھنٹہ اجرت مقرر کر نے کیلئے آواز بلد کرنا۔
2۔ یونیورسل ہیلتھ کیئر۔
3۔ غیر قانونی تارکین وطن بچوں کے زیرالتوکیسز کی تکمیل۔
4۔ طلباء کے قرضو ں کی معافی۔
5۔ امیگریشن اور کسٹم انفورسمنٹ کے خاتمہ کی تحریک۔
6۔ اسرائیل کے خلاف معاشی و تجارتی پابندیوں کی تحریک کی حمایت۔
7۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف مسلسل آواز بلند کرت رہنا۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ دو تباہیاں جو اس منی بجٹ سے فوری طور پر آئیں گی
جلتا رہا چراغ یقین و گمان کا: منفرد موضوع پر اثر ناول
تیس دسمبر: آج پاکستان کی نامور گلوکارہ کوثر پروین کی برسی ہے
الیہان عمر امریکی ایوان میں اس کا سکارف اوڑھ کرآنے والی پہلی امریکی کانگرس رکن ہیں۔ اپنے ایک کالم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کی بنیادی وجوہات پر ذکر کر چکا ہوں۔ جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ نسلی تعصب اور اسلام مخالف نظریات ایک اہم عنصر تھا۔
آج ٹرمپ کو رخصت ہوئے ایک سال ہونے کو ہے۔ لیکن ابھی اس کی نسلی تعصب اور اسلام دشمن اقدامات و بیانات کا چھوڑے جانے والا رنگ ابھی تک دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وہ اس طرح کہ گزشتہ ماہ ریپبلکن نمائندہ ایوان ہوئے برٹ نےالہان عمر پر طنز کرتے ہوئے انھیں ”جہاد اسکواڈ“ کے نام سے پکارا۔ جو کہ کسی بھی صورت میں بُرا مذاق تھا اور اسلامی تشخص و تہذیب پر ایک کاری ضرب لگانے کی کوشش تھی۔
ا لیہا ن عمر نے اس واقعے کو ذاتی انا کا مسئلہ نہیں بنیا۔ انھوں نے امریکی کانگریس میں اسلامو فوبیا کے خلاف بل پیش کرکے اسے منظور بھی کرا لیا۔
اس بل کے تحت امریکہ میں اسلام فوبیا کے شکار لوگوں کے حالات کو سمجھنے اور اسے بہتر بنانے کی بات کی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک نمائندہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
الہان عمر بل کے اثرات
یہ بل امریکی مسلمانوں کے تحفظات و خدشات دور کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس بل کی منظوری سے ایک اور تاثر بھی قوی ہوا ہے۔ تاثر یہ ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کے بارے میں سب لوگ ایک طرح سے نہیں سوچتے۔
یہ اس کے باوجود ہے کہ ٹرمپ کے نظریات پر کاربند ری پبلیکنز کے اسلام مخالف جذبات برقرار ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ الہان عمر کو الیکشن مہم کے دوران مشکلات کا سامن کرنا پڑا۔ ان کے خلاف نسلی اور مذہبی تعصب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس ضمن میں صدر جو بائیڈن اور ڈیمو کریٹکس کا الہان عمر کا ساتھ دینا قابلِ ستائش ہے۔ جس سے نا صرف امریکہ میں بلکہ پوری دنیا میں اسلام فو بیا کے خاتمہ میں مدد ملے سکے گی۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا، خاص طور پر او آئی سی بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔