”جلتارہا چراغ یقین وگمان کا” علی ارشدرانا کا پہلا ناول ہے اورپہلے ہی ناول میں انہوں نے اپنی تحریری صلاحیتوں کالوہامنوالیا ہے۔ ارشدرانانے سوانحی ناول میں ایک ایسے موضوع کوچناہے۔جو وقت کی اہم ضرورت ہونے کے باوجود ہمارے مصنفین کی گرفت سے دور رہا ہے۔کئی اعتبارسے اسے ناول کہنابھی دشوارہے۔علی ارشد رانا نے کتاب کانام اور عنوانات بھی شعراء کے خوبصورت مصرعوں سے لے کرخود کوصاحبِ ذوق ثابت کیاہے۔ اور ان شعراء کی ان الفاظ میں ستائش بھی کی ہے۔ ”حرفِ ستائش ومحبت ان سخنوروں کے نام جن کے زندہ جاویدمصرعے اس کتاب کے عنوانات کی زینت بنے۔”
علی ارشدراناکاتعلق پنجاب کی صوبائی سول سروس سے ہے۔آج کل بطورایڈیشنل سیکریٹری زراعت خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔قبل ازیں پنجاب کے ایک درجن سے زائداضلاع میں انتظامی عہدوں پرتعینات رہے ہیں جن میں چارتعیناتیاں بطوراسسٹنٹ کمشنراورتین بطورایڈیشنل ڈپٹی کمشنرقابلِ ذکرہیں۔ پنجاب یونیورسٹی ،لاہورسے ایم اے انگریزی ادب اورایل ایل بی جبکہ سپیریئریونیورسٹی ،لاہورسے ایل ایل ایم کی ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں۔1997ء میں زمانہ طالب علمی کے دوران انگریزی زبان کی تدریس پرپانچ کتابیں مرتب کیں جن میں تین کے درجنوں ایڈیشن لاہورکے درسی کتب شائع کرنے والے ایک بڑے ادارے کی جانب سے شائع کیے جاچکے ہیں۔محکمہ زراعت میں اپنے دوسالہ عرصہ تعیناتی کے دوران مختلف پیشہ ورانہ موضوعات پر چھ عددکتابوں کی تصنیف/ تدوین/ترجمہ کرچکے ہیں جبکہ مزید دوکتابیں اشاعت کے لیے تیارہیں۔سی ایس ایس کے امتحان کے لیے انگریزی زبان پران کی دوعدد کتابیںبھی جلدشائع ہورہی ہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
کتاب کے منفردانتساب مختلف دوستوںکے نام کچھ یوں کیاہے اورانہیں خوبصورتی سے خراجِ تحسین پیش کیاہے۔”ہواکے لب پہ نئے انتساب سے کچھ ہیں” ،”میثم عباس کی ان شب خیزیوں کے نام جواس تحریرکوبناتے،نکھارتے اوراجالتے ہوئے بسرہوئیں”،”کاشف منظورکے ان اوقاتِ شام وسحرکے نام،جومیرے جملوں کی نوک پلک سنوارتے گزرے”،” ڈاکٹرمحمودکاوش کی اردوزبان پردسترس کے نام،جوزبانِ شیریں پرمیری گرفت کومضبوط کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوئی”،”مزمل صدیقی کے اسلوبِ بیاں کے نام،جس سے اس تحریرکوتزئین ورعنائی میسرآئی”،” پروفیسرشاہدستارکی نکتہ آفرینی کے نام،جن سے کسی مقام غیرپرپڑاہواسکتہ،نقطہ اوروقفہ تک نہ چھپ سکا” ،” شہزادرفیق کی ہمہ وقت قابل دستیاب مشاورت کے نام، جن سے بات کرنااتناہی سہل لگنے لگاتھاجیسے خودسے بات کرنا”،” گل شیربٹ کی بے لوث معاونت کے نام،جوبن کہے میسرآئی اورمجھے اپنی خوش نصیبی پررشک کاموقع دیا”،”آغاسہیل سے پہلی ملاقات میں ہوجانے والی دوستی کے نام،جواکثرلوگوںکے ساتھ اک عمرگزارکربھی نصیب نہیں ہوتی”اور” شفقت حبیب کے خلوص،اپنائیت اوراحساس ذمہ داری کے نام،جس نے مجھے تقویت بخشی اورمیراکام آسان کردیا۔”
پاکستان سول سروس کے سینئراور اعلیٰ افسران کاتعلق ہمیشہ اردوادب سے رہاہے۔ملک کے صف اول کے سول سرونٹس نے قیام پاکستان سے لے کراب تک بے مثال ادب تخلیق کیاہے۔جن میں قدرت اللہ شہاب،مختارمسعود،شیخ منظورالٰہی،مسعودمفتی،الطاف گوہر،جیون خان ، شہاب الدین رحمت اللہ اورجمیل یوسف جیسے صف اول کے مصنفین شامل ہیں۔قدرت اللہ شہاب ”شہاب نامہ”مختارمسعود،” آواز دوست ” ،”لوحِ ایام ” اور”حرفِ شوق”الطاف گوہر”لکھتے رہے جنوں کی حکایات”مسعودمفتی” دومینار”،”ہم نفس ”،”لمحے” اور”چہرے” شہاب الدین رحمت اللہ ”شہاب بیتی” شیخ منظورالٰہی”دردلکشا”،”سلسلہ روزوشب” اور”ہم کہاں کے داناتھے”جیون خان”جیون دھارا” اور جمیل یوسف متعدد سفرناموں،شعری مجموعوں،تاریخی کتب کے علاوہ آپ بیتی”زندگی کی رہگزرپر”جیسی تخلیقات سے اردوادب کادامن وسیع اوروقیع کیا۔علی ارشدرانااس فہرست میں تازہ ترین اضافہ ہیں اوران کے نقش ِ اول سے اچھی امیدیں قائم کی جاسکتی ہیں۔
”جلتارہاچراغ یقین وگمان کا”ہرگھرسے جڑی کہانی ہے۔بڑھتی ہوئی مصروفیت کے اس دورمیں والدین کے پاس بچوںکی تعلیم پرتوجہ دینے کے لیے وقت میسر نہیں ہے۔ایسے میں بچے مختلف قسم کے نفسیاتی عوارض کاشکارہوجاتے ہیں ،جس سے ان کی تعلیم بری طرح متاثر ہو تی ہے ۔ناول کاپیغام بھی یہ ہے کہ اپنے بچوں پرتوجہ دیں۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان حکومت کی بے تدبیری سے دفاع بھی خطرے سے دوچار
بلوچستان کا سال نو کے لیے سب سے بڑا چیلنج؛ معدنیات کی آمدنی
انتیس دسمبر: آج نامور ہدایت کار محمد جاوید فاضل کی برسی ہے
مجیب الرحمٰن شامی نے لکھاہے۔” علی ارشدرانا جانے پہچانے سرکاری افسرتوہیں ہی لیکن ”جلتارہاچراغ یقین وگمان کا” کے مطالعے کے بعد وہ مجھے ناول نگاروں اوردانشوروں کی صف میں بھی ممتازنظرآتے ہیں۔یہ ایک باپ کی اپنے بیٹے سے محبت کی کہانی ہے کہ کس طرح اس نے اسے ذہنی معذورہونے سے بچایا،اس کی کمزوری کواس کی طاقت بنایا۔علی ارشداوران کے بیٹے دانش کی یہ کہانی ناقابل ِ یقین ہے،لیکن اس پریقین کیے بغیرچارہ نہیں ہے کیوں کہ اس کے کردارہمارے سامنے موجود ہیں۔علی ارشدرانا نے جس طرح اپنے بیٹے کوسنبھالا،اپنی اور اس کی دنیاکوجس طرح اجالایہ سب پڑھنے سے تعلق رکھتاہے۔میں نے اسے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالاکہ اس میں ایک رومانی ناول کی چاشنی اورایک جاسوسی کہانی کاتجسس اورسنسنی موجودہے۔علی ارشدنے ہمیں بتادیا،بلکہ دکھادیاکہ کہ محبت اورحکمت سے ناممکن کوممکن بنایا جا سکتاہے،کندذہنوں کوذہین بنایاجاسکتاہے۔کمزوروں کوطاقت بخشی جاسکتی ہے۔محبت آج بھی معجزے دکھاسکتی ہے۔باپ بیٹے کی یہ کہانی ہماری قوم ،ہمارے ملک اورہم سب کی کہانی بھی بن سکتی ہے،بشرطیکہ ہم اپنے اپنے دائرے میں امید اورکوشش کے چراغ جلائیں۔پاکستا ن کے ہزاروں،لاکھوں دانش جیسے بچوں کوعلی ارشدراناجیسی انگلی کی ضرورت ہے ،جسے پکڑ کروہ اپنامستقبل سنوارسکیں۔”
ناول ”جلتارہاچراغ یقین وگمان کا” کاسنگ میل نے بہت دلکش انداز اوربہترین کاغذ پرشائع کیاہے۔خوبصورت اوربامعنی سرورق،عمدہ جلدبندی کے ساتھ بڑے سائز کے ایک سوچھیاسی صفحات کی کتاب کی قیمت آٹھ سوروپے بھی بہت مناسب ہے۔لیکن ایک سو چھیاسی صفحات میں سے ابتدائی بیس اوراختتامی تیس اوراق پرناول اورمصنف کے بارے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے انتیس افرادکی آراء دی گئی ہیں،جوبہت زیادہ اورکسی قدر نا گوار محسوس ہوتی ہیں۔اچھی کتاب خود کوپڑھوانے کی طاقت رکھتی ہے اوراسے غیرضروری سہاروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ان میں جن بلند پایہ ادیبوں اوردانشوروں کے تبصرے اورآراء شامل کی گئی ہیں وہ سب محترم ہیں اوران سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایک بیوروکریٹ کی کتاب پریہ سب لکھ رہے ہیں۔کتاب جس حساس موضوع پرتحریرکی گئی ہے ،اس کی آگاہی عوام میں زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیے۔ناول کی اصل ضخامت ڈیڑھ سوصفحات کی ہے۔جسے غیرضروری تبصروں کے بغیرپیپربیک پرنصف قیمت میں شائع کیاجاسکتاہے،جسے حکومت ہر تعلیمی ادارے کے لیے لازمی قرار دے سکتی ہے۔خصوصاً اساتذہ کااسے پڑھنابے حد ضروری ہے ۔اس طرح ذوقِ مطالعہ کابھی کچھ فروغ ہوسکے گا۔
اکثرمبصرین نے اسے موضوع پرپہلی کوشش قرار دیاہے جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔”جلتارہاچراغ یقین وگمان کا” دراصل آٹزم کے شکاربچے کے بارے میں ہے۔بھارتی اداکارعامرخان کی مشہورزمانہ فلم”تارے زمین پر” بھی ایک ایسے ہی بچے کی کہانی ہے جولفظوں کی پہچان میں دقت محسوس کرتاہے اورکسی کے توجہ نہ دینے کی وجہ سے تعلیم سے دورہوتاجاتاہے۔ اساتذہ توکیا والدین بھی اسے ناکارہ اور کند ذہن سمجھنے لگتے ہیں لیکن ڈرائنگ کانیااستاد بچے کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے اوراس کی خاص دلچسپی کودریافت کرتے ہوئے،اسے ہمت اور حوصلہ دیتاہے کہ بچے کی بنائی ڈرائنگ اسکول میگزین کے سرورق پر شائع ہوتی ہے اوروہ دیگرمضامین میں بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے سب کوحیران کردیتاہے۔ناول میں یہ کرداردانش کاباپ انجام دیتاہے۔
اسی طرح اردوکے معروف ناول نگارمحمودظفراقبال ہاشمی کاناولٹ”گل مہر اوریوکلپٹس” آٹزم کے شکاربچے کے بارے میں ہے۔جنید اور حنین کی دلچسپ لواسٹوری میں آٹسٹک بچوں کی خصوصیات،ان کی پرورش اورتعلیم وتربیت کے طریقہ کارکوواضح کیاگیاہے اور آٹسٹک بچوں کی خصوصیات اورصلاحیتوں کے بارے میں بھرپورمعلومات بھی فراہم کی گئی ہیں،ان معلومات کے نہ ہونے کی وجہ سے ہی ایسے بچے اسکول واساتذہ کی عدم توجہی کانشانہ بنتے ہیں۔”جلتارہاچراغ یقین وگمان کا” کی طرح ناولٹ ”گل مہر اوریوکلپٹس” کوبھی ہمارے نصاب میں شامل کیاجاناچاہیے اوراساتذہ کوآٹزم کے شکاربچوں کے مسائل کوسمجھنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔چارآسکرایوارڈیافتہ ہالی ووڈ فلم” دی رین مین” کامرکزی کرداربھی آٹزم کاشکارتھا۔
علی ارشدرانا فکروسوچ کے درواکرتے ہوئے دیباچہ بعنوان”میں کون ہوں؟”میں لکھتے ہیں۔”میں کون ہوں؟ میں خود نہیں جانتا ہنوزتلاش جاری ہے شایدمیں اپنی تلاش کے سفرپرتاخیرسے نکلاہوں یہ بات مگراپنی جگہ کہ اس سفرمیں مجھ پرمیرے کچھ ایسے روپ بھی کھلے ہیں جن سے میں پہلے آگاہ نہیں تھا۔لکھنے کاکیوں کرسوچا؟ یہ ایک رازہے۔جسے منکشف کرنے کاابھی وقت نہیں آیا۔اذن بھی نہیں ملا۔یہ بات مگراپنی جگہ کہ ناتوانی کے باعث میں اس رازکی پاسداری شایدایک مختصرعرصے تک ہی کرپاؤں گا۔”
اس راز والی بات سے محسوس ہوتاہے کہ ”شہاب نامہ” کے آخری باب”چھوٹامنہ بڑی بات” کسی اوررنگ اورالفاظ میں سامنے آنے والا ہے ،شایدیہ میراگمان ہی ہو۔لیکن آگے کی تحریر بھی اس گمان کوتقویت ہی دیتی ہے۔ملاحظہ کریں۔” کس لیے لکھتے ہو؟ مجھے گمان ہے ۔ شاید میرے ٹوٹے پھوٹے اورہیچ لفظوں سے رائی برابربھلائی کاسامان ہوجائے۔شایدفرزندگانِ آدم یقینِ دیگرلے کرپیداہونے والوں کواس عیبِ محض پرمعتوب کرناچھوڑدیں۔شایدمستقبل کے مکین اپنے ماضی کے راہبروں کی آبلہ پائی کابھیدجان کران کے پاؤں کے چھالوں کو قطبی ستارے مان لیں۔مجھے گمان ہے شایددخترخلیے بھی احساس کی ڈوری کے دوسرے سرے سے اسی طرح بندھ جائیں جیسے ان کے عہدِ طفلی میں مادرخلیے بندھے تھے۔شایدرشتوں کاماتم کرنے والے خود بھی سمجھ لیں کہ انسانوں کوضرورت کے ترازومیں تولنا خسارہ ہی خسارہ ہے۔شاید کوئی جھوٹے،عارضی اورکمزورسہاروں کوچھوڑ کراس سچے ،دائمی اورالقوی سہارے کوتھام لے۔شاید کوئی طاقت کے نشہ میں چور ذی روح یہ جان لے کہ فاتح القلوب محبت ہوتی ہے نہ کہ جبرواکراہ۔شایداشرف المخلوقات ہونے کے داعی اسفل المخلوقات چیونٹیوں کی طرح ایک دوسرے کاکنبہ بن جائیں۔شایدکوئی”دانش” کسی دوسرے کی جہالت اورکم علمی کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جائے۔کب تک لکھوگے؟ میں لاعلم ہوں۔زمانہ مستقبل کے تعین کااختیارنہ کبھی مجھے سونپاگیا،نہ اس کااحتمال ہے۔اشارہ ہواتوقلم کی نوک پرلفظ رقصاں ہو گئے۔صور پھونکا جائے گاتولفظوںکے پاؤں منجمدہوجائیں گے،لوح وقلم پتھراجائیں گے۔یہ بات مگراپنی جگہ کہ میں تادمِ مرگ سانس کی چلتی ہوئی دھونکنی کی طرح تخیل کوبھی محوِ پروازدیکھناچاہتاہوں۔رب سے کیاچاہتے ہو؟ جب وہ قادرمطلق ہے توپھر۔سوچتاہوں کیوں نہ سکندروسلیماں جیسی بادشاہی طلب کرلوں۔پھرسوچتاہوں کہ کیوں نہ کبھی ثروتِ قاروں کے لیے ہاتھ اٹھاؤںکبھی سیاروں ،ستاروں اور کہکشاؤںکی تسخیردل کو لبھاتی ہے۔یہ بات مگراپنی جگہ کہ میں اس سے اس کاہی بھیدمانگوں،کیوں کہ باقی سب سفرفناکے راہروہیں۔”
”جلتارہاچراغ یقین وگمان کا” کوتین حصوں”آپ کے بچے کوماہرِنفسیات کی ضرورت ہے”،”آپ کے بچے کوایک اورموقع کی ضرورت ہے” اور”آپ کے بچے کوآپ کی ضرورت ہے” میں تقسیم کیاگیاہے۔ان تین حصوں کوکئی چھوٹے ابواب میں بانٹاگیاہے۔ ناول کاحصہ اول”آپ کے بچے کوماہرِنفسیات کی ضرورت ہے!” ہے۔جس کاپہلاباب ”الٰہی ایک غم روزگارکیاکم تھا” اس چونکادینے والے جملے سے ہوتا۔”مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت افسوس ہورہاہے کہ آپ کے بچے کاذہنی توازن درست نہیں،جتنی جلدی ہوسکے،اسے ماہر نفسیات یاذہنی امراض کے ڈاکٹرکوچیک کرائیں۔”
کسی بھی باپ کے لیے استادکایہ سب سے دل دہلادینے والا جملہ تھا،قاری بھی اسے پڑھ کرچونک جاتاہے۔ یہاں راوی نے بتایاکہ اس کے تین بچے علی حسین، علی دانش اورعلی حیان ہیں۔منجھلے بیٹے علی دانش کی پیدائش کے وقت وہ تحصیل پھالیہ میں اسپیشل جیوڈیشل مجسٹریٹ فرائض انجام دے رہے تھے۔دانش کی پیدائش کے چندماہ بعدان کاتبادلہ سیالکوٹ ہوگیا اوربچوں کومریدکے میں واقع ان کے آبائی گھر منتقل ہوناپڑا۔یہیں چارسال کاہونے پردانش کوبہترین اسکول میں داخل کرایاگیا۔دانش کوتعلیم حاصل کرتے تین سال ہوگئے اس دوران راوی مختلف اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنراوراس کے مساوی عہدوں پرکام کرتے ہوئے ننکانہ صاحب پہنچ گیا۔
ارشدعلی رانا نے کہانی کے ساتھ ساتھ کارآمدمعلومات بھی فراہم کی ہیں جوناول کی افادیت میں اضافہ کرتی ہیں۔” برصغیرمیں رب کی وحدانیت کے پرچارک’نانک’ ایک ہندوگھرانے میں 1469ء میں لاہورکے قریب واقع ‘رائے بھوئے دی تلونڈی’ میں پیداہوئے۔ آج نانک کے نام کی مالادنیاکے دوسوسے زیادہ ممالک میں جپی جاتی ہے۔نانک نام کی نسبت سے تلونڈی کے بخت بھی جاگ اٹھے۔وہ تلونڈی سے ‘نانک کاآنا’ ہوگئی اورپھرآہستہ آہستہ بصورت اختصار”ننکانہ” رہ گئی۔ جب عقیدت کالاحقہ صاحب اس سے منسلک ہواتوآج کا ”ننکانہ صاحب” بن گئی۔ننکانہ صاحب کواگرپاکستان کاسب سے زیادہ تاریخی اہمیت کاحامل شہرقراردیاجائے توکچھ مبالغہ نہ ہوگا۔اگرچہ ہزاروں سال پرانی عمارتیں بھی کسی شہرکے تاریخی اہمیت کاحامل ہونے کی علامت ہوتی ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ مذہب کا آغاز کسی عمارت کی تعمیرسے زیادہ اہم واقعہ ہوتاہے اورننکانہ صاحب دنیاکے ان چندشہروں میں سے ایک ہے جہاں سے دنیاکے ایک بڑے مذہب’سکھ مت’ کاآغاز ہوا۔”
دانش بہت خوبصورت بچہ اورباپ کی آنکھوں کاتارہ تھا۔ روزبروزباپ بیٹے کالگاؤ گہراہوتاجارہاتھاباپ کونوکری کے دوران پوراہفتہ دانش سے ملنے کی کسک بے چین رکھتی ۔ایک ہفتے کے اختتام پرگھرآنے پراسے دانش کی ماں متفکرنظرآئی،اس نے بتایاکہ دانش کے پرنسپل کاملنے کاپیغام آیاہے لیکن انہیں فکرمندی کاکوئی پہلونظرنہیں آیا اورحسب معمول پیرکوننکانہ صاحب لوٹ گئے۔دفترمیں پھرپیغام ملاکہ اس ہفتے ضرور دانش کے پرنسپل سے ملیں۔بالآخرجب وہ ملنے گئے اوراپناتعارف کرایاتوپرنسپل نے کہاکہ” مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت افسوس ہورہا ہے کہ آپ کے بیٹے کاذہنی توازن درست نہیں۔اسے کسی ماہرنفسیات یاذہنی ڈاکٹرکوچیک کرائیں۔دانش کوتین سال ہوگئے لیکن نہ توابھی تک اردوپڑھناآتی ہے نہ ہی انگریزی۔میتھ تواسے سرے سے سمجھ ہی نہیں آتا۔کلاس میں دانش کارویہ بھی نارمل نہیں۔یہ باقی بچوں کے ساتھ گھلتاملتابھی نہیں۔اسے کوئی بھی بات سمجھانابہت مشکل ہے۔”
اس دن اسے احساس ہواکہ اولاد کادکھ کس قدراذیت ناک ہوتاہے ،انسان اپنی تکلیف کوسمجھ کراس کاکوئی حل نکال لیتاہے ۔لیکن بچے کے معاملے میں یہ تکلیف دوچندہوجاتی ہے کہ ایک توانسان اس کی تکلیف کوسمجھ نہیں پاتااوردوسرااس کی تکلیف کوفوری طورپردورنہیں کرپاتا پھر سوچاہوسکتاہے اسکول کے ماحول میں خرابی ہو یااساتذہ تربیت یافتہ نہ ہوں اوربچوں کی نفسیات سے آگاہ نہ ہوں۔
ناول کاباب”ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا” بہت دلگدازباب ہے،جس میں بتایاگیاہے کہ ہمارے والدین اوران کی نسل کے لوگوں کی کیاتہذیب اورروایات تھیں اورمائیں اپنے بچوں کے لیے کیاکچھ کرتی تھیں،مصنف کی والدہ اس لیے تہجدکی نمازنہیں چھوڑ سکتی تھیں کہ ایک باراس کی بیماری پرانہوں نے اللہ سے بیٹے کے صحتیاب ہونے پرتہجدپڑھنے کاوعدہ کیاتھا۔
ایسے بہت سے ٹکڑے ”جلتارہاچراغ یقین وگمان کا” میں موجود ہیں اورقاری کومثبت پیغام دینے کے ساتھ دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں ۔ دانش کے علاج کے لیے تعویذگنڈوں کابھی سہارا لیاگیا۔دانش کونئے اسکول میں بھی داخل کرایاگیا،لیکن دوماہ بعد وہاں سے بھی والدین کی طلبی کاپیغام آگیا ۔یہیں وہ ابتدائی جملہ سننے کوملا۔دکھے دل کے ساتھ دانش کابچوں کے ڈاکٹرسے علاج بھی کروایاگیا۔جس کے تفصیلی معائنے اوربے شمار سوالات کے بعدکہابظاہرتودانش کوکوئی ذہنی عارضہ نہیں ہے۔ڈاکٹرمعراج نے کوئی ٹیسٹ وغیرہ نہیں کرایا اوران کی حیرت پربتایاکہ ڈاکٹر صاحبان کسی مخصوص کمپنی کی دوا تجویزکرنے کے عوض بھاری کمیشن لیتے ہیںاس مقصد کے لیے وہ ماہانہ اہداف بھی طے کرتے ہیںبڑی کمپنیا ں ان اہداف کے عوض ڈاکٹرزکویورپ اورایشیاکے ایسے ممالک کے دورے پربھیجاجاتاہے جہاں ان کے پہلے ہی سے بھاری نامہ اعمال میں کچھ مزید کبیرہ گناہوںکااضافہ ہوجاتاہے۔یہ سب باتیں مصنف کے لیے انکشاف سے کم نہیں لیکن قارئین کے لیے عام ہیں۔
دانش کونیوروفزیشن قمرسہیل جان اورپھران کے مشورے پرمشہورنفسیاتی کلینک پربھی دکھایاگیا۔یہاں ڈاکٹرعائزہ نے کافی چیک اپ کے بعد کہاکہ” آپ کابیٹاکندذہن ہے۔اپنی عمرکے حساب سے ذہنی وجسمانی بڑھوتری اورمہارتوں کے جس درجے پردانش کوہوناچاہئے،بد قسمتی سے وہ اس سے بہت پیچھے ہے۔بچہ ان مہارتوں پراسی وقت قادرہوتاہے جب وہ ذہانت کے مطلوبہ معیارپرپورااترتاہے۔”
”جلتارہاچراغ یقین وگمان کا” کادوسراحصہ”آپ کے بچے کوایک اورموقع کی ضرورت ہے” یوسف کے بھائی فاضل کی کہانی ہے،ان کے والدین کے نوبچے تھے۔یوسف کومیٹرک کے بعدکام پرلگناپڑا،لیکن وہ اپنے بہن بھائیوں کوپڑھاناچاہتاہے۔فاضل میٹرک سائنس کے مضامین میں فیل ہوگیاتووالدجوبہت محنت مشقت سے اپناگھریوسف کی مدد سے چلارہے تھے ،نے اسے بھی ورکشاپ میں لگادیاجبکہ فاضل آگے پڑھناچاہتاتھا۔مصنف کے اصرارپروالدنے اسے پڑھنے کی اجازت دیدی اورخود پڑھانے اورآرٹس کے مضامین اختیار کرکے فاضل نہ صرف میٹرک اورانٹرمیں کامیابی حاصل کرسکابلکہ مقابلے کاامتحان میں پنجاب بھرمیں پہلی پوزیشن حاصل کرکے سرکاری افسربھی لگ گیا۔اس حصے میں کثرتِ اولادکے مسائل،بچے کی تعلیم میں غلط مضامین کے انتخاب کے نتائج بیان کیے گئے ہیں۔فاضل کوپڑھانے کے تجربے کویاد کرکے مصنف اپنے بیٹے دانش کوخودپڑھانے کافیصلہ کرتاہے۔
وہ تین وجوہ کی بناپردانش کوذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل نہیں کرواناچاہتا۔اول، ہمارے ملک میں ذہنی امراض کے علاج کے لیے معیار ی سہولیات میسرنہیں،دوم،معاشرے میں ذہنی اورنفسیاتی امراض کاعلاج کروانامعیوب سمجھاجاتاہے اورایسے مریضوں کاتمسخراڑایا جا تاہے۔سوم،دانش کوکچھ دن زیرِ مشاہدہ رکھ کراس کی ذہنی کیفیت کوسمجھناچاہتاہوں تاکہ اس کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیاجا سکے ۔دراصل ہمار معاشرے میں ذہنی اورنفسیاتی امراض کوسمجھاہی نہیں جاتااس میں مبتلاافراد کوپاگل قراردیاجاتاہے حالانکہ یہ امراض بھی دوسری بیماریوں کی طرح قابل علاج ہیں۔
اس حوالے سے ایک واقعہ بھی دیاگیاہے۔”ایک پڑھے لکھے سابق امام مسجدجوہمیشہ صاف ستھرابے داغ لباس پہنتاتھاوہ لوگوں کوقرآن پڑھاتا،رب اوررسول ۖ کا پیغام پہنچاتا۔ اس کی شخصیت خوب صورت اوربارعب تھی۔کسی وجہ سے لوگوں نے اس کی چھیڑ’باباچڑی’ بنالی ۔اس سفاک دنیانے اس پر’باباچڑی’ کے نشتروں اوربھالوں سے اس پرحملہ کردیا۔پہلے پہل وہ لوگوں کوقرآن وحدیث کے حوالے دے کر سمجھاتالیکن ناکام رہاجوں جوں باباچڑی پکارے جانے میں شدت آتی گئی،توں توں اس بزرگ کی حالت بھی خراب سے خراب ترہوتی گئی۔اس نے لوگوں کوگالیاںدیناشروع کردیں،آخرکارمارنے کے لیے ڈنڈاپکڑلیا۔ضعیف ہونے کے باعث کسی کوپکڑنااس کے بس میں نہ تھا،اسی بھاگ دوڑ میں گرکراس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ بسترسے لگ گیا۔سفاک لوگوں کوپھربھی رحم نہ آیا اوروہ اس کے گھرکے درواز ے کے پاس جاکرباباچڑی اوئے کہتے اور وہ اندربے بسی سے چلاتااورگالیاں دیتااسی کسمپرسی میں وہ اس بے حس دنیاسے رخصت ہوگیا۔”
ناول کے تیسرے اورآخری حصے ”آپ کے بچے کوآپ کی ضرورت ہے!” میں میں مصنف نے بتایاکہ کس طرح اس نے دانش پرخودمکمل توجہ دی۔اسے الگ سیالکوٹ میں اپنے ساتھ رکھ کراس کے رویے اورعادات پرنظررکھتے ہوئے،رفتہ رفتہ ابتدائی حرف کی پہچان سے لے کرانہیں جوڑنااورلفظ بناناسکھایا،حسابی ہندسوںکی پہچان کرائی۔اس تمام عمل کے دوران اسے کیامشکلات پیش آتی ہیں انہیں سمجھااوردور کرنے پرغورکیااوربالآخر ٹریک پرلانے میں کامیاب ہوگیا۔
مجموعی طور پر”جلتارہاچراغ یقین وگمان کا”ڈپٹی نذیر احمد کے ناولز کی ماننددورِجدیدکا ایک چشم کشااورسبق آموزناول ہے۔جس میں محمدارشدرانانے بتایاہے کہ والدین کی عدم توجہی بچوں پرکس طرح اثراندازہوتی ہے اوران کی بھرپورتوجہ بظاہرکندذہن یاآٹزم جیسے کسی مرض کاشکاربچے کوکس طرح دیگربچوں کی طرح زندگی کی دوڑ میں شامل کردیتی ہے۔ان کاپیغام ہے۔”یقین کیجیے آپ کی بچے کوماہرِنفسیا ت کی نہیںآپ کی توجہ کی ضرورت ہے!”
ناول میں زندگی کے اورمسائل اوردیگرسبق آموزواقعات بھی دیے گئے ہیں۔محمدارشدرانااپنامثبت پیغام دینے میں کامیاب رہے ہیں اب اس پیغام کوعام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی دانش عدم توجہ کاشکارہوکرضائع نہ ہوسکے۔