جسٹس رانا شمیم کے انکشاف اور ثاقب نثار کی ایک طرح کی اعترافی گفتگو نے جو طوفان اٹھا دیا ہے۔ اس سے ساری توجہ سیاست کی طرف مبذول ہوگئی ہے یا ملک کے بڑے سیاسی مقدمات کے ممکنہ نتائج کی طرف۔
یہ مہاجر پرندوں کی آمد کی طرح سیاسی موسم میں تبدیلی کی خبر دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ایسے معاملے کی طرف بھی متوجہ کرتی ہے۔ یہ معاملہ ابھی تک توجہ سے محروم ہے اور یہ مسئلہ ہے، انتشار ریاست، سخت الفاظ میں اسے ادارہ جاتی انہدام کی ابتدا سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
خرابی کی ابتدا
قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے مہربانوں کی کرم نوازی سے محلاتی سازشوں کا دور شروع ہوا۔ اس کی پہلی ضرب جمہوری عمل پر پڑی ہی تھی۔ اس حادثے کے بعد عدلیہ بھی اس کی زد میں آ گئی۔ یہ عدلیہ کی سخت جانی تھی کہ اس نے کسی نہ کسی طرح پون صدی گزار دی۔ اس کے باوجود کہ اسے اندر سے گھن لگ چکا تھا۔ انصاف فراہم کر کے ذریعے معاشرے میں استحکام قائم رکھنے والے اس ادارے کی ساکھ اور پیشہ دارانہ دیانت کو پہلا نقصان چیف جسٹس محمد منیر نے پہنچایا۔ اس نقصان کی ابتدا مولوی تمیز الدین کیس میں نظریہ ضرورت ایجاد سے ہوئی۔
یہ بھی پڑھئے
جسٹس رانا شمیم کے انکشافات کے پس پشت اصل حقائق
ای وی ایم، پی ٹی آئی کو بیس لاکھ اضافی ووٹوں کی گارنٹی کیسے ملی؟
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59180715
جسٹس منیر کی اس شاطرانہ ذہانت نے ملک میں جمہوریت کی بیخ کنی اور آمریت کا راستہ ہی ہموار نہیں ہوا بلکہ انصاف مہیا کرنے والے اس ادارے سے پاکستانی عوام کا اعتماد ہی متزلزل کیا۔
جسٹس منیر جیسے لوگ جب قانون کو بازیچہ اطفال بناتے ہیں تو اس کے نتیجے میں عوام کے لیے کوئی وجہ نہیں رہتی کہ وہ ان پر اور اس طرح کے اداروں سے کوئی امید وابستہ کریں۔ اس کے باوجود پاکستانی عوام اگر اس کے باوجود عدلیہ کا احترام کرتے رہے اور اس سے توقعات وابستہ کرتے رہے تو اس کا سبب یہی ہوسکتا ہے کہ اس ادارے کو جسٹس اے آر کارنیلیئس اور جسٹس ایم آر کیانی جیسے جج میسر آتے رہے۔ ان ججوں نے مشکل ترین حالات میں بھی انصاف کے ایوانوں میں حق و صداقت کی شمع روشن رکھی۔
جسٹس کارنیلئس اور جسٹس کیانی جیسے عظیم لوگ
گرتی ہوئی ساکھ رکھنے والے کسی ادارے کو اگر جسٹس کارنیلئس اور جسٹس کیانی جیسے عظیم لوگ میسر آ جائیں تو یہ صرف اس کی خوش قسمتی نہیں بلکہ اس ادارے کے لیے ایک قیمتی موقع بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بد نما ماضی کی اصلاح کے لیے اس سے فایدہ اٹھائے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہ سکا۔
اس ادارے کو ایسے ‘نابغے’ تو میسر آتے رہے جنھوں نے یحییٰ خان جیسے غاصبوں کا دور گزرنے کے بعد ان کے ماورائے آئینی کردار کو غیر آئینی قرار دیا لیکن آمروں کی موجودگی میں کسی منصف کو اس کی توفیق نہ ہوسکی۔ اس پر مستزاد ذوالفقار علی بھٹو کیس جس نے رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا۔
بھٹو کیس کا معاملہ
بھٹو کیس نے پاکستانی عدلیہ کی نیک نامی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد بھی بریک لگ جاتی تو ممکن ہے، ادارہ سنبھل جاتا لیکن اس کے بعد بھی ادارہ جسٹس قیوم جیسے واقعات کی صورت میں آفٹر شاکس کا شکار ہوتا رہا۔
سیاسی مخالفین کو انجام تک پہنچانے کے لیے اکثر ناپسندیدہ طرز عمل اختیار کیا گیا۔ یہ عمل ہر پیمانے پر غلط تھا۔ اصلاح ممکن تھی لیکن جنرل مشرف کے زمانے میں جسٹس ارشاد حسن خان جیسے لوگوں نے ایک بار پھر خرابی کو انتہا پر پہنچا دیا۔
جسٹس ارشاد حسن خان
جسٹس ارشاد حسن خان نے اس ادارے کو جہاں پہنچا دیا تھا، اس کے بعد سنبھل جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے اسی زمانے میں وکلا تحریک نے اس ادارے کو ایک اور موقع فراہم کر دیا۔ اسے بھی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ یہ تحریک کسی بہتری کا ذریعہ بننے کے بجائے مزید خرابی کا باعث بن گئی۔ اس خرابی پر ثاقب نثار کا طرز عمل سونے پر سہاگہ ثابت ہوا۔ انھوں نے اپنے منصب کا خیال نہ رکھتے ہوئے ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ نقصان کا یہ سفر بلندی سے گرنے والے اس پتھر کی طرح جاری ہے جسے راستے میں روکنا بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔
مرض کی نئی علامت
اس پس منظر میں جسٹس رانا شمیم کا انکشاف اور ثاقب نثار کی وہ گفتگو جس میں وہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے لیے سزاؤں کی بات کر رہے ہیں، اس ہلاکت خیز مرض کی علامت کے طور پر سامنے آیا ہے جس کے علاج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہماری نظر میں یہ واقعات خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔
یہ بحث فطری ہے کہ ان انکشافات کے بعد شریف خاندان کو ان کے مقدمات میں کوئی فائدہ ملے گا یا نہیں لیکن اس بحث سے بڑی بحث یہ ہے کہ ان انکشافات اور ثاقب نثار کی اعترافی گفتگوؤں کے بعد یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ اس قومی ادارے کو جو نقصانات پہنچائے گئے، اب اس کی گواہی خود اس ادارے کے کل پرزے دینے لگے ہیں۔ کسی خاص صورت حال میں یہ جب یہ نوبت آ جاتی ہے، اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب پیمانہ لبالب بھر چکا، اس کے بعد خرابی ہی خرابی ہے۔
تنویر نقوی کا حادثہ
اس سے قبل جنرل تنویر نقوی نے جنرل مشرف آشیرواد سے ملک کے سول انتظامی ڈھانچے کو تباہ کیا۔ عدلیہ میں تباہی بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔ کچھ دن پہلے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر میں تنازع پیدا کر کے اس عمل کا دائرہ مزید وسیع کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں موجودہ خاموشی اور ٹھہراؤ اگرچہ پسندیدہ ہے لیکن خرابی بہرحال موجود ہے جس کی اصلاح پر توجہ نہ دی گئی تو یہ بڑھتی جائے گی۔
اصلاح کا راستہ
اس وقت حالات پھر ایک انتہا پر پہنچ چکے ہیں۔ ان حالات میں اصلاح کی واحد صورت ماضی کی خطاؤں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کر کے خلوص نیت کے ساتھ ان کی اصلاح کے لیے آگے بڑھنے میں ہے۔ موجودہ پوائنٹ اسکورنگ وچ ہنٹگ والا مائنڈ سیٹ تباہی کو مزید قریب کر دے گا۔