حسین نقی صاحب، آداب!
امید ہے آپ کی صحت اور مزاج اچھے ہوں گے،میری اس عادت خطوط نویسی سے ٓاپ واقف ہیں،نہ جانے کیوں میرا دل کرتاہے کہ مہربانوں اور پیاروں کےساتھ بات چیت کے لئے اس ذریعے کو استعمال کروں۔ میں آپ کو بتاؤں ہمیں بچپن میں بزرگ اس کے اسلوب سے ٓاگاہی دیتے رہے۔
میرے جیسے نالائق بھی بڑوں کو خط لکھتے ، ہم تو بس ادھر اُدھر کی ہانکنے کے سوا کچھ نہ کرپاتے،لیکن جواب میں اچھی باتیں اور نصیحتیں پڑھنے کو ملتیں۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ برے سے برے خط پر بھی نہ غصہ کرتے نہ حوصلہ شکنی، بڑے احسن انداز سے بات بتادیتے۔ آپ نے میرے اپنے بچوں کو لکھے خطوط میں شاید دیکھا ہو۔ میں نے غیرارادی یاارادی کوشش کی کہ کسی طرح کوئی نہ کوئی پتے کی بات سمجھانے کاقصد کیاہے۔
بزرگوں اور مشاہیر کے خطوط
حسین نقی صاحب! میرے نانا نے غلام احمدپرویز کے سلیم کے نام خطوط ہمیں پڑھائے، ان کی تفصیل تو زیادہ ذھنوں میں محفوظ نہیں لیکن وہ خطوط میں سماجی اور دینی مسائل کو زیربحث لاکر ذھن سازی کی کوشش کرتے۔میرے نزدیک کسی بھی فرد کی تحریر میں اس کی سوچ کے ساتھ ساتھ شخصیت کا بھی احاطہ کرنے میں کچھ مدد ملتی ہے، میں نے اقبال اور غالب کے خطوط پڑھے۔ اسی طرح مارکس، لینن،فرائیڈ کے خط بھی نظروں سے گزرے۔ بہت زیادہ علم کی باتیں وہاں سے ملیں۔ آپ بھی اتفاق کریں گےکہ نظریات کی واضح جھلک بھی خطوط میں دکھائی دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
ثاقب نثار کی گفتگو، بدلے ہوئے موسم کی نشاندہی یا کسی بڑے عارضے کی نشانی؟
مجلس فکر و دانش کی بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ کے دھرنے میں شرکت
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59180715
خط لیکن کھلے ذہن سے
ایک بات ضرور ہے کہ خط بڑے کھلے ذھن کے ساتھ تحریر کیاہو تو لکھنے والے کو بھی سمجھنے میں بڑی حد تک آسانی ہوتی ہے، جہاں غالب کے خیالات کا کھلاپن نظر آتاتھا، وہیں اقبال کے اندر پائے جانے والے مسلمان کی بھی خوب سمجھ ٓائی، اسی طرح فرائیڈ اپنے اندر ایک انسان کی تحلیل نفسی کرتا دکھائی دیا، مارکس اپنے خطوط میں معاشی جدوجہد کے لیے متحرک کرتاہے تو لینن عملی طورپر انقلاب کے لئے اکساتا ہے۔
خط تھا پیار کا ذریعہ
حسین نقی صاحب! خط دوسری جانب پیار ، محبت کے اظہار کا ذریعہ بھی بنا مگر بعد کے دنوں میں اسے سطحی حیثیت مل گئی، اس میں جذبات اور لفاظی کی بجائے گھٹیا محاوروں اور لچرپن نے جگہ لے لی، نوبت یہاں تک ٓاگئی کہ زبان سے ناواقف بھی کچھ نہ کچھ لکیریں مارنے سے بعض نہ ٓاتے تھے۔
خطوط نویسی گویا دفن ہو گئی
کمپیوٹر آنے کے بعد انٹرنیٹ اور پھر موبائل فون نے ادب کی ایک صنف بن جانے والی خطوط نویسی کو جیسے دفن ہی کردیا۔
چیٹنگ اور ای میل نے خط کے تقاضے ہی ختم کردیئے، کون دنوں انتظار کرے۔ لمحہ بھر میں بات اگلے تک اور فوری بعد جواب بھی ہاتھ کے ہاتھ مل جاتا ہے۔
اب غالب بھی ہوتے تو قاصد کے ٓانے سے پہلے اگلا خط لکھ کر نہ رکھتے کیونکہ دونوں جانب بیک وقت معلوم ہوتا ہے کہ کس نے کیا لکھنا ہے۔ جواب پہلے سے سوچ رکھا ہوتاہے۔
پہلے ٹیلی فون تھا،اب کئی بار آواز سننے یا لمبی بات کرنے کاموڈ بھی نہیں ہوتا۔
“ہائے ،کیسے ہو، کتنے دن ہوئے کوئی رابطہ نہیں، ٓاج کل کیا چل رہا ہے۔
سیاست پر کوئی تبصرہ ، اوکے پھر بات ہوگی، میں ذرا بیرون ملک چیٹ “۔ کررہاہوں، پھر رابطہ کروں گا، بائے بائے
چلو خالصی کوئی اور کام کریں،لڑکا لڑکی بھی طویل بات چیت کے عادی نہیں رہے۔ اگرچہ ہمیں کرنا کچھ بھی نہیں ہوتا، پھر بھی وقت نہیں، مختصر بات اور بس۔۔
ویسے جس مزاج اور سوچ کی میں بات کررہاہوں، شاید اسی کے خالف چلتے اپنی بات لمبی کرگیاہوں۔ میرے خیال میں اس خط کو یہاں ہی موقوف کرتاہوں۔باقی باتیں پھر، اگر آپ جواب دیں تو مجھے خوشی ہوگی۔
فقط
آپ کا خیراندیش
نعمان یاور