جسٹس رانا شمیم نے لنکا ڈھا دی ہے۔ ان کے انکشاف پر کوئی چاہے انصافیوں کو جاگ جانے کی دھائیاں دے خواہ کوئی تردیدیں کرتا پھرے، جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اب لڑھکتا ہوا یہ پتھر کہیں رکنے والا نہیں۔
انصار عباسی نے روزنامہ جنگ اور دی نیوز میں جسٹس رانا شمیم کے بیان حلفی کا انکشاف کیا تو فوراً قانونی ذہن جاگے انھوں نے اس کا مطلب یہ نکالا کہ اس کامقصد ان مقدمات پر اثر انداز ہونا ہے جو ان دنوں مریم نواز کے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ انصافیوں کے بعض عبداللہ دیوانوں نے جو سوشل میڈیا پر اچھل کود کیا کرتے ہیں، یہی بات کہی ہے اور انصافیوں کو جاگ جانے کی دہائی دی ہے۔ بعض معاملات میں خدا واسطے کا بیر رکھنے والے اعتزاز احسن بھی یہی کہتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ خود اسلام آباد ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ افراد اور فریقوں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ عدالت کے متحرک ہوجانے کے بعد اب یہ قانون کا معاملہ ہے، اس پر تبصرہ مناسب نہیں لیکن قانونی کے ساتھ ساتھ یہ ایک سیاسی واقعہ بھی تو ہے اور اس پر اظہار خیال میں کوئی پرج نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کے متنازع ترین چیف جسٹس مسٹر ثاقب نثار نے جسٹس رانا شمیم کے الزامات کی تردید کر دی ہے لیکن سیاسی حرکیات پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ سیاسی اعتبار سے ان کی یہ تردید خود ان کے گلے کا طوق ثابت ہوگی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے دنوں میں انھوں نے سابقہ حکومت کے خلاف جو طرز عمل اختیار کیا تھا، وہ کسی جج کو زیب نہیں دیتا تھا۔ ان دنوں وہ کسی سیاست دان کی طرح بیان جاری کیا کرتے تھے اور تقریروں میں سابق حکمرانوں سے حساب طلب کیا کرتے تھے۔
اسی طرح ان کے دور میں سابق حکمرانوں کے خلاف مقدمات میں بھی میرٹ کو چھوڑ کر انھیں نقصان پہنچانے اور ان کی تضحیک کا کوئی حربہ نہیں چھوڑا گیا۔ اس پس منظر میں یہ انکشاف کسی منصوبے کا حصہ ہو یا نہ ہو، قدرت کے نظام کا حصہ ضرور ہے۔ اپنی حدود سے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرنے والے لوگ یا گروہ اکثر اس قسم کی قدرتی گرفت میں آ جایا کرتے ہیں۔
اس انکشاف کا ایک اور پہلو حکومت کو درپیش سیاسی مسائل سے بھی ہے۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ جب سیاسی حکومتیں اس قسم کے بحرانوں کا شکار ہو جاتی ہیں تو خود ان کی بیساکھیاں ہی متحرک ہو کر ان کے مسائل میں اضافے کا باعث بن جاتی ہیں۔ جسٹس رانا شمیم کے انکشافات کو پاکستان کی سیاسی روایت کے پس منظر میں ضرور دیکھنا چاہئے۔