مریم نواز کے انٹرویو نے طوفان اٹھا دیا ہے۔ یہ طوفان شاید اس سے بڑھ کر ہے جس کا مشاہدہ بلاول بھٹو زرداری کے بی بی سی سے انٹرویو میں دیکھا گیا تھا۔
انٹرویو میں بنیادی بات ایک ہی ہے کہ فوج سے بات ہو سکتی ہے۔ کہا گیا کہ یہ ایک یو ٹرن ہے۔ مبصرین، یہاں تک کہ ڈاکٹر رسول بخش رئیس جیسی بلند قامت شخصیت نے بھی کہا کہ ن لیگ کو اندازہ ہو گیا کہ وہ جس بیانئے کے ساتھ چلے تھے، وہ چلنے والا نہیں، لہٰذا یوٹرن ہو گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
جی ایچ کیورپورٹ: کیا یہ اعتماد سازی کی ابتدا ہے؟
شہباز کی گرفتاری، کیا یہ ن میں سے ش نکالنے میں ناکامی کا نتیجہ ہے؟
پاک، ایران دوستی کے ایک نئے عہد کی ابتدا، جواد ظریف کا دورہ اسلام آباد
یہ تو ہوئے تجزئے لیکن اس بیان کو سیاق و سباق میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو مختلف صورت بنتی ہے۔
پہلی بات، مریم نے یہ کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی جماعت سے رابطے میں ہے، یہ نہیں کہا کہ ان کی جماعت اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں ہے۔
دوسری بات یہ کہی کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہو سکتے ہیں اور وہ بھی آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے، عوام کے سامنے۔
ان دو نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا اس تناظر پر بھی نظر ڈال لی جائے جس میں یہ بیان دیا گیا۔
مریم نواز کا یہ بیان سندھ کے واقعات پر جی ایچ کیو کی رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے۔ وہ رپورٹ کئی اعتبار سے اہم ہے۔ اس رپورٹ نے آئی جی کے اغوا کے بارے میں وفاقی حکومت کے مؤقف کو تو ہوا میں اڑا ہی دیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی اعتماد سازی کی فضا بھی پیدا کردی۔ نواز شریف کی طرف سے رپورٹ کے مسترد کیے جانے کے باوجود اس کا جواب ضروری تھاجو آج سامنے آگیا۔
اس جواب نے مریم نواز کو نہایت قد آور اور زیرک سیاست دانوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ اس وقت ایک پیچیدہ اعصابی جنگ میں مصروف ہیں، اس جنگ میں دونوں طرف سے بہت سوچ سمجھ کر داؤ پیچ کھلے جا رہے ہیں۔ مریم کا یہ بیان اس کی ایک بہترین مثال ہے۔
نواز شریف نے رپورٹ مسترد کر کے دباؤ بڑھایا جب کہ مریم نے بات چیت کا اشارہ دے کر انگیج کر لیا۔ 1977ء کے بھٹو، اپوزیشن مذاکرات کے بعد اس درجے کی پیچیدہ سیاست اور اس نوعیت کے داؤ پیچ پہلی بار سامنے آرہے ہیں جو فریقین کے درمیان بامعنی بات چیت کے امکانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ فاروق عادل کا تجزیہ
بات چیت اور وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ، اس نکتے پر بعض وزرا اور مبصرین نے مریم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن تنقید کرتے ہوئے یہ نکتہ نظر انداز کر دیا گیا کہ مریم نے مذاکرات کے لیے جو فریم ورک بتایا ہے، اس میں رہتے ہوئے کس قسم کے مذاکرات ہو سکتے ہیں، مریم نے آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور عوام کے سامنے مذاکرات کی شرط عائد کر کے دراصل یہ کہا ہے کہ آئیے، رولز آف دی گیم طے کریں۔ یہ ٹروتھ اور ری کسیلی ایشن جیسی بات ہے۔
گویا مریم اپنے موقف پر کھڑی ہیں اور انھوں نے اپنے حریف کو انگیج بھی کر لیا ہے۔
نواز شریف نے رپورٹ مسترد کر کے دباؤ بڑھایا، مریم نے بات چیت کا اشارہ دے کر انگیج کر لیا۔ بھٹو، اپوزیشن مذاکرات کے بعد اس درجے کی پیچیدہ سیاست کے داؤ پیچ پہلی بار سامنے آرہے ہیں جو نئے امکانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔