شہباز شریف بالآخر گرفتار کر لیے گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ مریم نواز نے ان کی جگہ لے لی اور وہی لب و لہجہ اختیار کیا جس کے لیے وہ معروف ہیں۔
شہباز شریف کی گرفتاری متوقع تھی۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ چند روز قبل انھوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی کارکردگی سے عوام کو آگاہ کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ ان کی گرفتاری متوقع ہے۔ یہ بھی بتا دیا کہ کیوں متوقع ہے۔ اس موقع پر انھوں نے قومی سیاست میں برسوں سے مستعمل ایک ڈائیلاگ بھی دہرایا جس میں کہا جاتا ہے کہ اتنا ہی ظلم کرو جتنا برداشت کر سکو۔
شیخ رشید کئی روز سے کہہ رہے تھے کہ شہباز شریف نواز شریف کے بیانیے کے حق میں نہیں۔ انھوں نے شہباز شریف کی یقینی گرفتاری کی اطلاع بھی دی اور اس یقین کا اظہار کیا کہ اب مسلم لیگ کے ن گروپ سے ش گروپ برآمد ہو گا۔ ان کے بیان سے چند برس پرانے ایک واقعے کی یاد تازہ ہو گئی۔ ایم کیو ایم کے کنوینئر فاروق ستار ایک موقف پر جمے ہوئے تھے کہ پریس کلب آتے ہوئے راستے پکڑے گئے۔ رات کسی سیف ہاؤس میں گزاری، صبح پریس کلب پہنچے تو ان کا مؤقف ایک روز پہلے کے مؤقف سے بالکل برعکس تھا۔ کیا شیخ رشید ایسے ہی کسی چمتکار کے منتظر تھے؟ اگر اس طرح کسی بڑی سیاسی جماعت کے بطن سے کوئی دھڑا برآمد ہونا ہے تو اس کی اطلاع دے کر شیخ صاحب کسی کی خدمت کر رہے تھے؟ اپنے دھڑے کی یا حزب اختلاف کی؟
نظر بظاہر تو یہی لگتا ہےکہ شیخ صاحب پورس کے ہاتھی بنے ہوئے ہیں یعنی جس فریق کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، اسی کی شرمندگی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ شیخ صاحب کے بیانیے پر مریم نواز کا تبصرہ خوب ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ش میں سے ن تو نہیں البتہ مخالفین کی چیخیں ضرور نکل گئی ہیں۔ گویا مسلم لیگ کو تقسیم کرنے کوشش ناکام ہو گئی ہے۔
خیر، شیخ صاحب کا معاملہ مختلف ہے، اصل سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری اور مریم نواز کا منظر پر آنا بدلے ہو ئے منظر کی نشاندھی کرتا ہے۔ پہلے نواز شریف کی تقریر، اس کے بعد مریم نواز کا پارٹی میں نمبر ون بن جانا کم اہم واقعہ نہیں۔ اس طرح کے واقعات کسی حادثے کے نہیں بلکہ احتیاط سے بنائی ہوئی حکمت عملی کے نتیجے میں رونما ہوتے ہیں.
اے پی سی، نواز شریف کی تقریر اور اس کے بعد مریم نواز کا پارٹی قیادت پر آ جانا بدلے ہوئے سیاسی منظر کی نشاندھی کرتا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ منظر کیاصورت اختیار کرتا ہے، یہ دیکھنے کے لیے ابھی کچھ دن انتظار کرنا ہو گا۔