امریکی انتخابات کے بعد ہمارے خطے کی ایک بڑی سرگرمی ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا دورہ پاکستان ہے۔
پاکستان اور ایران جیسے ہمسایہ اور برادر ملکوں کے درمیان وزیر خارجہ کی سطح کے دورے کی اہمیت غیر معمولی ہوتی ہے، ایسے واقعات کو دو ملکوں کے درمیان تعلقات کار میں ایک نئے دور کی ابتدا سمجھنا چاہئے۔
کیا یہ دورہ اس معیار پر پورا اترا ہے؟ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے ملاقات کے بعد جو بیان جاری کیا ہے، وہ اتنا روائیتی ہے کہ اس سے آسانی کے ساتھ کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے تاہم عمران خان سے ان کی ملاقات کی جو تفصیل سامنے آئی ہے، وہ اس اعتبار سے حوصلہ افزا ہے کہ معزز مہمان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اس دورے کا حاصل اگر اتنی بات بھی ہو تو علاقائی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی سمجھنا چاہئے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے لیے اسلام آباد میں جواد ظریف کی سرگرمیاں یقیناً رہنمائی کرتی ہیں لیکن دوطرفہ معاملات کی نزاکتیں سمجھنے کے لیے ایسی سرگرمیوں کے پس منظر اور پیش منظر پر توجہ بھی ضروری ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں جواد ظریف کی اسلام آباد آمد سے چند روز پہلے کے بیان پر توجہ دینی چاہئے جس میں انھوں نے امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کی شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جانے والے چلے گئے، ہمیں ہمیشہ اکٹھے رہنا ہے۔
ایرانی قیادت کا یہ بیان بظاہر خطے کے سارے ملکوں کے لیے ہے لیکن سیاق و سباق میں اس کا پہلا مخاطب پاکستان ہے جس کے ساتھ اس کی صرف سرحدیں ہی نہیں ملتیں بلکہ ایسے مفادات بھی مشترک ہیں جن کا تعلق آنے والے زمانوں اور آنے والی نسلوں سے ہے، اس لیے ضروری ہے کہ یہ دونوں ملک بدلے ہوئے حالات میں جرات مندانہ طرز عمل اختیار کر کے نہ صرف اپنی بلکہ پورے خطے کی خوشحالی کو یقینی بنا دیں۔
امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کئی مسائل کا شکار رہا ہے، اس سلسلے میں پاکستان کا تعاون اس کے لیے بہت سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ایران سے ربط ضبط پاکستانی معیشت کے استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی ایک بنیاد بہت عرصے سے التوا میں پڑی ہوئی گیس پائپ لائن بن سکتی ہے، بھارت نے جس سے علیحدگی اختیار کر کے ایران کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی تھی۔
خطے کی ترقی کے لیے بنیاد کا کام دینے والے اس منصوبے سے بھارت کی علیحدگی کا سبب امریکی پابندیاں تھیں۔ اس منصوبے سے پاکستان کی دلچسپی اگر چہ بہت زیادہ ہے لیکن عالمی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان بھی زیادہ سرگرم نہ ہو سکا۔
صدر ٹرمپ کی شکست کے بعد ایرانی قیادت کا بیان اسی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان اگر اس جانب کچھ پیش رفت ہوئی ہے تو یہ اس خطے کی سب سے بڑی خبر ہے اور اگر ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو اس جانب سوچنا چاہئے کیوں کہ نئے امریکی صدر روائتی طور پر بھارت نواز ہیں، ان سے یہ توقع مشکل ہوگی کہ وہ پاک بھارت اختلافات کے حل کے سلسلے میں کوئی بامعنی پیش رفت کریں۔ اس طرح کی صورت حال میں پاکستان کو ایران کا ہاتھ ضرور تھامنا چاہئے جو چاہ بہار کے مقابلے میں گوادر کی اہمیت کو تسلیم کر کے اقتصادی راہ داری میں حصہ دار بننے پر آمادہ ہے۔
جواد ظریف کے دورہ اسلام آباد نے پاکستان کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس تاریخی مرحلے پر ہماری قیادت آؤٹ آف باکس انداز فکر کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہی تو تاریخ رقم ہو جائے گی، ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ اقتصادی راہ داری کو پس پشت ڈالنے والوں نے ایک سنہری موقع اور ضائع کردیا۔