سعودی عرب میں رواں ہفتے کے دوران حکومت کی طرف سے قائم کبار علماء پر مشتمل کمیٹی نے اخوان المسلمین کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے کر سعودی عوام کو متنبہ کیا ہے۔ سعودی وزارت مذہبی امور کی طرف سے بھی ایک بیان جاری ہوا ہے کہ جمعے کے خطبات میں اخوان کے بارے میں اس فیصلے کو اجاگر کیا جائے گا۔
وزارت خارجہ نے بھی سوشل میڈیا پر اخوان پر حکومتوں کی مخالفت اور تبدیلی کی کوششوں کا الزام عائد کرتے ہوئے یہی پیغام دیا ہے کہ اخوان المسلمین ایک دہشت گرد گروہ ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت کیا جا رہا ہے جب مبصرین کے مطابق
سعودی حکمران اور خاص کر ولی عہد محمد بن سلمان امریکی الیکشن میں صدر ٹرمپ کی شکست کے بعد دباؤ میں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی مخصوص بے باکی سے سعودی عرب کی طرف سے صرف نظر کئے رکھا کہ ٹرمپ کے بقول سعودی عرب نے امریکی تعاون کے لئے وہ وسائل فراہم کئے جس کی ٹرمپ انتظامیہ کو شدید ضرورت تھی۔ اس کے بدلے ٹرمپ انتظامیہ نے محمد بن سلمان کی اندرونی سیاست میں سخت گیر پالیسیوں پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ خاشقجی کے قتل سے جو طوفان اٹھا تھا اس پر بھی ٹرمپ انتظامیہ نے عملی طور پر چپ کا ایسا روزہ رکھا کہ معاملہ دب کر رہ گیا۔
اب صدر ٹرمپ کی شکست سے محمد بن سلمان کے لئے جو مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں ان کے بارے میں شدومد سے لکھا جا رہا ہے۔ محمد بن سلمان کے مخالفین’ جن میں ان کے اپنے شاہی خاندان کے قریبی افراد بھی شامل ہیں’ یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں بائیڈن انتظامیہ حسب اعلان اوبامہ کی مشرق وسطی پالیسی کی طرف رجوع کرے گی تو محمد بن سلمان کا کردار محدود ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے:
مایوسی و ڈپریشن: ابتلا سے نعمت تک| ڈاکٹر عزیز الرحمٰن
کانٹینٹل بسکٹس لمیٹڈ اور لیو کے ٹریڈ مارکس کا مسئلہ
سائنسی انداز فکر اور پبلک پالیسی
یہاں پر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ رئیل پالیٹکس کے تناظر میں الیکشن کے بعد بائیڈن انتظامیہ کے لئے مشرق وسطی کے لئے ایسی کسی پالیسی کی طرف جانا ممکن بھی ہوگا جس میں محمد بن سلمان کے لئے آپشنز بہت محدود ہو جائیں گے؟ سعودی عرب نے حالیہ مہینوں میں متحدہ عرب امارات’ بحرین وغیرہ کے ذریعے اسرائیل کو جس طرح آن بورڈ کیا ہے اس کے جواب میں کیا امریکہ میں موجود اسرائیلی لابی یہ قبول کرے گی کہ حماس و حزب اللہ کی ہمدرد اخوان المسلمین کی حمایت یافتہ قوتیں مشرق وسطی میں بائیڈن انتظامیہ کی اشیر آباد سے زور پکڑیں؟
یوں لگتا ہے کہ اگلے چند ماہ کے دوران یہ واضح ہو جائے گا کہ محمد بن سلمان اور محمد بن زائد بائیڈن انتظامیہ کو براستہ اسرائیل رام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یا نہیں۔ اس سلسلے میں یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ شاہ عبد اللہ کے دور کے آخر میں سعودی عرب نے اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ اپنی جنگ امارات کے بغیر ہی لڑی تھی۔ اب امارات اور سعودی عرب کم از کم اخوان کے معاملے پر ایک پیج پر ہیں جس سے محمد بن سلمان کے مخالفین کے لئے فوری طور کسی بڑی مثبت خبر کا حصول مشکل ہوسکتا ہے۔
سعودی حکومت نے اس وقت اخوان پر جو پریشر بڑھایا ہے اس کا ایک مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ سعودی ترجیحات کا اظہار کر دیا جائے کہ پاور اسٹریکچر میں کسی شراکت کے لئے سعودی حکمران فی الحال تیار نہیں ہیں۔ اخوان کو دہشت گرد گروہ قرار دینے اور اس سلسلے میں سعودی علماء کی کمیٹی کو سامنے لانے کی توجیہہ یہی ہے کہ ولی الامر کی غیر مشروط اطاعت کے سعودی فلسفے کو مذہبی دلیل کی قوت سے نافذ کرنے کی پالیسی جاری رہے گی۔
اخوان کے ماضی میں کبار سعودی علماء اور سعودی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی اور گرم جوش تعلقات رہے ہیں۔ سعودی عرب میں قائم اسلامی یونیورسٹیوں’ خیراتی اداروں اور سعودی سرپرستی میں چلنے انٹرنیشل اداروں میں اخوانی فکر کے افراد سب سے نمایاں رہے ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی’ نوجوانوں کے عالمی ادارے’ فلاح و بہبود کی سعودی ایجنسی’ اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک وغیرہ میں اخوان کا طوطی بولتا تھا۔
یہ تعلقات اپنی حکومتوں سے تنگ آ کر مغرب میں جا کر بسنے والے اخوانی فکر کے حامل افراد کی وجہ سے اس وقت خراب ہونا شروع جب انہوں نے مشرق وسطی میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی بات کرنا شروع کی۔ آگے چل کر اوبامہ انتظامیہ کی مشرق وسطی کی پالیسی کی تشکیل میں سیکنڈ اور تھرڈ جنریشن عرب تارکین وطن نے اہم کردار ادا کیا جو کسی نہ کسی درجے میں اخوانی فکر سے متاثر تھے۔
سعودی عرب کے لئے ہر طرح کا کمپرومائز ممکن تھا مگر اس کے اندرونی پاور اسٹرکچر میں کوئی ریفارم یا تبدیلی کو خط احمر سمجھ کر اخوان کو سب سے بڑا مخالف قرار دے دیا گیا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ کیا اخوان کے لئے تلخی اور مخالفت کا یہ باب کھولنا سودمند تھا یا پھر اس سے مزید پہلوتہی کر کے معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ اس سارے قضیئے میں تعلقات بگڑنے کے دو طرفہ حقیقی عوامل کتنے تھے اور ترکی و ایران کی “عجمی” دلچسپی نے کون کون سے مصنوعی عوامل اس میں شامل کر کے معاملے کی پیچیدگی میں اضافہ کر دیا۔
سعودی حکمرانوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اخوان کے بارے میں مکمل مسترد کرنے کی پالیسی پر ٹھنڈے دماغ سے از سر نو غور کرے۔ اخوان المسلمین کی ایک طویل علمی’ تربیتی’ سیاسی اور تنظیمی تاریخ ہے۔ اس تاریخ میں اخوان نے جہاں فاش سیاسی غلطیاں کی ہیں وہاں عزیمت و بہادری کی داستانیں بھی رقم کی ہیں۔ اس سفر میں خود سعودی عرب بھی ایک وقت تک سرپرست و معاون رہا ہے۔ سو ایسے کسی گروہ کو داعش و القاعدہ کی طرح دہشت گرد قرار دے کر ملیامیٹ کرنے اور تنہا کرنے کی کوششیں مضحکہ خیز دکھائی دیتی ہیں۔ اخوان کا سعودی حکومت کو ختم کرنے کا اگر کوئی منصوبہ ہے تو وہ یقینا سعودی قوانین کی حد تک غیر قانونی بات ہے۔ مگر یہی بات ایک جمہوری ریاست میں حق کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے بشرطیکہ اس کے لئے قانونی و آئینی جدوجہد کی جائے۔ اخوان کو سعودی قوانین کے دائرے میں رہ اپنے لئے وہی حکمت عملی جاری رکھنی چاہیئے جو برسوں سے چل رہی تھی۔
سعودی حکومت کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی مخالفین سے لڑائی سیاسی پچ پر ہی کھیلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے مذہبی دلائل اور دہشت گردی کے کارڈ کا استعمال مزید مسائل پیدا کر کے معاشرے میں بیزاری اور ریڈیکلائزیشن ہی پیدا کرے گا۔
as