ADVERTISEMENT
مایوسی اور ڈپریشن انسان کی زندگی میں وقتا فوقتا رونما ہونے والی مستقل کیفیات ہیں۔ جب انسان خوش اور پرامید ہوتا ہے تو دل و دماغ ایک سرشاری کی کیفیت میں ہوتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ مشکل سے مشکل کام بھی چٹکی بجا کر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس جب مایوسی کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو معمولی چیز بھی پہاڑ کی مانند رکاوٹ بن کر سامنے آجاتی ہے۔ اسی سے ڈپریشن کا آغاز ہوتا ہے اور انسان اگر لمبے عرصے کے لئے اس حالت کا شکار ہوجائے تو بسا اوقات اس سے نکلنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ مایوسی اور ڈپریشن جہاں انسان کے لئے مشکلات اور آزمائش کا باعث ہیں وہاں اللہ کے بندوں کے لئے یہ ایک نعمت کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
مایوسی کا آغاز اکثر اوقات اس وقت ہوتا ہے جب انسان کو کوئی بھی راستہ سجھائی نہ دے رہا ہو۔ مسئلے اور مشکل کے حل کے لئے کسی طور پر ہاتھ نہیں پڑ رہا ہو اور ساری کوششوں کے بعد بھی نتیجہ صفر نکلے تو مایوسی کا آغاز ہوتا ہے۔ ایسے میں اللہ پر ایمان اور یقین انسان کی مدد کو آتے ہیں۔ بندہ اپنی عملی کوتاہیوں کے باوجود اگر رب سے کسی درجے میں بھی تعلق رکھتا ہو تو جب سب در بند ہوجائیں تو اس کے لئے یہ امید قائم رہتی ہے کہ ایک در تو میرے لئے ہمیشہ ہی کھلا ہے۔ یہ جو اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ وہ جسی چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کردے اور یہ بھی کہ وہ جسے چاہے صاحب اقتدار و اختیار بنا دے اور جسے چاہے اس سے محروم کر دے’ اس سب سے بندے کی ڈھارس بندھتی ہے کہ میرا رب موجود ہے۔ وہ میرا ہاتھ تھام لے گا۔
یہی وہ احساس ہے جس کے لئے بزرگ کہتے ہیں کہ اللہ سے سب ہونے کی امید اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کی امید رکھنی چاہیئے۔ جب انسان اپنی ساری کوشش کر لے اور سب دروازے کھٹکھٹا کر مایوس ہوجائے تو اس وقت اسے احساس ہوتا ہے کہ مخلوق سے کچھ نہ ہونے کی امید رکھنے کا اصل مطلب کیا ہے۔ مایوسی اور ڈپریشن انہی معنوں میں اللہ کی نعمتیں ہیں کہ بندہ دو عالم سے خفا رب کی طرف رجوع کرنے کی کم از کم کوشش تو کرتا ہے۔ اس موقع پر بندے کو یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ مخلوق سے ہونے کی امید اتنی خطرناک چیز ہے کہ اگر یہ اسباب کے دائرے سے نکل کر اختیار کی شکل میں عقیدے میں جگہ بنا لے تو انسان شرک کا مرتکب ہو بیٹھتا ہے۔ سو مایوسی دراصل اللہ کی توحید کی یاددہانی بھی ہے کہ مخلوق کو اسباب کے جائز دائرے میں ہی رکھو اور امید صرف خالق سے رکھو۔