سب رنگ بند ہوگیا، پہلے ماہانہ بھر دوماہی، سہ ماہی، سالانہ تعطل کے باوجود سب رنگ چھپتا رہا اس کا رومانس ختم نہ ہوسکا، آج جب سب رنگ کو بند ہوئے برسوں بیت گئے، سب رنگ کا نشہ لاکھوں کو چڑھا کسی سب رنگ کے ” نشئی ” کے سامنے اس کے نشے کا ذکر کیجیے اس کو سب رنگ کے ذکر سے نشہ چڑھ جائے گا سب رنگ کا نشہ جس کو چڑھ گیا وہ اس کا عادی ہوگیا آج تک بولایا بولایا پھرتا ہے, اسی سرور میں رہتا ہے جب اس کا نشہ ٹوٹنے لگتا ہے تو ہڑک کے کہتا ہے کہ شکیل بھائی! دوبارہ سب رنگ کب شروع کریں گے ۔ یقین نہ آئے تو دیکھ لیجئے اخلاق بھائی کو، بالوں میں اتری سفیدی کے باوجود سب رنگ، سب رنگ پکارتے ہیں، زندگی میں بےشمار ایوارڈز وصول کئے لیکن آج تک اس تھپکی کو نہی بھولے جو دہائیوں پہلے نوجوان اخلاق احمد کے کاندھے پر شکیل عادل زادہ نے دی تھی، اخلاق بھائی آج تک اس تھپکی کے نشے میں چور ہیں، سب رنگ کے نشے میں چور ہیں۔
انکم ٹیکس افسری کے ساتھ شاعری کرنے والے برادر سید ایاز محمود کا برقی پیغام ملا کہ” اجرا ” آپ کو جاری کردیا گیا ہے۔ہم نے کہا کہ ہم تک تو نہیں پہنچا، اسی روز ڈاکخانہ سے فون موصول ہوا اور نہایت مہذب طریقے سے ایک اہلکار نے کہا کہ آپ کا پتہ تبدیل ہوگیا ہے ہمارے پاس آپ کی یہ امانت موجود ہے جلد آکر وصول پائیں، اگلے دن فون دو بارہ آیا اور ہم حیدری پوسٹ آفس کے اہلکاروں کی ذمےداری اور فرض شناسی کے گرویدہ ہوگئے،
اجرا وصول پایا سرورق شکیل و خوبصورت، وجیہہ و جمیل ہے۔ سرورق و پس ورق “جس طرف آنکھ اٹھائوں تیری تصویراں ہیں” اجرا کا یہ شکیل عادل زادہ نمبر ہے میں شکیل بھائی کےلئے بات نہیں کرسکتا، شکیل بھائی سے تفصیلی ملاقاتیں ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں ان میں سے بیشتر بھائی شکیل الرحمن سنووہائٹ والوں کے دسترخوان پر ہوئیں ، جس میں مختلف شعراء کا کلام میری پڑھنٹ میں سن کر آپ نے پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
اجرا میں جو کچھ ہے کیا عمدہ ہے، جمال احسانی مرحوم نے رازدار کے لئے شکیل بھائی کا طویل انٹرویو کیا ہے اس نے سب کچھ آشکار کردیا، نصیر ترابی صاحب ہی یہ سب کچھ لکھ سکتے تھے یہ افسانوی نثر لکھنے والے اب شاید وہ آخری آدمی ہیں ۔ نہ تو میں اخلاق احمد ہوں نہ رجب الدین کہ جو دن میں دس مرتبہ سب رنگ کے آفس فون کرتے تھے، دونوں نے شکیل بھائی کے لئے خوب لکھا، انور شعور صاحب اور بہت کچھ لکھ سکتے تھے کچھ تشنگی سی ان کے مضمون میں ہے۔ حافظ سب رنگ حسن رضا گوندل کا کام حیران کن ہے،انور خواجہ کےمضمون میں شکیل بھائی سے تعلق کے ذکر کے ساتھ اقدار و اہلیت کے گرتے معیار کا ذکر ہے۔ سید ایاز محمود اور آفتاب مضطر کا منظوم خراج عقیدت بھی قابل تحسین ہے شکیل بھائی اپنی زندگی میں ایک کہانی بن گئے ہیں ایک ایسی کہانی کہ جس کے ہر صفحہ پر کچھ نیا ہے۔ہم صرف اس کہانی کو سن سکتے ہیں۔
ہم وہ مفلوک الحال نسل ہیں جس کے حصہ میں کراچی کی کثافتیں آئیں۔ ہمیں نہ پریس چیمبر کی محفلیں ملیں نہ شکیل بھائی کی شفقت اور رہنمائی، ہم تو اچڑے ہوئے کراچی کی یادگار ہیں۔ سال 1980ء تک شدید غربت جو ہم جیسے ہر گھرانے میں پائی جاتی تھی، کم آمدنی اور کثیر العیالی نے آٹھویں جماعت سے اپنا خرچ خود اٹھائے اور کچھ گھر کی گاڑی کو دھکا لگانے کےلئے نوکری شروع کرادی پڑھنے کا شوق ہمیشہ سے تھا جیب میں کچھ پیسے آئے تو پرانے سب رنگ ہمارے دوست بن گئے، انکا کی منی سی عورت بھی خوبصورت لگی لیکن لاڈلہ کی کیا بات ہے استاد بٹھل کا لاڈلہ بابر زماں خان دل میں اتر گیا، کورا کے ذکر سے ہماری سانسیں بھی اتھل پتھل ہوتی تھیں، زرین،نسترن، جولین، سب کی تصویر آنکھوں میں آجاتی، کانتے، استاد پیرو، مارٹی یہ سب اپنے اپنے سے لگتے تھے کاش بازیگر مکمل ہوجاتی،
کاش شکیل بھائی کے دفتر پریس چیمبر میں کوئی بٹھل استاد ہوتا جو محبت کی نرمی اور شفقت کی گرمی سے شکیل بھائی کو بازیگر مکمل کرنے پر آمادہ کرتا سب رنگ نکالنے پر مجبور کرتا۔