
کرونا وائرس کی تیزی سے گھمبیر ہوتی صورتحال میں میڈیا پر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ حکومت پاکستان کو فوری طور پر مکمل لاک ڈاون کرنا چاہیئے کہ نہیں۔ حکومت کی اب تک کی پالیسی یہ نظر آرہی ہے کہ مکمل لاک ڈاون ملک کے حالات کے پیش نظر ممکن نہیں ہے اور اس سے کئی طرح کی دیگر پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ دوسری طرف اٹلی اور چین کی مثالیں دے کر واضح کیا جا رہا ہے کہ لاک ڈاون کئے بغیر کرونا کی عفریت کا مقابلہ ممکن نہیں ہوگا اور حکومت کو فوری طور پر لاک ڈاون کردینا چاہیئے۔ ہمیں اس وقت اس بحث کی سروکار نہیں ہے کہ لاک ڈاون صحیح پالیسی ہے کہ نہیں۔ اس وقت دیکھنے کے لائق جو بات ہے وہ ہے سائنسی بنیادوں پر حکومتی پالیسی نہ بنانے کے بارے سوشل میڈیا پر تشویش بھرے رویے کا اظہار ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ طبی و سائنسی بنیادوں پر اگر پالیسی سازی نہیں کی جارہی تو یہ بہت بڑی غلطی اور جرم ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پبلک پالیسی کی تشکیل میں سائنسی تحقیقات اور نتائج کو کس قدر وقعت دی جاتی ہے اور پوری دنیا میں سائنس کے اس دعوے کے باوجود کہ یہ سب سے درست اور حتمی نتائج فراہم کرتی ہے’ حکومتیں سائنس کو کس طرح نظر انداز کر کے دیگر عوامل کی بنیاد پر فیصلہ سازی کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل مثالوں پر غور فرمائیں:
اول: ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں سنجیدہ اور غیر جانبدار سائنسدانوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے اور دنیا بھر کی حکومتوں کو اولین ترجیح کے طور پر ماحولیاتی تبدیلیوں سے نپٹنے کے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اتنے وسیع البنیاد سائنسی اتفاق رائے کی باوجود نہ صرف یہ کہ دنیا بھر کی حکومتیں ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے کسی بامعنی ایجنڈے پر متفق ہونے میں ناکام رہی ہیں بلکہ کلائیمٹ سائنس کو غلط ثابت کرنے کے لئے مخصوص کارپوریٹ مفادات سرگرم عمل ہیں اور متبادل سائنس کی تشکیل سے وہ ماحولیاتی تبدیلی کی پوری سائنس کو ہی مشکوک بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اب تک جتنے بین الاقوامی معاہدے اور پروٹوکول سائن ہوئے ہیں وہ کمپرومائز کا شکار ہی رہے ہیں۔ امریکہ’ یورپ اور آسٹریلیا وغیرہ میں بڑی سیاسی قوتیں اور میڈیا ہاؤسز ماحولیاتی تبدیلیوں کے انکار اور اس بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کے بارے میں سرگرم عمل ہیں۔ دوسری طرف انڈیا اور چین جیسے بڑے صنعتی ممالک ماحولیاتی تبدیلی کی سائنس کے متوازن ہونے کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں کہ ان تحقیقات کی ٹائمنگ اور فوکس دراصل ان ممالک کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کو لگام ڈالنا ہے۔ ہم سردست اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کون درست ہے اور کون غلط مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ساری سائنس لابی ایک طرف مگر ماحولیاتی تبدیلیوں کی پبلک پالیسی ابھی تک بڑی حد تک غیر سائنٹیفک فیکٹرز کی بنیاد پر ہی مرتب ہو رہی ہے۔
دوم: تمباکو نوشی کے بارے میں سائنسی تحقیقات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں پھیپھڑوں کی جملہ بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ نہ صرف تمباکو کی پروڈکٹس ہیں بلکہ اس سے ہر سال بہت بڑی تعداد میں ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں۔ پھیپھڑوں کے کینسر کا براہ راست تعلق تمباکو نوشی کے ساتھ ہے۔ سگریٹ اس حوالے سے مزید خطرناک ہے کہ اس کے دھویں سے سگریٹ نوشی نہ کرنے والے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ تمباکو کی پروڈکٹس کے منفی اور مضر صحت اثرات کے بارے میں مکمل سائنسی اتفاق رائے ہونے کے باوجود آج تک پبلک پالیسی کے تناظر میں سگریٹ ایک ہلاکت خیز (لیتھل) مگر ساتھ ہی لیگل پروڈکٹ ہے! تمباکو کے کنٹرول کا فریم ورک کنونشن موجود ہے مگر تمام تر سائنسی ڈیٹا کے باوجود آپ تمباکو کی پروڈکٹس کو ممنوع قرار نہیں دے سکتے۔ یوں ساری سائنس ایک طرف مگر تمباکو سے متعلقہ پبلک پالیسی غیر سائنسی فیکٹرز کی بنیاد پر ہی استوار ہو رہی ہے۔
سوم: بچوں کا فارمولا دودھ غیر سائنسی بنیادوں پر پبلک پالیسی مرتب ہونے کی ایک اور مثال ہے۔ برسوں سائنس فارمولا ملک کے بارے میں انڈسٹری کے زیر اثر خود شکوک و شبہات کا شکار رہی۔ بعد ازاں بچوں کی بیماریوں اور خاص کر پیٹ کی بیماریوں کے بارے میں تحقیقات نے نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں میں فارمولا دودھ کے استعمال کے مضر اثرات کو ثابت کردیا تو اس بارے میں ڈاکٹر حضرات نے گفتگو شروع کردی۔ کہاں وہ وقت تھا جب چوسنی اور فیڈر اسپتالوں مں ہی ماؤں کو فراہم کردیئے جاتے تھے اور کہاں یہ حالت کے فارمولا ملک کی تشہیر کا ممنوع قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود فارمولا ملک انڈسٹری اب بھی پوری طرح قانونی ہے اور تمام کوڈز آف کنڈکٹ کا ہمہ وقت منہ چڑاتی رہتی ہے۔ حکومتیں سائنسی رائے کو ٹھکراتے ہوئے انڈسٹری کی لابی کے زیر اثر اپنی پالیسیاں مرتب کرتی ہیں اور سائنس منہ تکتی رہتی ہے۔
یہ چند مثالیں پبلک ہیلتھ پالیسی اور اس کی غیر سائنسی بنیادوں کے بارے میں برسبیل مثال ذکر کی گئی ہیں۔ مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ کرونا واحد ایسا کیس نہیں ہے جہاں سائنسی آراء (جن کی سائنٹیفک بنیاد بھی ابھی حتمی طور پر سامنے آنی ہیں) کو پبلک پالیسی کی تشکیل میں واحد اور بنیادی فیکٹر کے طور پر سامنے نہیں رکھا جاتا۔ حکومتیں دیگر کئی عوامل کو بھی مدنظر رکھتی ہیں اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔