فوج نے ایک بڑی جست لگا دی ہے۔ ہمارا اشارہ آئی جی سندھ واقعے پر جی ایچ کیو کی رپورٹ کی طرف ہے۔آئی جی سندھ کے ساتھ بدسلوکی کے ذمے دار کون تھے اور انھوں نے یہ سب کس کے اشارے پر کیا، یہ سب سوالات اپنی جگہ اہم ہوں گے لیکن اب یہ رپورٹ ان سوالات کہ جگہ لے چکی ہے۔
متعلقہ افسران تبدیل ہو چکے ہیں اور اب ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جی ایچ کیو میں اس سلسلے میں مزید کارروائی ہو گی۔ تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ یہ کارروائی کورٹ مارشل کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔
پی ڈی ایم اور خاص طور پر میاں نواز شریف کی طرف سے اختیار کیے گئے سخت مؤقف کے بعد فوج کی طرف سے یہ ایک بڑا قدم ہے جسے اعتماد سازی سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔
نواز شریف کی پہلی تقریر کے بعد فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کاکول اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے موقع پر بھی اسی قسم کے اشارے دیے تھے لیکن وہ اشارے سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے میں ناکام رہے تھے لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ ایک رپورٹ زیادہ بڑا قدم ہے۔
موجودہ ماحول میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اس کا خیر مقدم ایک بڑی پیش رفت ہے تاہم انھوں اس پیش رفت کو مزید اقدامات کے ساتھ منسلک کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں حقیقی جمہوریت کے استحکام کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے باوجود کہ مسلم لیگ کی طرف سے بات چیت پر آمادگی کے اشارے سامنے آئے ہیں لیکن اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بے اعتمادی اور تلخی جس سطح پر ہے، اس کے پیش نظر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ابتدا ہے۔
کیا یہ رپورٹ حزب اختلاف کی صفوں میں انتشار پیدا کرسکے گی؟ بلاول بھٹو زرداری کا ردعمل دیکھتے ہوئے اس کی توقع کم ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ بدقسمتی ہوگی۔
اس رپورٹ کا ایک دلچسپ پہلو اور بھی ہے۔ جی ایچ کیو نے آئی جی کے سلسلے میں حکومت سندھ کے الزامات تسلیم کر کے اُن لوگوں کے لیے مشکل پیدا کر دی ہے جو یہ تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں تھے کہ ایسا کچھ ہوا ہوگا۔
اس واقعے میں بہت سے طبقات کے لیے بہت سے سبق ہیں۔