کورونا کی عالم گیر وبا نے اپنے منحوس پر عالم انسانیت پر پھیلائے تو اہل فکر نے اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ ایک خدا پرست معاشرے کا رد عمل اس پر کیسا ہونا چاہئے، پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے اس نازک موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ سلسلہ مضامین پھیل کر ایک کتاب کی شکل اختیار کر گیا جو جلد ہی ‘ خدا، کورونا وائرس اور عادلانہ نظام زندگی’ کے عنوان سے زیور طبع سے آراستہ ہوگا۔ ‘آوازہ’ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کی اشاعت سے قبل ہی اسے یہ فکر انگیز مضامین شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جس کے ‘آوازہ’ تہہ دل سے ان کا شکر گزار ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ خدا آسمانوں اور زمین پہ ہزارہا صورتوں میں موجود ہے۔ یہ صورتیں ناقابلِ شمار ہیں۔ اسی لیے آسمانی صحیفے میں آیا کہ اگر دنیا کے سارے درخت قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی تو بھی خدا کی باتیں لکھنے میں ختم نہ ہوں گی۔ لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ زمین پہ جو کچھ ہے یا آسمانوں پہ جو کچھ ہے، وہ سب خدا ہی کے وجود کا مظہر ہے۔ خدا ہونا، خدا کا مظہر ہونا اور خدائی صفات کا ظاہر ہونا، یہ تین مختلف باتیں ہیں۔ اصل خدا وہ ہے جیسا کہ روایات میں آیا ہے، جو ساتویں آسمان پہ سدرۃ المنتہیٰ کے اس پار ستّر ہزار نوری پردوں کے پیچھے موجود ہے، جہاں جاتے ہوئے جبرئیل امین کے بھی پر جلتے ہیں۔ یہ عزت و افتخار صرف ہمارے رسول اکرمؐ کو حاصل ہے کہ خداوند تعالیٰ نےآپ کو معراج پہ بلایا اور اپنی دیدار کی لذّت بخشی۔
یہ بھی پڑھئے:
انسان خون کیوں بہاتا ہے؟ | ڈاکٹر طاہر مسعود
احترام آدمیت کیا اور کیسے؟ | ڈاکٹر طاہر مسعود
یہ مسئلہ بھی متنازعہ ہے کہ رسول اکرم دیدار الٰہی سے مستفیض ہوئے یا نہیں۔ جمہور علمائے سنت اسی عقیدے کو مانتے ہیں کہ دیدار ہوا۔ اس کے حق میں ایک دلیل یہ ہے کہ اگر دیدار کرنا مقصود نہ ہوتا تو معراج پہ بلایا ہی کیوں جاتا۔ چوں کہ معراج ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمّت کے لیے نماز عطا ہوئی اسی لیے حدیث میں نماز کو مومن کی معراج کہا گیا ___ تو یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ قُرب الٰہی کا واحد ذریعہ نماز ہے۔ اور دوران نماز ہی جو کیفیات نمازی کو حاصل ہوتی ہیں، اسی سے یہ اندازہ بہ آسانی ہوسکتا ہے کہ قرب الٰہی نصیب ہوا یا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کی طلب بے چین کرتی تھی تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔ قیام بسا اوقات اتنا طویل ہوتا تھا کہ پائوں پہ ورم آجاتے تھے۔ یا سجدے میں جاتے تو سجدہ اتنا طویل ہو جاتا تھا جیسے اب کبھی سر نہ اٹھائیں گے۔ افسوس کہ علماء نے اُمّت کو نماز کی تلقین تو کی لیکن کیفیتِ نماز پیدا کرنے کی طرف متوجہ نہیں کیا۔ چناں چہ اب نمازیوں کی نمازیں مارے باندھے کی نمازیں ہوتی ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ نماز بھی عطا ہوتی ہے۔ کوئی شخص کوشش اور ارادے سے اپنی نماز کو اچھا کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ اگر اس کی تمنّا ہو کہ نمازمیں یک سوئی ہو اور ذہن خیالاتِ دنیاوی میں نہ الجھے تو اس کا کوئی اور طریقہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ خداوند تعالیٰ ہی سے نماز طلب کرے، نماز میں یک سوئی اور دل جمعی کی دعا کرے۔ دورانِ نماز پریشاں فکری کی اور کوئی وجہ نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ اللہ سے سچّا اور محبّت کا تعلق نہیں ہوتا۔ دنیا کی محبت جب آدمی پر غالب ہوگی تو نماز میں بھی سامنے دنیا ہی ہوگی۔ نماز میں یک سوئی حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ نمازی جس آیت کی آہستگی سے تلاوت کرے __ دورانِ تلاوت توجہ ان ہی آیات پر مرکوز رکھے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ آیات کی تلاوت زبان کا فعل ہے اور ذہن کی توجہ کا اس فعل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ زبان سے آدمی کچھ بھی کہے، ذہن سوچنے میں مصروف رہ سکتا ہے۔ یک سوئی پیدا کرنے کے لیے اگر ذہن کی سرگرمی یعنی سوچ بچار یا خیالات کی آمد کو روکنے کے لیے ذہن کو آیاتِ تلاوت سے باندھ دیا جائے تو خیالات جو تیزی سے آتے چلے جاتے ہیں، اس پر بند باندھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ مشق و ریاضت عرصے تک کیا جائے تبھی اس مشق کو عادت کا حصّہ بنایا جاسکتا ہے۔ اور پھر ایسا وہی لوگ کرسکتے ہیں جنھیں اپنی نماز کو خالص کرنے کی فکر ہو۔جو لوگ نماز کو ایک ڈیوٹی سمجھ کر پڑھتے ہیں انھیں کب اس کی فکر ہوتی ہے کہ وہ اپنی نمازوںکو دنیاوی تفکرات سے محفوظ کرکے اسے خالص اللہ کے لیے مخصوص کر دیں۔
نماز کا بہت گہرا تعلق وضو سے ہے۔ وضو سے نمازی پاکی حاصل کرتا ہے۔ اللہ پاک ہے اور پاکی کو ہی پسند کرتا ہے۔ بندہ اس کے حضور پیش ہونے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی پہلی شرط پاک صاف کپڑے پہننا اور وضو کرکے خود کو ہر قسم کی آلائش سے پاک کرنا ہے۔ اکثر نمازی وضو کو لاپرواہی اور بے دھیانی سے اس طرح کرتے ہیں کہ یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ وضو ہوا بھی یا نہیں۔ جب وضو ہی نہیں ہوا تو نماز کیسے ہوسکتی ہے۔ وضو اور نماز کی مشقت کا بہت گہرا تعلق نیّت سے ہے۔ جب نمازی نماز کی نیّت کرے تو اسے احساس ہونا چاہیے کہ اس کے اس عمل کے کیا معنی ہیں __ یہ احساس کہ وہ ایک جلیل القدر ہستی کے سامنے کھڑا ہونے جارہا ہے۔ جب تک وہ اپنے شعور میں اس حقیقت کو رچا بسا نہ لے، نماز کی کیفیت کیسے پیدا ہوسکتی ہے۔ رسول مقبول کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ نماز کا وقت ہوتا تھا اور اذان ہوتی تھی تو آپ ایسے ہو جاتے تھے جیسے کسی کو پہچانتے ہی نہ ہوں۔ ساری بات اللہ سے تعلق کی ہے۔ یہ تعلق جب تک بندے کے اندر احساس نہ بن جائے۔ جب تک وہ خدا کو اپنی روح کی گہرائیوں میں محسوس نہ کرنے لگے۔ نماز کی حقیقت اس پر کُھل ہی نہیں سکتی۔ جب ہم نے یہ لکھا کہ خدا آسمانوں پر بھی ہے اور زمین پر بھی موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین پر اس کی موجودگی کو اگر محسوس کر سکتے ہیں تو دوران نماز ہی محسوس کر سکتے ہیں اس لیے احسان کی تعریف یہ کہہ کر کی گئی کہ نماز اس طرح پڑھی جائے جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو ورنہ وہ تو تمھیں دیکھ ہی رہا ہے۔ کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ اگر نماز میں اللہ کو نہ دیکھ پاتا تو پھر عبادت کس کی کرتا۔ اس حقیقت کو سمجھنا آسان نہیں اس لیے کہ یہ معاملہ ایمانی کیفیت سے ہے۔ اور کیفیت ایمان چوں کہ ہر فرد کا نجی اور ذاتی معاملہ ہے اس لیے اسے دوسرے نہیں سمجھ سکتے۔ جب کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ بندے کے گمان کے ساتھ ہوتے ہیں __ یعنی جیسا گمان بندے کا اللہ کے ساتھ ہوگا اللہ بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرے گا۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے اچھی امیدیں باندھے تو اللہ ان امیدوں پہ پورا اترے گا __ اگر یہ معنی لیے جائیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اللہ بندے کی امیدوں اور اس کے گمانوں کے ماتحت ہوگیا۔ کیا لامحدود خدا آدمی کے محدود گمان کے ماتحت ہوسکتا ہے؟ تو پھر اس حدیث کے کیا معنی ہیں؟ اس کے معنی فقط یہ ہیں کہ خدا سے اچھا گمان کرنا چاہیے اور اس کے ہر فیصلے پر راضی رہنا چاہیے کیوں کہ جب وہ آزمائش میں ڈالتا ہے تو بعد میں اس کی تلافی بھی کر دیتا ہے چاہے اس دنیا میں کرے یا دوسری دنیا میں کرے۔ یہ اس پرہے۔ کسی پہ مصیبت یا پریشانی آتی ہے تو خدا کو اس سے کوئی خوشی نہیں ہوتی نہ اسے بندے کو مصیبت میں ڈال کر کچھ مل جاتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جسے کچھ عطا کرنا ہو تو عطا کرنے سے پہلے وہ بندے کے ایمان کی آزمائش ضرور کرتا ہے۔ تو مصائب اور تکالیف کو ہر حال میں سزا یا خدا کا انتقام نہیں سمجھنا چاہیے۔ خدا اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیتا۔ وہ انتقام لیتا ہے تو دوسرے انسانوں کے حقوق غضب کرنے، انھیں تکلیف پہنچانے کا انتقام لیتا ہے۔ اس لیے کہ خدا بندے کے اندر روح اور قلب کی صورت میں موجود ہے تو جب مظلوم پر مصیبت گزرتی ہے تو اس کی روح اس میں جھلستی اور دل ہی میں تڑپ پیدا ہوتی ہے تو مظلوم کو اذیت دینا خدا ہی کو اذیت دینا ہے __ اسی لیے ہمارے اولیا اللہ فرمایا کرتے تھے کہ شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ کسی دل کو تکلیف دینا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہر زیادتی اور ظلم کرنے والے کو معاف کر دیا جائے اور اسے کچھ نہ کہا جائے کہ اس سے اس کے دل کو تکلیف ہوگی۔ شریعت اپنا بدلہ لینے کی اجازت دیتی ہے۔ آنکھ کے بدلے آنکھ اور جان کے بدلے جان کا حکم اسی لیے دیا گیا ہے کہ اگر زمین پر بدلہ نہ لیا گیا تو آسمان پہ اس کا بدلہ لیا جائے گا جو زیادہ خسارے کا باعث ہوگا۔
یہ جو عام تصّور پایا جاتا ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ سے خدا کو خوش اور راضی کیا جاسکتاہے، چاہے بندوں سے معاملات کیسے اور کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں۔ یہ جو روایات میں آتا ہے کہ بہت سے نمازیوں کی نمازیں ان کے مُنہ پہ مار دی جائیں گی تو اس پہ غور کیوں نہیں کیا جاتا کہ کس جرم کی سزا کے طور پر ایسا کیا جائے گا۔ وہ جرم یہی ہے کہ بندہ، بندے کو تکلیف پہنچا کر، اس کا حق مار کر خدا کو اپنی نمازوں اور حج و عمرے کے ذریعے راضی رکھنے اور اس کے گڈ بک میں اپنے نام کا اندراج کرنا چاہے۔ مسلمانوں میں عبادات کا رجحان کچھ کم نہیں۔ اس کے باوجود ان کے حالات کیوں بگڑے ہوئے ہیں؟صرف اس لیے کہ ان کے معاملات بگڑے ہوئے ہیں __ وہ بندے کا حق مار کر خدا کو اس کا حق دینا چاہتے ہیں __ خدا کو اپنا حق اس لیے قبول نہیں کہ وہ اپنے ہر حق سے بلند اور ماورا ہے۔ کسی کی نماز، روزے اور حج و عمرے سے خدا کو کچھ نہیں ملتا۔ اگر کچھ ملتا ہے تو بندے ہی کو ملتا ہے۔ لیکن خدا خوش ہوتا ہے جب کوئی اس کے کسی بندے کی مصیبت میں کام آتا ہے، اس کی کسی ضرورت کو کوئی پورا کرتا ہے، اس کے دکھ سکھ میں کوئی اس کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ جب تک لوگوں کا روّیہ انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کا نہ ہو، خدا کو لوگوں کی نماز اور دیگر عبادات سے کیا لینا دینا۔ یہ نہایت سادہ سی بات ہے اورہر مسلمان کو اس کا علم ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کے معاملات درست کیوں نہیں ہوتے؟ یہ پہلو قابل غور ہے۔ مسلمانوں میں شاید ہی ایسے پڑھے لکھے لوگ ہوں گے جو اہلِ مغرب کے حُسنِ اخلاق اور حسن معاملہ کی تعریف نہ کرتے ہوں __ تو پھر
مذہب سے دور ہوکر بھی اہل مغرب اخلاقی معاملات میں مسلمانوں سے بہتر کیوں ہیں؟ اور مسلمان جو اپنی تعلیمات سے اچھی طرح واقف ہیں اور پھر بھی بہ حیثیت انسان ان کی اخلاقی حالت گری ہوئی ہے تو کیوں ہے؟
آیئے اس سوال پر غور کرتے ہیں
۔