Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
انسان کو انسان کا خون بہانے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کے احترام اور اس کے وقار کو بحال کیا جائے۔ جب تک آدمیت کا احترام اور اس کی عزت پامال ہوتی رہے گی انسانی خون بھی ارزاں رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ احترام آدمیت اور وقار انسانی کیا چیز ہے؟ اس کے معنی کیا ہیں؟ جب تک ہم یہ طے نہ کرلیں ہم اپنے اصل مقصد تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم دانشوروں کی گفتگوئوں ، ادیبوں ، شاعروں کی تحریروں اور نگارشات میں عرصہ دراز سے پڑھتے آئے ہیں کہ انسان عظیم ہے۔ انسان محترم ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ انسان عظیم و محترم ہے تو کس طرح؟ کیا اس لیے کہ وہ جملہ مخلوقات سے اشرف ہے۔ عقل و دانش رکھتا ہے۔ حامل علم ہے۔ یا اس لیے کہ وہ ایسی صلاحیتوں کا مالک ہے جو کسی اور مخلوق میں نہیں پائی جاتیں۔ اگر وہ عقل و دانش رکھتا ہے تو قتل جیسے جرم کا مرتکب کیوں ہوتا ہے؟ اور حامل علم ہے تو وقار انسانی اور احترام آدمیت کو مجروح کیوں کرتا ہے؟ آپ کہیں گے سب لوگ ایسا نہیں کرتے۔ ایسا کرنے والے بہت تھوڑے ہیں اور اپنے ایسے ہی اعمال کی وجہ سے وہ تنگ انسانیت ہیں‘ وقار انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں وغیرہ۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں۔ اگر زیادہ اچھے ہیں تو کچھ برے بھی ہیں۔
کیا اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو برے ہیں وہ کسی احترام‘ کسی عزت کے مستحق نہیں ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے زور آور لوگ جو کسی نہ کسی طریقے سے طاقت حاصل کرلیتے ہیں اور طاقت حاصل کرکے ’’تنگ انسانیت‘‘ والے کام کرتے ہیں۔ مثلاً قتل کراتے ہیں‘ بہو بیٹیوں کو اٹھواتے ہیں‘ کمزوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ انہیں بے عزت اور رسوا کرتے ہیں۔ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں چاہے خوف کے مارے ہی کرتے ہوں۔ ان سے رعب بھی کھاتے ہیں۔ وہ بلائیں تو ان کے حضور پیش ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ ذرا نہیں سوچتے کہ یہ تو تنگ انسانیت ہیں یا سماج کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہی نا کہ انسان طاقت کا پجاری ہے۔ وہ طاقتور کا غلام بن جانا پسند کرتا ہے۔ وہ اس کے آگے جھک جاتا ہے اور بسااوقات تو اسے خدا مان لیتا ہے۔ چاہے وہ حکمران ہو‘ چاہے کسی مافیا کا ڈان ہو۔ چاہے وہ بے پناہ زمینوں کا مالک ہویا بے پناہ ذرائع و وسائل رکھتا ہو اور یہ ساری دولت و جائیداد‘ حکومت یا بادشاہی اس نے انسانوں پر ظلم ڈھا کر انہیں بے پناہ و بے اماں کر کے حاصل کئے ہوں۔ ہم زیادہ سے زیادہ انہیں ظالم کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن ان کے سامنے کھڑے ہونے کی اور انہیں ظلم سے روک دینے کی ہمت و جرأت اپنے اندر نہیں پاتے۔ تو کیا ہم مان لیں کہ احترام آدمیت کوئی چیز نہیں۔ دنیا میں اور تاریخ میں اس کا وجود کبھی نہیں رہا اور یہ دنیا اسی لیے ہمیشہ سے ظلم وستم کی آماجگاہ رہی ہے۔ انسان دوسرے انسان پر ہمیشہ ظلم ڈھاتا آیا ہے اور ظلم ڈھاتا رہے گا۔ کیا یہ بات درست ہے؟
حقیقت میں تو یہی درست ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ہم تاریخ کے ایسے حکمرانوں کو جو عادل وانصاف پسند تھے اور جنہوں نے احترام آدمیت کا ایسا پاس لحاظ کیا کہ ان کے سگے بیٹے بھی خلاف انسانیت کاموں میں ملوث نکلے تو انہوں نے اپنے بیٹوں اور اپنے سگوں کو بھی معاف نہیں کیا اور انہیں سزائیں دیں۔ ایسے حکمرانوں کا نام لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہم سب کو وہ نہ صرف یاد ہیں بلکہ وہ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ ان کے عدل و انصاف کے کارناموں کو ہم اپنی درسی کتابوں میں پڑھاتے ہیں تاکہ ان کا نام نسل درنسل زندہ رہے۔ اس کے برعکس جب وقت گزر جاتا ہے تو ہم ظالم اور درندہ صفت حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور ان کے ظالمانہ اقدامات سے اپنی درسی کتابوں کو بھی پاک صاف رکھتے ہیں کہ وہ اس درجہ قابل نفرت ہیں۔
پس معلوم ہوا کہ احترام آدمیت تاریخ کے بیشتر ادوار میں ایک حقیقت ایک زندہ حقیقت کے طور پر بے شک نہ رہا ہو لیکن اس کی حقیقت اور اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا۔ اب آئیے اس سوال کی جانب کہ احترام آدمیت درحقیقت ہے کیا؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کہاں پائی جاتی ہے۔ آسمانی صحائف بتاتے ہیں کہ خدا نے انسان کو خلق کیا اور اسے زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا۔ نائب یا خلیفہ قائم مقام کو کہتے ہیں یعنی انسان زمین پر خدا کا قائم مقام یعنی اس کی جگہ یہ ہے۔ چنانچہ جب خدا نے انسان کو خلق کیا تو اسے اپنی وہ ساری صفات بخش دیں جو ایک خلیفہ یا اس کے نائب کے لیے ضروری تھیں۔ ان ہی صفات یا اوصاف کو انسان کام میں لایا اور اس نے اس ویران و سنسنان زمین کو نہ صرف آباد کیا بلکہ اس زمین پر اس نے اپنا ایک نیا جہان پیدا کر کے دکھا دیا۔ انسان کی ترقی و تخلیق کا یہ سفر آج بھی جاری ہے جس نے خود انسانوں کو حیرت زدہ کردیا ہے جس انسان کو خدا نے یہ عزت بخشی ہو اور انسان نے خود کو اس عزت و احترام کا مستحق ثابت کیا ہو۔ کیا وہ اس کا مستحق نہیں کہ اس کی تعظیم کی جائے۔ اس کی توہین نہ کی جائے اسے ذلیل و رسوا نہ کیا جائے۔ اسے درندوں کے سامنے نہ ڈالا جائے۔ اس کا خون نہ بہایا جائے۔ اس کے گھروں کو نذر آتش نہ کیا جائے۔ اس کی جائیداد لوٹی نہ جائے‘ اس پر قبضہ نہ کیا جائے۔ اسے عزت و احترام دیا جائے۔ وہ بھوکا ہو تو اسے روٹی دی جائے‘ ننگا ہو تو اسے لباس دیا جائے‘ سر پر چھت نہ ہو فٹ پاتھوں اور پارکوں پر سویا ہو تو اسے کم از کم ایک جھونپڑی ہی رہنے سہنے کے لیے دے دی جائے۔ یہی احترام آدمیت ہے جس کا سب سے اونچا درجہ یہ ہے کہ اس پر ظلم نہ کیا جائے اور ظلم ہو تو اسے عدل فراہم کیا جائے۔
اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ انسان کے احترام کو مجروح کون کرتا ہے‘ اس پر ظلم کون ڈھاتا ہے۔ کوئی اور نہیں خود انسان۔ تو انسان کو اصل خطرہ خود انسان سے ہے۔ حیوانوں کو اس نے قابو کرلیا‘ فطرت کو مسخر کر چکا اور اب سیاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے لیکن انسان خود انسان کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں۔ انسانوں نے نظام انسانوں کے لیے بنائے ہیں۔ وہ نظام ظالمانہ ہے‘ غیر عادلانہ ہے بلکہ کم سے کم لفظوں میں وحشیانہ ہے۔ جب تک اس گلے سڑے اور فرسودہ نظام کو ڈھا کر اس کی جگہ ایک عادلانہ‘ درمندانہ اور احترام آدمیت کی بحالی والا نظام نہیں رائج کیا جائے گا۔ انسان کو نجات نہیں ملے گی اپنے ہی جیسے دوسرے ظالم انسان سے یہ نظام کیسے آئے گا؟ اس سوال پر غوروفکر کسی اگلی نشست میں۔
انسان کو انسان کا خون بہانے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کے احترام اور اس کے وقار کو بحال کیا جائے۔ جب تک آدمیت کا احترام اور اس کی عزت پامال ہوتی رہے گی انسانی خون بھی ارزاں رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ احترام آدمیت اور وقار انسانی کیا چیز ہے؟ اس کے معنی کیا ہیں؟ جب تک ہم یہ طے نہ کرلیں ہم اپنے اصل مقصد تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم دانشوروں کی گفتگوئوں ، ادیبوں ، شاعروں کی تحریروں اور نگارشات میں عرصہ دراز سے پڑھتے آئے ہیں کہ انسان عظیم ہے۔ انسان محترم ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ انسان عظیم و محترم ہے تو کس طرح؟ کیا اس لیے کہ وہ جملہ مخلوقات سے اشرف ہے۔ عقل و دانش رکھتا ہے۔ حامل علم ہے۔ یا اس لیے کہ وہ ایسی صلاحیتوں کا مالک ہے جو کسی اور مخلوق میں نہیں پائی جاتیں۔ اگر وہ عقل و دانش رکھتا ہے تو قتل جیسے جرم کا مرتکب کیوں ہوتا ہے؟ اور حامل علم ہے تو وقار انسانی اور احترام آدمیت کو مجروح کیوں کرتا ہے؟ آپ کہیں گے سب لوگ ایسا نہیں کرتے۔ ایسا کرنے والے بہت تھوڑے ہیں اور اپنے ایسے ہی اعمال کی وجہ سے وہ تنگ انسانیت ہیں‘ وقار انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں وغیرہ۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں۔ اگر زیادہ اچھے ہیں تو کچھ برے بھی ہیں۔
کیا اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو برے ہیں وہ کسی احترام‘ کسی عزت کے مستحق نہیں ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے زور آور لوگ جو کسی نہ کسی طریقے سے طاقت حاصل کرلیتے ہیں اور طاقت حاصل کرکے ’’تنگ انسانیت‘‘ والے کام کرتے ہیں۔ مثلاً قتل کراتے ہیں‘ بہو بیٹیوں کو اٹھواتے ہیں‘ کمزوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ انہیں بے عزت اور رسوا کرتے ہیں۔ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں چاہے خوف کے مارے ہی کرتے ہوں۔ ان سے رعب بھی کھاتے ہیں۔ وہ بلائیں تو ان کے حضور پیش ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ ذرا نہیں سوچتے کہ یہ تو تنگ انسانیت ہیں یا سماج کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہی نا کہ انسان طاقت کا پجاری ہے۔ وہ طاقتور کا غلام بن جانا پسند کرتا ہے۔ وہ اس کے آگے جھک جاتا ہے اور بسااوقات تو اسے خدا مان لیتا ہے۔ چاہے وہ حکمران ہو‘ چاہے کسی مافیا کا ڈان ہو۔ چاہے وہ بے پناہ زمینوں کا مالک ہویا بے پناہ ذرائع و وسائل رکھتا ہو اور یہ ساری دولت و جائیداد‘ حکومت یا بادشاہی اس نے انسانوں پر ظلم ڈھا کر انہیں بے پناہ و بے اماں کر کے حاصل کئے ہوں۔ ہم زیادہ سے زیادہ انہیں ظالم کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن ان کے سامنے کھڑے ہونے کی اور انہیں ظلم سے روک دینے کی ہمت و جرأت اپنے اندر نہیں پاتے۔ تو کیا ہم مان لیں کہ احترام آدمیت کوئی چیز نہیں۔ دنیا میں اور تاریخ میں اس کا وجود کبھی نہیں رہا اور یہ دنیا اسی لیے ہمیشہ سے ظلم وستم کی آماجگاہ رہی ہے۔ انسان دوسرے انسان پر ہمیشہ ظلم ڈھاتا آیا ہے اور ظلم ڈھاتا رہے گا۔ کیا یہ بات درست ہے؟
حقیقت میں تو یہی درست ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ہم تاریخ کے ایسے حکمرانوں کو جو عادل وانصاف پسند تھے اور جنہوں نے احترام آدمیت کا ایسا پاس لحاظ کیا کہ ان کے سگے بیٹے بھی خلاف انسانیت کاموں میں ملوث نکلے تو انہوں نے اپنے بیٹوں اور اپنے سگوں کو بھی معاف نہیں کیا اور انہیں سزائیں دیں۔ ایسے حکمرانوں کا نام لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہم سب کو وہ نہ صرف یاد ہیں بلکہ وہ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ ان کے عدل و انصاف کے کارناموں کو ہم اپنی درسی کتابوں میں پڑھاتے ہیں تاکہ ان کا نام نسل درنسل زندہ رہے۔ اس کے برعکس جب وقت گزر جاتا ہے تو ہم ظالم اور درندہ صفت حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور ان کے ظالمانہ اقدامات سے اپنی درسی کتابوں کو بھی پاک صاف رکھتے ہیں کہ وہ اس درجہ قابل نفرت ہیں۔
پس معلوم ہوا کہ احترام آدمیت تاریخ کے بیشتر ادوار میں ایک حقیقت ایک زندہ حقیقت کے طور پر بے شک نہ رہا ہو لیکن اس کی حقیقت اور اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا۔ اب آئیے اس سوال کی جانب کہ احترام آدمیت درحقیقت ہے کیا؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کہاں پائی جاتی ہے۔ آسمانی صحائف بتاتے ہیں کہ خدا نے انسان کو خلق کیا اور اسے زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا۔ نائب یا خلیفہ قائم مقام کو کہتے ہیں یعنی انسان زمین پر خدا کا قائم مقام یعنی اس کی جگہ یہ ہے۔ چنانچہ جب خدا نے انسان کو خلق کیا تو اسے اپنی وہ ساری صفات بخش دیں جو ایک خلیفہ یا اس کے نائب کے لیے ضروری تھیں۔ ان ہی صفات یا اوصاف کو انسان کام میں لایا اور اس نے اس ویران و سنسنان زمین کو نہ صرف آباد کیا بلکہ اس زمین پر اس نے اپنا ایک نیا جہان پیدا کر کے دکھا دیا۔ انسان کی ترقی و تخلیق کا یہ سفر آج بھی جاری ہے جس نے خود انسانوں کو حیرت زدہ کردیا ہے جس انسان کو خدا نے یہ عزت بخشی ہو اور انسان نے خود کو اس عزت و احترام کا مستحق ثابت کیا ہو۔ کیا وہ اس کا مستحق نہیں کہ اس کی تعظیم کی جائے۔ اس کی توہین نہ کی جائے اسے ذلیل و رسوا نہ کیا جائے۔ اسے درندوں کے سامنے نہ ڈالا جائے۔ اس کا خون نہ بہایا جائے۔ اس کے گھروں کو نذر آتش نہ کیا جائے۔ اس کی جائیداد لوٹی نہ جائے‘ اس پر قبضہ نہ کیا جائے۔ اسے عزت و احترام دیا جائے۔ وہ بھوکا ہو تو اسے روٹی دی جائے‘ ننگا ہو تو اسے لباس دیا جائے‘ سر پر چھت نہ ہو فٹ پاتھوں اور پارکوں پر سویا ہو تو اسے کم از کم ایک جھونپڑی ہی رہنے سہنے کے لیے دے دی جائے۔ یہی احترام آدمیت ہے جس کا سب سے اونچا درجہ یہ ہے کہ اس پر ظلم نہ کیا جائے اور ظلم ہو تو اسے عدل فراہم کیا جائے۔
اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ انسان کے احترام کو مجروح کون کرتا ہے‘ اس پر ظلم کون ڈھاتا ہے۔ کوئی اور نہیں خود انسان۔ تو انسان کو اصل خطرہ خود انسان سے ہے۔ حیوانوں کو اس نے قابو کرلیا‘ فطرت کو مسخر کر چکا اور اب سیاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے لیکن انسان خود انسان کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں۔ انسانوں نے نظام انسانوں کے لیے بنائے ہیں۔ وہ نظام ظالمانہ ہے‘ غیر عادلانہ ہے بلکہ کم سے کم لفظوں میں وحشیانہ ہے۔ جب تک اس گلے سڑے اور فرسودہ نظام کو ڈھا کر اس کی جگہ ایک عادلانہ‘ درمندانہ اور احترام آدمیت کی بحالی والا نظام نہیں رائج کیا جائے گا۔ انسان کو نجات نہیں ملے گی اپنے ہی جیسے دوسرے ظالم انسان سے یہ نظام کیسے آئے گا؟ اس سوال پر غوروفکر کسی اگلی نشست میں۔
ADVERTISEMENT
انسان کو انسان کا خون بہانے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کے احترام اور اس کے وقار کو بحال کیا جائے۔ جب تک آدمیت کا احترام اور اس کی عزت پامال ہوتی رہے گی انسانی خون بھی ارزاں رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ احترام آدمیت اور وقار انسانی کیا چیز ہے؟ اس کے معنی کیا ہیں؟ جب تک ہم یہ طے نہ کرلیں ہم اپنے اصل مقصد تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم دانشوروں کی گفتگوئوں ، ادیبوں ، شاعروں کی تحریروں اور نگارشات میں عرصہ دراز سے پڑھتے آئے ہیں کہ انسان عظیم ہے۔ انسان محترم ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ انسان عظیم و محترم ہے تو کس طرح؟ کیا اس لیے کہ وہ جملہ مخلوقات سے اشرف ہے۔ عقل و دانش رکھتا ہے۔ حامل علم ہے۔ یا اس لیے کہ وہ ایسی صلاحیتوں کا مالک ہے جو کسی اور مخلوق میں نہیں پائی جاتیں۔ اگر وہ عقل و دانش رکھتا ہے تو قتل جیسے جرم کا مرتکب کیوں ہوتا ہے؟ اور حامل علم ہے تو وقار انسانی اور احترام آدمیت کو مجروح کیوں کرتا ہے؟ آپ کہیں گے سب لوگ ایسا نہیں کرتے۔ ایسا کرنے والے بہت تھوڑے ہیں اور اپنے ایسے ہی اعمال کی وجہ سے وہ تنگ انسانیت ہیں‘ وقار انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں وغیرہ۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں۔ اگر زیادہ اچھے ہیں تو کچھ برے بھی ہیں۔
کیا اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو برے ہیں وہ کسی احترام‘ کسی عزت کے مستحق نہیں ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے زور آور لوگ جو کسی نہ کسی طریقے سے طاقت حاصل کرلیتے ہیں اور طاقت حاصل کرکے ’’تنگ انسانیت‘‘ والے کام کرتے ہیں۔ مثلاً قتل کراتے ہیں‘ بہو بیٹیوں کو اٹھواتے ہیں‘ کمزوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ انہیں بے عزت اور رسوا کرتے ہیں۔ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں چاہے خوف کے مارے ہی کرتے ہوں۔ ان سے رعب بھی کھاتے ہیں۔ وہ بلائیں تو ان کے حضور پیش ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ ذرا نہیں سوچتے کہ یہ تو تنگ انسانیت ہیں یا سماج کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہی نا کہ انسان طاقت کا پجاری ہے۔ وہ طاقتور کا غلام بن جانا پسند کرتا ہے۔ وہ اس کے آگے جھک جاتا ہے اور بسااوقات تو اسے خدا مان لیتا ہے۔ چاہے وہ حکمران ہو‘ چاہے کسی مافیا کا ڈان ہو۔ چاہے وہ بے پناہ زمینوں کا مالک ہویا بے پناہ ذرائع و وسائل رکھتا ہو اور یہ ساری دولت و جائیداد‘ حکومت یا بادشاہی اس نے انسانوں پر ظلم ڈھا کر انہیں بے پناہ و بے اماں کر کے حاصل کئے ہوں۔ ہم زیادہ سے زیادہ انہیں ظالم کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن ان کے سامنے کھڑے ہونے کی اور انہیں ظلم سے روک دینے کی ہمت و جرأت اپنے اندر نہیں پاتے۔ تو کیا ہم مان لیں کہ احترام آدمیت کوئی چیز نہیں۔ دنیا میں اور تاریخ میں اس کا وجود کبھی نہیں رہا اور یہ دنیا اسی لیے ہمیشہ سے ظلم وستم کی آماجگاہ رہی ہے۔ انسان دوسرے انسان پر ہمیشہ ظلم ڈھاتا آیا ہے اور ظلم ڈھاتا رہے گا۔ کیا یہ بات درست ہے؟
حقیقت میں تو یہی درست ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ہم تاریخ کے ایسے حکمرانوں کو جو عادل وانصاف پسند تھے اور جنہوں نے احترام آدمیت کا ایسا پاس لحاظ کیا کہ ان کے سگے بیٹے بھی خلاف انسانیت کاموں میں ملوث نکلے تو انہوں نے اپنے بیٹوں اور اپنے سگوں کو بھی معاف نہیں کیا اور انہیں سزائیں دیں۔ ایسے حکمرانوں کا نام لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہم سب کو وہ نہ صرف یاد ہیں بلکہ وہ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ ان کے عدل و انصاف کے کارناموں کو ہم اپنی درسی کتابوں میں پڑھاتے ہیں تاکہ ان کا نام نسل درنسل زندہ رہے۔ اس کے برعکس جب وقت گزر جاتا ہے تو ہم ظالم اور درندہ صفت حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور ان کے ظالمانہ اقدامات سے اپنی درسی کتابوں کو بھی پاک صاف رکھتے ہیں کہ وہ اس درجہ قابل نفرت ہیں۔
پس معلوم ہوا کہ احترام آدمیت تاریخ کے بیشتر ادوار میں ایک حقیقت ایک زندہ حقیقت کے طور پر بے شک نہ رہا ہو لیکن اس کی حقیقت اور اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا۔ اب آئیے اس سوال کی جانب کہ احترام آدمیت درحقیقت ہے کیا؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کہاں پائی جاتی ہے۔ آسمانی صحائف بتاتے ہیں کہ خدا نے انسان کو خلق کیا اور اسے زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا۔ نائب یا خلیفہ قائم مقام کو کہتے ہیں یعنی انسان زمین پر خدا کا قائم مقام یعنی اس کی جگہ یہ ہے۔ چنانچہ جب خدا نے انسان کو خلق کیا تو اسے اپنی وہ ساری صفات بخش دیں جو ایک خلیفہ یا اس کے نائب کے لیے ضروری تھیں۔ ان ہی صفات یا اوصاف کو انسان کام میں لایا اور اس نے اس ویران و سنسنان زمین کو نہ صرف آباد کیا بلکہ اس زمین پر اس نے اپنا ایک نیا جہان پیدا کر کے دکھا دیا۔ انسان کی ترقی و تخلیق کا یہ سفر آج بھی جاری ہے جس نے خود انسانوں کو حیرت زدہ کردیا ہے جس انسان کو خدا نے یہ عزت بخشی ہو اور انسان نے خود کو اس عزت و احترام کا مستحق ثابت کیا ہو۔ کیا وہ اس کا مستحق نہیں کہ اس کی تعظیم کی جائے۔ اس کی توہین نہ کی جائے اسے ذلیل و رسوا نہ کیا جائے۔ اسے درندوں کے سامنے نہ ڈالا جائے۔ اس کا خون نہ بہایا جائے۔ اس کے گھروں کو نذر آتش نہ کیا جائے۔ اس کی جائیداد لوٹی نہ جائے‘ اس پر قبضہ نہ کیا جائے۔ اسے عزت و احترام دیا جائے۔ وہ بھوکا ہو تو اسے روٹی دی جائے‘ ننگا ہو تو اسے لباس دیا جائے‘ سر پر چھت نہ ہو فٹ پاتھوں اور پارکوں پر سویا ہو تو اسے کم از کم ایک جھونپڑی ہی رہنے سہنے کے لیے دے دی جائے۔ یہی احترام آدمیت ہے جس کا سب سے اونچا درجہ یہ ہے کہ اس پر ظلم نہ کیا جائے اور ظلم ہو تو اسے عدل فراہم کیا جائے۔
اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ انسان کے احترام کو مجروح کون کرتا ہے‘ اس پر ظلم کون ڈھاتا ہے۔ کوئی اور نہیں خود انسان۔ تو انسان کو اصل خطرہ خود انسان سے ہے۔ حیوانوں کو اس نے قابو کرلیا‘ فطرت کو مسخر کر چکا اور اب سیاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے لیکن انسان خود انسان کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں۔ انسانوں نے نظام انسانوں کے لیے بنائے ہیں۔ وہ نظام ظالمانہ ہے‘ غیر عادلانہ ہے بلکہ کم سے کم لفظوں میں وحشیانہ ہے۔ جب تک اس گلے سڑے اور فرسودہ نظام کو ڈھا کر اس کی جگہ ایک عادلانہ‘ درمندانہ اور احترام آدمیت کی بحالی والا نظام نہیں رائج کیا جائے گا۔ انسان کو نجات نہیں ملے گی اپنے ہی جیسے دوسرے ظالم انسان سے یہ نظام کیسے آئے گا؟ اس سوال پر غوروفکر کسی اگلی نشست میں۔
انسان کو انسان کا خون بہانے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کے احترام اور اس کے وقار کو بحال کیا جائے۔ جب تک آدمیت کا احترام اور اس کی عزت پامال ہوتی رہے گی انسانی خون بھی ارزاں رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ احترام آدمیت اور وقار انسانی کیا چیز ہے؟ اس کے معنی کیا ہیں؟ جب تک ہم یہ طے نہ کرلیں ہم اپنے اصل مقصد تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم دانشوروں کی گفتگوئوں ، ادیبوں ، شاعروں کی تحریروں اور نگارشات میں عرصہ دراز سے پڑھتے آئے ہیں کہ انسان عظیم ہے۔ انسان محترم ہے لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ انسان عظیم و محترم ہے تو کس طرح؟ کیا اس لیے کہ وہ جملہ مخلوقات سے اشرف ہے۔ عقل و دانش رکھتا ہے۔ حامل علم ہے۔ یا اس لیے کہ وہ ایسی صلاحیتوں کا مالک ہے جو کسی اور مخلوق میں نہیں پائی جاتیں۔ اگر وہ عقل و دانش رکھتا ہے تو قتل جیسے جرم کا مرتکب کیوں ہوتا ہے؟ اور حامل علم ہے تو وقار انسانی اور احترام آدمیت کو مجروح کیوں کرتا ہے؟ آپ کہیں گے سب لوگ ایسا نہیں کرتے۔ ایسا کرنے والے بہت تھوڑے ہیں اور اپنے ایسے ہی اعمال کی وجہ سے وہ تنگ انسانیت ہیں‘ وقار انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں وغیرہ۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں۔ اگر زیادہ اچھے ہیں تو کچھ برے بھی ہیں۔
کیا اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو برے ہیں وہ کسی احترام‘ کسی عزت کے مستحق نہیں ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے زور آور لوگ جو کسی نہ کسی طریقے سے طاقت حاصل کرلیتے ہیں اور طاقت حاصل کرکے ’’تنگ انسانیت‘‘ والے کام کرتے ہیں۔ مثلاً قتل کراتے ہیں‘ بہو بیٹیوں کو اٹھواتے ہیں‘ کمزوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ انہیں بے عزت اور رسوا کرتے ہیں۔ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں چاہے خوف کے مارے ہی کرتے ہوں۔ ان سے رعب بھی کھاتے ہیں۔ وہ بلائیں تو ان کے حضور پیش ہونے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ ذرا نہیں سوچتے کہ یہ تو تنگ انسانیت ہیں یا سماج کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہی نا کہ انسان طاقت کا پجاری ہے۔ وہ طاقتور کا غلام بن جانا پسند کرتا ہے۔ وہ اس کے آگے جھک جاتا ہے اور بسااوقات تو اسے خدا مان لیتا ہے۔ چاہے وہ حکمران ہو‘ چاہے کسی مافیا کا ڈان ہو۔ چاہے وہ بے پناہ زمینوں کا مالک ہویا بے پناہ ذرائع و وسائل رکھتا ہو اور یہ ساری دولت و جائیداد‘ حکومت یا بادشاہی اس نے انسانوں پر ظلم ڈھا کر انہیں بے پناہ و بے اماں کر کے حاصل کئے ہوں۔ ہم زیادہ سے زیادہ انہیں ظالم کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن ان کے سامنے کھڑے ہونے کی اور انہیں ظلم سے روک دینے کی ہمت و جرأت اپنے اندر نہیں پاتے۔ تو کیا ہم مان لیں کہ احترام آدمیت کوئی چیز نہیں۔ دنیا میں اور تاریخ میں اس کا وجود کبھی نہیں رہا اور یہ دنیا اسی لیے ہمیشہ سے ظلم وستم کی آماجگاہ رہی ہے۔ انسان دوسرے انسان پر ہمیشہ ظلم ڈھاتا آیا ہے اور ظلم ڈھاتا رہے گا۔ کیا یہ بات درست ہے؟
حقیقت میں تو یہی درست ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ہم تاریخ کے ایسے حکمرانوں کو جو عادل وانصاف پسند تھے اور جنہوں نے احترام آدمیت کا ایسا پاس لحاظ کیا کہ ان کے سگے بیٹے بھی خلاف انسانیت کاموں میں ملوث نکلے تو انہوں نے اپنے بیٹوں اور اپنے سگوں کو بھی معاف نہیں کیا اور انہیں سزائیں دیں۔ ایسے حکمرانوں کا نام لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہم سب کو وہ نہ صرف یاد ہیں بلکہ وہ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ ان کے عدل و انصاف کے کارناموں کو ہم اپنی درسی کتابوں میں پڑھاتے ہیں تاکہ ان کا نام نسل درنسل زندہ رہے۔ اس کے برعکس جب وقت گزر جاتا ہے تو ہم ظالم اور درندہ صفت حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور ان کے ظالمانہ اقدامات سے اپنی درسی کتابوں کو بھی پاک صاف رکھتے ہیں کہ وہ اس درجہ قابل نفرت ہیں۔
پس معلوم ہوا کہ احترام آدمیت تاریخ کے بیشتر ادوار میں ایک حقیقت ایک زندہ حقیقت کے طور پر بے شک نہ رہا ہو لیکن اس کی حقیقت اور اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا۔ اب آئیے اس سوال کی جانب کہ احترام آدمیت درحقیقت ہے کیا؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے اور یہ کہاں پائی جاتی ہے۔ آسمانی صحائف بتاتے ہیں کہ خدا نے انسان کو خلق کیا اور اسے زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا۔ نائب یا خلیفہ قائم مقام کو کہتے ہیں یعنی انسان زمین پر خدا کا قائم مقام یعنی اس کی جگہ یہ ہے۔ چنانچہ جب خدا نے انسان کو خلق کیا تو اسے اپنی وہ ساری صفات بخش دیں جو ایک خلیفہ یا اس کے نائب کے لیے ضروری تھیں۔ ان ہی صفات یا اوصاف کو انسان کام میں لایا اور اس نے اس ویران و سنسنان زمین کو نہ صرف آباد کیا بلکہ اس زمین پر اس نے اپنا ایک نیا جہان پیدا کر کے دکھا دیا۔ انسان کی ترقی و تخلیق کا یہ سفر آج بھی جاری ہے جس نے خود انسانوں کو حیرت زدہ کردیا ہے جس انسان کو خدا نے یہ عزت بخشی ہو اور انسان نے خود کو اس عزت و احترام کا مستحق ثابت کیا ہو۔ کیا وہ اس کا مستحق نہیں کہ اس کی تعظیم کی جائے۔ اس کی توہین نہ کی جائے اسے ذلیل و رسوا نہ کیا جائے۔ اسے درندوں کے سامنے نہ ڈالا جائے۔ اس کا خون نہ بہایا جائے۔ اس کے گھروں کو نذر آتش نہ کیا جائے۔ اس کی جائیداد لوٹی نہ جائے‘ اس پر قبضہ نہ کیا جائے۔ اسے عزت و احترام دیا جائے۔ وہ بھوکا ہو تو اسے روٹی دی جائے‘ ننگا ہو تو اسے لباس دیا جائے‘ سر پر چھت نہ ہو فٹ پاتھوں اور پارکوں پر سویا ہو تو اسے کم از کم ایک جھونپڑی ہی رہنے سہنے کے لیے دے دی جائے۔ یہی احترام آدمیت ہے جس کا سب سے اونچا درجہ یہ ہے کہ اس پر ظلم نہ کیا جائے اور ظلم ہو تو اسے عدل فراہم کیا جائے۔
اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ انسان کے احترام کو مجروح کون کرتا ہے‘ اس پر ظلم کون ڈھاتا ہے۔ کوئی اور نہیں خود انسان۔ تو انسان کو اصل خطرہ خود انسان سے ہے۔ حیوانوں کو اس نے قابو کرلیا‘ فطرت کو مسخر کر چکا اور اب سیاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے لیکن انسان خود انسان کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں۔ انسانوں نے نظام انسانوں کے لیے بنائے ہیں۔ وہ نظام ظالمانہ ہے‘ غیر عادلانہ ہے بلکہ کم سے کم لفظوں میں وحشیانہ ہے۔ جب تک اس گلے سڑے اور فرسودہ نظام کو ڈھا کر اس کی جگہ ایک عادلانہ‘ درمندانہ اور احترام آدمیت کی بحالی والا نظام نہیں رائج کیا جائے گا۔ انسان کو نجات نہیں ملے گی اپنے ہی جیسے دوسرے ظالم انسان سے یہ نظام کیسے آئے گا؟ اس سوال پر غوروفکر کسی اگلی نشست میں۔