کورونا کی عالم گیر وبا نے اپنے منحوس پر عالم انسانیت پر پھیلائے تو اہل فکر نے اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ ایک خدا پرست معاشرے کا رد عمل اس پر کیسا ہونا چاہئے، پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے اس نازک موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ سلسلہ مضامین پھیل کر ایک کتاب کی شکل اختیار کر گیا جو جلد ہی ‘ خدا، کورونا وائرس اور عادلانہ نظام زندگی’ کے عنوان سے زیور طبع سے آراستہ ہوگا۔ ‘آوازہ’ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کی اشاعت سے قبل ہی اسے یہ فکر انگیز مضامین شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جس کے ‘آوازہ’ تہہ دل سے ان کا شکر گزار ہے۔
خدا موجود ہے، یہ تو ہم جانتے ہیں لیکن وہ کس طور موجود ہے، اس سے ہم ناواقف ہیں۔ آسمانی صحائف میں جو کچھ خداوند تعالیٰ کی بابت ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسی طرح ہے جیسے انسان ہے۔ یعنی خدا انسانوں کی طرح سوچتا ہے، خوش ہوتا اور ناراض ہوتا ہے، غُصّہ اور انتقام بھی اس کی صفات ہیں۔
لیکن جو چیز اسے انسان سے مختلف بناتی ہے، وہ اس کا لامحدود ہونا، اس کا ہر عیب اور نقص سے پاک اور ماورا ہونا ہے۔ خدا کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ آسمانوں پہ رہتا ہے اور زمین پہ جو کچھ ہو رہا ہے یا ہوتا رہاہے، وہ اس سے پوری طرح واقف و آگاہ ہے۔ یہاں تک وہ انسان کے اندر جو کیفیات، جیسے احساسات و جذبات پیدا ہوتے رہتے ہیں، وہ ان سے بھی پوری جانکاری رکھتا ہے۔ اس بات کو آسمانی صحائف کی زبان میں یوں کہا جائے گا کہ خدا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ اس حقیقت کو بار بار دہرانے کے باوجود آج تک کسی نے یہ غور نہیں کیا کہ خدا اگر ظاہر ہے تو کس طرح ظاہر ہے اور اگر وہ باطن بھی ہے تو کن معنوں میں باطن ہے۔ ظاہر اور باطن میں فرق یہ ہے کہ ظاہر نظر آتا ہے اور باطن دکھائی نہیں دیتا۔
یہ بھی پڑھئے:
بے کل سی نراش زندگی میں | ڈاکٹر طاہر مسعود
شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا | ڈاکٹر طاہر مسعود
خدا اگر ظاہر ہے تو پھر اسے نظر آنا چاہیے۔ لیکن خدا اپنی حقیقی شکل و صورت میں نظر آسکتا تو پھر حضرت موسیٰ کو دیدار الٰہی کے لیے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یہ التجا کرنے کی، ضرورت ہی کیوں پیش آتی کہ اے اللہ! مجھے اپنا دیدار کرا، میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں اور یہ جواب کیوں آتا کہ تُو میرا دیدار نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کا ایک وجود یا وجود کا ایک حصّہ تو وہ ہے جو آسمانوں پہ ہے اور اگر ’’وہ ظاہر ہے‘‘ تو اس کے وجود کے کچھ حصّے وہ ہیں جو زمین پہ ہیں __مگر کس طور؟ یہ ہے وہ سوال جس پہ کبھی غور نہیں کیا گیا۔
جب ماں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زمین پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہے۔ یاہم آسمانی خدا کی بابت کہتے ہیں کہ وہ ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے تو اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ خدا کی صفتِ رحمت ماں کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے اور اس کی صفتِ جلال باپ کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یعنی والدین زمین پر خدا کی صفاتِ جمال و جلال ہیں اور اسی سے دنیا کا یہ کارخانہ چل رہا ہے __پس پتا چلا کہ خدا اس دنیا میں اپنی صفات کی صورت میں موجود ہے۔ ماں کا بچّے کو پیار کرنا، اس کی تکلیف میں تڑپ اٹھنا، اس کے خیال بات کے لیے راتوں کو جاگنا، اسی وقت ممکن ہے جب ماں کے اندر خدا کی صفتِ رحمت پوری طرح موجود اور ظاہر ہو۔ یا بچّے کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے باپ کا معاش کی تگ و دو میں پڑنا، اس کے مستقبل کی فکر کرنا اور اس کے لباس، کھانا پینا، رہنا سہنا اور اس طرح کی دوسری ضرورتیں پوری کرنا، یہ باپ کی ذمہ داری ہے اور وہ اسے پورا کرتا ہے تو اسے ہم یوں کہیں گے کہ خدا کی صفتِ ربوبیت باپ کی شکل میں دنیا میں موجود ہے۔
کیوں کہ خدا اگر رب ہے تو اسی طرح ہے کہ وہ جملہ مخلوقات کی ضروریات کا کفیل ہے، وہ انسانوں ہی نہیں حیوانوں کو بھی کھلاتا پلاتا اور زندگی سے موت تک اس کے تمام تقاضوں اور ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ انسانوں کے ساتھ بھی اس کا ایسا ہی معاملہ ہے۔ لیکن خدا ایسا براہ راست نہیں کرتا۔ وہ ایسا کرنے کے لیے وسیلے کو استعمال کرتا ہے۔ باپ اور ماں بچّوں کی ضروریات پورا کرنے کا وسیلہ ہیں۔ ڈاکٹر مریض کو شفایاب کرنے کا وسیلہ ہے۔ مزدور اور انجینئر مکان بنانے کا وسیلہ ہیں۔ یعنی خدا کائنات میں براہ راست کچھ نہیں کرتا، وہ جو کچھ کرتا ہے وسیلوں کی مدد سے کرتا ہے۔ یہی اس کی شانِ ربوبیت ہے۔ اور یہی اس کا طریقۂ کار ہے۔ مثلاً میں اس وقت یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو میں اس خدا کا وسیلہ ہوں جو اپنی بابت میرے ذہن میں خیالات القا کر رہا ہے __کوئی شاعر جب شاعری کرتا ہے تو وہ اس کے قلب و ذہن میں شعر القا کرتا ہے۔ کوئی سائنس داں کوئی شے ایجاد کرتا ہے تو وہ اس ایجاد کا خیال اس کے ذہن میں القا کرتا ہے۔ مرزا غالب کا مشہور شعر ہے:
ع آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں،
تو شاعروں، ادیبوں، سائنس دانوں اور انجینئروں کے ذہن اور قلب میں جو بھی خیالات وارد ہوتے ہیں، وہ من جانب خدا ہی ہوتے ہیں۔ خیال مجرّد ہوتا ہے اور خیال کی عملی شکل مادّی ہوتی ہے جسے دیکھا جاسکتا ہے محسوس کیا جاسکتا ہے __ اب یہاں پہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر خیال جو مادّی شکل میں وجود پذیر ہوتا ہے، اس مادّی شے سے خدا کا کیا تعلق ہے __ خدا مادّہ تو نہیں ہوسکتا کیوں کہ مادّہ فنا پذیر حقیقت ہے اور خدا لافانی ہے __ یہ دنیا جو ہمیں اپنے چاروں طرف نظر آرہی ہے یہ مادّی دنیا ہے، یہ ایک دن فنا ہو جائے گی __ اگر مادّی دنیا کا یہ ظاہری پیکر خدا ہوتا تو یہ دنیا بھی خدا کی طرح لافانی ہوتی۔ اس سے پتہ چلا کہ خدا زندگی اور روشنی کی صورت میں تو اس دنیا میں موجود ہے لیکن دنیا میں جو چیزیں موجود ہیں وہ خدا کی خلق کی ہوئی ہیں خود خدا نہیں ہیں جیسا کہ وحدت الوجود یا ویدانت کے ماننے والے صوفیا یا پنڈت سمجھتے اور کہتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی فکری گمراہی ہے جو عرصۂ دراز سے مسلمان عالموں اور صوفیوں میں اور ہندو پنڈتوں اور جوگیوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں اس خیال کی تردید تو مجدد الف ثانی ؒ نے اپنے وحدت الشہود کے نظریے میں کر دی لیکن اس نظریے کے ماننے والے بھی اب تک یہی سمجھتے آئے ہیں کہ خدا ہی ہے اس کائنات میں اور کوئی اور نہیں۔ خود انسان بھی خدا ہی کا مظہر ہے۔ یہ بات اتنی غلط اور بھونڈی ہے کہ ایسا سوچنے اور کہنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اسی طرح ایک نظریہ حلول کا ہے جس کے مطابق خدا انسان کے اندر، اس انسان کے اندر جو خدا تک پہنچنے کے لیے دکھ بھوگتا ہے، کشٹ اٹھاتا ہے اور اس کی زندگی میں ایک دن وہ آجاتا ہے جب خدا اس کے اندر حلول کر جاتا ہے۔ اس نظریے کو ایک آدھ حدیث سے بھی تقویت ملتی ہے جس کو اقبال علیہ الرحمۃ نے اپنے اس مصرعے میں بیان کیا ہے کہ
ع ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
حدیث کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بندہ نوافل کی کثرت سے ادائیگی کے نتیجے میں اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جب خدا اس کا ہاتھ پاؤں بن جاتا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس کا مفہوم غلط طریقے سے اخذ کیا گیا۔ مفہوم بس اتنا ہی ہے کہ نوافل کی کثرت سے خدا اتنا خوش ہوتا ہے کہ وہ اس بندے کو راستی اور پرہیز گاری کی توفیق دے دیتا ہے اور اس کا ہر قدم راہِ حق ہی کی طرف اٹھتا ہے۔ اس کے ہاتھ پائوں سے گناہ کا صدور ممکن ہی نہیں ہوتا۔
اصل میں مسلمانوں میں یہ فکری گمراہی تصّوف کے راستے سے داخل ہوئی۔ وحدت الوجود ہو یا وحدت الشہود، یہ سارے نظریات صوفیوں ہی کے پیش کیے ہوئے ہیں۔ البتہ ان علماء نے جو شریعت کے محافظ تھے، انھوں نے کبھی ایسے نظریات کی تائید نہیں کی۔ شریعت کا علم قرآن وحدیث کا علم ہے۔اسی لیے ایسے نظریات آنحضرت ﷺ اور صحابۂ کرام کے زمانے میں نہ پیش کیے گئے اور نہ ہی خدا کے وجود کی بابت ایسے اشکالات ابھر ہی سکے۔ اصحاب صفہ جنھیں ابتدائی صوفی کہا یا سمجھا جاتا ہے، محض ذکر و فکر پہ اکتفا کرتے تھے۔ انھوں نے بھی ایسے کسی نظریے کو پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اس کی وجہ نبی ﷺ کی موجودگی تھی۔ جب رسول ہی نے ایسی کوئی حقیقت بیان نہیں کی تو انھیں ایسی کوئی جرأت کیسے ہوتی کہ وہ کوئی ایسی حقیقت منکشف کریں جو ان کے قلب پہ وارد ہوئی ہو۔
یہاں پہ ایک سوال اور بھی اٹھتا ہے کہ جب ہر خیال اللہ ہی کی جانب سے آدمی کے قلب و ذہن میں آتا ہے تو وحدت الوجود یا ویدانت کا خیال بھی من جانب خدا ہی ہوگا۔ اس کا جواب اقبال نے اپنے ایک شعر میں دیا ہے:
؎ صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ غالب کے خیال کے برعکس جو یہ سمجھتا تھا کہ ہر خیال غیب سے ہی نازل ہوتا ہے، اقبال یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ہر خیال غیب سے لے کر فرشتے نہیں اترتے۔ بہت سے یا کچھ خیال ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں آمیزش ہوتی ہے، حق میں باطل کی، نیکی میں بدی کی، سچ میں جھوٹ کی آمیزش۔ اس لیے سوچنے والے کو ہوشیار اور محتاط رہنا چاہیے __ اور یہ دیکھتے رہنا چاہیے کہ کون سا خیال ایسا ہے جس میں آمیزش ہے اور اسے ایسے خیال کو رد کر دینا چاہیے۔ چوں کہ خدا ہی خالق خیر و شر ہے لیکن اس نے خیر کو پسند اور شر کو ناپسند کیا ہے اس لیے یہ ذمہ داری مسلم یا مومن کی ہے کہ اس کے خالص خیال میں شر کی آمیزش نہ ہو۔