تیل کی قیمتوں کا اضافہ واقعتاً ملک کے ہر شعبے کے لئے پریشانی اور مشکل کا باعث ہے ۔ کہ ویسے ہی ہمارا ملک شدید۔ مہنگائی کی زد میں ئے اوپر سے پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ۔۔۔۔مرتے جو مارے شاہ مدار۔ اس صورت حال میں ملائشیا ماڈل ہمارے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے۔
اس سلسلے میں دو عناصر اہم ترین ہیں ایک گذشتہ چند سالوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کہ تیزی سے گراوٹ اور بین الاقوامی بازار میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اس وقت بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں 120 ڈالر فی بیرل کے قریب ہیں، جو شاید ہمارے یا ہماری حکومتوں کے بس کی بس کی کی چیز نہیں تھی۔ دوسرے روپے کی بے تحاشا گراوٹ جس کی وجہ سے ساری درآمدات بشمول پیٹرول و کھاد جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا ہے انتہائی مہنگی ہو گئیں۔ اس بے قدری کی ہماری سابقہ و موجود دونوں حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ پر چونکہ موجودہ دور حکومت چند ہفتوں قبل ہی اقتدار میں آئی ہے اس لئے فی الوقت ان پر مکمل ذمہ داری عائد کرنا مناسب نہیں ۔
یہ بھی پڑھئے:
لوڈ شیڈنگ سے فوری نجات کی ایک قابل عمل تجویز
کراچی میں بجلی بحران اور کے الیکڑک کی اجارہ داری
مکالمہ: ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تنہا چھوڑ جانے والے ایس ایم ظفر کی کہانی
تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے نتیجے میں اس فقیر نے دنیا پھر کی تیل کی قیمتوں کا تقابل کرنے کی کوشش ہے، یقیناً درست ڈیٹا حاصل کرنے کی بھرپور کوششوں کے باوجود ان میں غلطی کا غلطی کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔
اس کے باوجود ان قیمتوں کا مجموعی تاثر یہ ضرور بنتا ہے کہ موجودہ ڈیٹا پاکستان میں تیل کی قیمتیں دنیا کےکم از کم 37 ممالک سے زیادہ ہیں جن میں ہمارے پڑوسی ایران و افغانستان شامل ہیں لیکن سو سے زیادہ ممالک میں تیل پاکستان سے مہنگا بھی ہے جن میں دولت مندترین ممالک سے لیکر بھارت، بنگلہ دیش و سری لنکا جیسے پڑوسی شامل ہیں۔
یقیناً تیل کی قیمتوں کا عوام کی فی کس آمدنی سے بھی کچھ نہ کچھ تعلق ہوتا ہے لیکن کیا افغانستان کی فی کس آمدنی پاکستان سے زیادہ ہے؟ فرق اتنا ہے کہ وہ اپنی ضرورت کا سارا تیل ایران سے خریدتے ہیں جہاں سے شُنید ہے کہ ریفائنڈ پیٹرول گیارو روپے فی لیٹر ملتا ہے( یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایرانی سرحد کے ساتھ تیل کی اسمگلنگ انتہائی فائدہ مند کاروبار ہے۔
روس کو تو چھوڑیں روس سے تیل منگوانے میں ٹینکروں کے اخراجات پھر ریفائننگ کے بھی اخراجات ہی نہیں بلکہ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ ہماریاں ریفائنری روسی خام تیل جو ہمارے عمومی عرب لائٹ خام تیل سے بھاری ہوتا ہے کو ریفائن کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔ اس کی بہ نسبت پکی پکائی تازہ روٹی ( ایران میں ریفائن شدہ تیل 10.62 روپے فی لیٹر کے حساب سے فروخت کیا جارہا ہے) اس لئے پاک ایران سرحد اسمگلنگ کرنے والوں کی چاندی تو ہے لیکن اس کچھ فائدہ عوام کو ہوتو ہو زیادہ فائدہ اسمگلنگ مافیا کو ہوتا ہے۔
موجودہ حالات میں حکومت کے لئے لازم ہے کہ کسی طرح ایران سے کاروباری رابطوں کے لئے اقوام متحدہ سے خصوصی استثناء لینے کی کوشش کرے کہ ایران سے تیل کی تجارت اسوقت ہماری معیشت ہی نہیں بلکہ موجودہ حکومت کے لئے زندگی و موت کا سوال بن گیا ہے۔ یقیناً سرکاری طور پر ایران ہمیں اپنے لوگوں والی قیمت پر تیل نہیں دے گا۔ اس کے باوجود اگر روس کی تجویز کردہ قیمت پر بھی مل جائے تب بھی ٹرانسپوارٹ کی بچت کی وجہ سے گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
ہمیں اپنی ڈومیسٹک تیل کی قیمتوں کے لئے ملائشیا کی مثال کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ سنگاپور میں پیٹرول ساڑھے چار سو روپے فی لیٹر کا ہے اور اس کے قلب سے بمشکل بیس پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی پُل نما سرحد پار کرکے وہی تیل ملائشیا میں 93 روپے فی لیٹر ہے۔
یقیناً ملائشیا تیل پیدا کرتا ہے اس کے باوجود وہاں پر پیٹرول کئ قیمت 93 روپے فی لیٹر ہونا کہانی کا نصف حصہ ہے۔ درحقیقت ملائشیا میں ریگولیر پیڑول 93 روپے فی لیٹر فراہم کیا جا رہا ہے، لیکن 97 گریڈ کا ہائی آکٹین پیٹرول 212 روپے بھی فی لیٹر (تقریبا ڈھائی گُنا)ہے۔ اسی طرح ڈیزل بھی چونکہ ڈیزل پرائیوٹ کاروں کی بہ نسبت عوامی ٹرانسپورٹ میں استعمال ہوتا ہے اس کی قیمتں تقریباً 100 روپے فی لیٹر رکھی گئی ہیں تاکہ سامان کی نقل وحمل والے ٹرکوں، بسوں اور ٹیکسیوں کے اخراجات کو کم رکھا جاسکے ۔
چونکہ ملائشیا میں ریگولیر پیٹرول کی قیمتیں رعایتی طور پر کم رکھی گئی ہیں، اس لئے قانونی طور پر کسی بھی غیرملکی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں ریگولر پیٹرول ڈلوانا ممنوع اور صرف ہائی آکٹیں 97 سے زیادہ کا پیٹرول دلوانے کی اجازت ہے۔ہم سرحد کے اس پار سنگاپور والوں کے لے ملائشیا کا بے رعائتی 97 ہائی آکٹین پیڑول بھی سنگاپور کی قیمت سے نصف پڑتا ہے۔
اس لئے سنگاپور کے شھریوں کے لئے بھی چند کلو میٹر کے فاصلے پر سرحد پار کرکے پیٹرول بھروانا سستا سودا ہے۔ لیکن اگر سنگاپور کے شھری ملائشیا سے پیٹرول خریدنے لگیں تو پہلے تو سنگاپور کی حکومت پیٹرول سے ملنے والی آمدنی سے محروم ہو جائے گی دوسرے وہاں پر کام کرنے والی آئل کمپنیوں کے کاروبار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے کا جس کے سدباب کے لیے سنگاپور کی حکومت نے وہاں رجسٹرڈ گاڑیوں کے لئے لازم کردیا ہے کہ سنگاپور سے باہر جانے والی ہر گاڑی کی پیٹرول کی ٹنکی کم از کم 75 فیصد بھری ہو۔
کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان بھی اس ملائشیا کے ماڈل کو استعمال کرتے ہوئے موٹر سائیکلوں اور چھوٹی کاروں میں استعمال ہونے والے ریگولر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو سبسیڈائیز کرتے ہوئے ہائی گریڈ پیٹرول کی قیمتوں کو بڑھا کر جہاں تک ہو سکے مجموعی نقصان کم کیا جاسکے؟
اس سے یقیناً بڑی گاڑیاں رکھنے والے افراد کے لئے گاڑیاں رکھنا مہنگا ہوجائے گا لیکن عوام کی اکثریت جو موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑیاں استعمال کرتی ہے کی زندگی آسان ہو جائے گی۔