پاکستان کے ممتاز ماہر قانون اور سیاست کی دنیا کا بڑا حوالہ ہیں۔ مکالمہ ان ہی کی داستان حیات ہے جسے ڈاکٹر وقار ملک نے مکالمے کی صورت میں سپرد قلم کیا۔ ایس ایم ظفر فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ میں 1965ء سے 1969ء وزیر قانون اور پارلیمانی امور رہے ، اسی عرصے میں قومی اسمبلی میں ڈپٹی لیڈر کنونشن مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی بھی رہے 2003ء سے 2012,,ء تک ممبر سینٹ آف پاکستان بھی رہے ، سیکری جنرل آل پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ 1983ء سے 1985 ء رہے , 1976 ء میں سپریم کورٹ بار اور 1975 ء میں ہائی کورٹ بار کے صدر رہے 2011 ء میں صدارتی ایوارڈ ،، نشان امتیاز ،، ملا
مصنف ، محقق ، مورخ چند معروف کتابیں لکھیں جن میں
،، میرے مشہور مقدمے ،سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی ان کی اپنی زبانی ,ڈکٹیٹر کون ، عوام پارلیمنٹ اسلام ،
تذکرے جائزے ،
Through The Crises (1971)
Haj-A Journey in Obedience، ،
Understanding Statutes 1997
Dialogue on the Political Chess Board ،
عوام کی عدالت میں ، عدالت میں سیاست، اور
پاکستان بنام کرپشن ، شامل ہیں
جناب ایس ایم ظفر 6 دسمبر 1930ء کو رنگون میں پیدا ہوئے ، راوین ہیں،گورنمنٹ کالج لاہور میں قیام پاکستان سے دو سال پہلے داخلہ لیا اور قیام کے دو سال بعد گریجویشن مکمل کی اور 2002ء میں اولڈ رارین ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
منشایاد کی ”بزمِ جہاں افسانہ ہے” داستان زیست کی کہی ان کہی
دل کا اجلا رنگ کا کالا، تصور رضا
دل کا اجلا رنگ کا کالا، تصور رضا
مکالمہ ،680 صفحات کو محیط جناب ایس ایم ظفر کی زندگی کے 92 برسوں کی کہانی کا پہلا حصہ ہے ، یہ بہت ہی دلچسپ ، معلومات افزا ء اور پاکستان کے 75 برسوں کی لمحہ بہ لمحہ تاریخ ہے جسے ہمارے اخبار نویس ساتھی جو آجکل پنجاب یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز کے سینئر استاد ہیں، پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک نے 25 برسوں میں مکمل کیا ہے جناب ایس ایم ظفر جو مشاہدے اور تجربے کا ہمالہ اور قانون کا بے بدل حوالہ ہیں انہوں نے تاریخ کے چشم دید گواہ کے طور جو دیکھا یا جو بیتا طشت از بام کرنے میں کسر نہیں چھوڑی اور پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک نے اس مکالمے کو قارئین کے لئے فردوس نظر بنانے میں کمال کر دکھایا۔
17 مکالمات کے 160 ضمنی موضوعات کو محیط ہر مکالمہ ایک جہان ہے ، یہ 160 دروازوں والی ایک ایسی دنیا ہے جس میں پتہ چلتا ہے کہ انسانی حقوق کیا ہیں اور قائد اعظم کا تصور پاکستان کیا تھا , عدلیہ ، جمہوریت اور مذھب کا باہمی کیا تعلق ہے ، مسئلہ کشمیر سے بھارتی ہٹ دھرمی تک , فلسطین سے اسرائیل اور دہشت گردی سے کالا باغ ڈیم تک, انکشافات ہی انکشافات پڑھنے کو ملتے ہیں۔
‘مکالمہ’ ایک ایسی دنیا ہے جو بہت سی کہکشاؤں کا پتہ دیتا ہے۔ بین الاقوامی مسائل اور قومی امور تو سمجھ آتے ہیں مگر آنے والے وقتوں میں 2050 ء تک بیالوجی اس عروج تک پہنچ جائے گی کہ عورت سے عورت کی شادی اور بچوں کی ولادت ایک نئے ازواج کا عقدہ کھلتا ہوا ملا۔ منوں بھائی ہوتے تو سوالیہ نظروں سے دیکھتے اور پوچھتے، اجے قیامت نئیں آئی؟
مکالمہ میں جہاں سلطان راہی عارفہ صدیقی اور طاہرہ سید کا تذکرہ اور اہم قومی امور کی راہیں کھلتی ہیں وہاں پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک کی تحریر کا حسن الفاظ پر گرفت بھی تحسین آمیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی انشا پردازی نے مکالمے کو کالم بنا دیا ہے جس میں زندگی کا ہر رنگ نمایاں ہے ‘مکالمہ’ ہمارے محترم و معتبر صحافی کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایسا صحیفہ ہے جو پاکستان اور تاریخ انسانی سے محبت رکھنے والوں کے لئے تبرک ہے۔
جناب ایس ایم ظفر سید ہیں ولیوں کی اولاد ہیں خود بھی وجدانی اور الہامی طبیعت کے صوفی ہیں۔ ہزار صفات ان کی شخصیت میں پوشیدہ ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک نے قلم کی حرمت اور جناب ایس ایم ظفر کی عظمت میں کہیں کمی نہیں آنے دی۔ بسا اوقات جناب ایس ایم ظفر فرشتوں سے بھی آگے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر ہمیں ان سے گلہ ہے کہ جناب ایس ایم ظفر مشکل میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو چھوڑ گئے تھے۔
اس بات کا اظہار ہم نے 2007 ء میں ایک ٹی وی انٹر ویو میں بھی کیا تھا اور 2018 ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر لکھی اپنی کتاب ‘نشان امتیاز’ میں بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مجھ سے کہا تھا کہ یار جبار مرزا صاحب ایس ایم ظفر دوست میرا ہیں ، وکیل بھی میرے ہیں۔ ہم نے کبھی ان کی حق تلفی نہیں کی۔ ہم نے ان کے بیٹے علی ظفر کی بھی حوصلہ افزائی کی مگر وہ ہدایات چودھری شجاعت سے لیتے رہے۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان 4 فروری 2004 ء کے حوالے سے مجھ سے بات کر رہے تھے جس روز ڈاکٹر خان نے ٹیلی ویڑن پر اعترافی بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ چودھری شجاعت ڈاکٹر خان کے بظاہر دوست مگر در حقیقت وہ جنرل پرویز مشرف کے نمائیندے کے طور ڈاکٹر خان کو ایٹمی مواد کی منتقلی کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری اپنے سر لینے پر زور دیتے رہے اور ہر بار ایس ایم ظفر جن کا تعلق حکمران جماعت مسلم لیگ ق سے ہی تھا مگر ڈاکٹر خان کو کسی قسم کا معاہدہ کرنے اور اعترافی بیان ریکارڈ کرانے سے ہمیشہ روکتے رہے اور ڈاکٹر خان ان کی ہدائت پر کار بند بھی چلے آرہے تھے لیکن چودھری شجاعت کا التجائیہ دباو بھی بڑھتا رہا وہ میٹھی میٹھی باتوں سے مد مقابل کو شیشے میں اتارنے کا ہنر جانتے ہی۔
اس سلسلے میں ایس ایم ظفر نے 4 فروری 2004 ء کو ڈاکٹر خان کے پاس اسلام آباد پہنچنا تھا مگر وہ نہ آئے حالانکہ گزشتہ روز طے پا گیا تھا کہ وہ صبح جلدی آ جائیں گے پھر ایک ساتھ جنرل پرویز مشرف سے ملیں گے۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا ڈاکٹر خان کو تشویش ہو رہی تھی کہ اتنے میں چودھری شجاعت ایک باوردی بریگیڈئر کی سربراہی میں بیسیوں فوجیوں کے ہمراہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے پاس جا پہنچے ڈاکٹر خان نے دیکھا تو کہا:
‘چودھری صاحب یہ سب کیا ہے ؟ تو چودھری شجاعت بولے ،، چلیں ڈاکٹر صاحب آج یہ قصہ تمام کریں اٹھیں چلیں آج بس جانا ہے’۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان نے کہا کہ میں ایس ایم ظفر کے بغیر کہیں نہیں جاؤنگا۔ چودھری شجاعت نے کہا وہاں چل کے وہ بھی دیکھ لیں گے۔ پرویز مشرف انتظار کر رہے ہیں چلیں چلیں۔ فوج کا نرغہ چودھری شجاعت کا دباؤ قریب قریب زبر دستی محسن پاکستان ڈاکٹر خان کو گاڑی میں بٹھا کے راولپنڈی سابقہ وزیر اعظم ہاؤس صدارتی کیمپ آفس لے جایا گیا۔
پرویز مشرف نے اس معرکے پر چودھری شجاعت کا شکریہ ادا کیا اور ڈاکٹر عبد القدیر خان سے بیان ریکارڈ کرانے کو کہا۔ ڈاکٹر خان دو ٹوک انکار کرتے ہوئے بولے کہ ایس ایم ظفر کو بلوائیں ان سے مشاورت کے بعد ہی میں کچھ کہہ سکوں گا۔ پرویز مشرف نے تحکمانہ لہجے میں کہا کہ وہ نہیں آئیں گے آپ بیان ریکارڈ کرائیں۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان نے انکار کیا کہ وہ ایسا ہر گز نہیں کریں گے ماحول میں خاموشی چھا گئی اس سے پہلے کہ ڈیوٹی پر موجود لوگ حرکت میں آتے کہ چودھری شجاعت نے آپشن دیا کہ ہم فون پر آپ کی بات ایس ایم ظفر سے کرا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر خان نے کہا ہاں بات کرائیں ایس ایم ظفر لائین پر آئے تو ڈاکٹر خان نے کہا کہ آپ نے گزشتہ روز طے کیا اور آج آپ کو میرے پاس آنا تھا ؟؟
ایس ایم ظفر نے کہا مجھے چودھری شجاعت نے آنے سے روک دیا تھا۔ ڈاکٹر خان نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ۔۔۔ ‘لیکن ظفر صاحب بات تو آپ کی مجھ سے ہوئی تھی پھر چودھری صاحب کے کہنے پر کیوں رکے ؟ ‘ کہ فون کاٹ دیا گیا اور پرویز مشرف نے وزارت اطلاعات کے ایڈیشنل سیکریٹری سید انور محمود سے کہا کہ چلیں آپ اپنی کارروائی شروع کریں ایس ایم ظفر سے بھی بات ہو گئی ہے۔
سید انور محمود نے ڈاکٹر خان کے سامنے ایک ڈرافٹ رکھا جس میں سارا مدا ڈاکٹر خان پر ڈالتے ہوئے انہیں تمام تر ذمہ داری قبول کرنے کو کہا مگر ڈاکٹر خان نے اسے نامنظور کرتے ہوئے کچھ ترامیم کیں جو جنرل پرویز مشرف کو ناگوارگزریں۔ ISI چیف جنرل احسان بھی وہاں موجود تھے۔ خیر کافی رد و قد کے بعد ایک ڈرافٹ پر اتفاق ہو گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے وہ متفقہ نوٹ جیب میں رکھا اور ٹی وی سٹیشن کے لئے صدارتی کیمپ آفس سے روانہ ہوئے تو راستے میں جنرل پرویز مشرف مسلسل انور محمود کو ٹیلیفون پر ہدایات دیتے رہے۔ TV سٹیشن پہنچ کر انور محمود نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کہا کہ آپ Tele prompter پر دیکھ کے پڑھ دیں۔ ڈاکٹر خان چونکہ انور محمود کے ارادوں سے اگاہ ہو چکے تھے، اس لئے Tele prompter سے دیکھ کے پڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اپنا نوٹ ہی پڑھونگا۔ اس پر انور محمود نے انتہائی شاطرانہ سادگی سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں نے یہ سارا کچھ آپ کی سہولت کے لئے کیا ہے۔ اس پر ڈاکٹر خان نے انور محمود کو غصے سے دیکھا مگر چپ رہے۔ یوں ڈاکٹر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے وہ بیان ریکارڈ کرایا جس میں کہا گیا تھا کہ میں یہ سارا کچھ وسیع تر ملکی مفاد میں اپنے ذمے لیتا ہوں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک بڑے انسان تھے۔ میں نے اپنی کتاب’نشان امتیاز’ میں انہیں پاکستان کا آخری بڑا آدمی لکھا ہے۔ وہ واقعی بڑے تھے۔ بھول جاتے تھے کہ کس نے ان کے ساتھ کیا کیا معاف کر دیتے تھ۔
6 مئی 2017 ء کو لاہور میں ، ڈاکٹرعبدالقدیر خان ہاسپٹل ٹرسٹ کی سنگ بنیاد کی تقریب تھی۔میں بھی ڈاکٹر عبدالقدير خان اور ایس ایم ظفر صاحب کے ساتھ سٹیج پر موجود تھا، بلکہ ایس ایم ظفر صاحب کے خطاب کے بعد میری گفتگو تھی۔ ڈاکٹر خان جس والہانہ انداز میں کچھ احباب کو جناب ایس ایم ظفر سے ملوا رہے تھے تو میرے سامنے 4 فروری 2004 ء کا واقعہ گھوم گیا جب مشکل کی گھڑی میں جناب ایس ایم ظفر ڈاکٹر خان کو تنہا چھوڑ گئے تھے !! تاریخ کتنی بے رحم حقیقت ہے کسی کو معاف نہیں کرتی۔