لانگ مارچز اور دھرنے، کامیابی کے کھلے اور خفیہ طریقے
کچھ چیزیں انسانی زندگی میں ایک دو بار ہی ہوتی ہیں لیکن ان کی یادوں کے اثرات مدتوں محسوس کیے جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی سیاسی زندگی میں بھی ہوتا ہے جیسے چیئرمین ماؤزے تنگ نے ایک ہی لانگ مارچ کیا لیکن جب بھی کسی سیاسی جدوجہد کا ذکر ہوتا ہے، اس کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر حالیہ دنوں میں بڑے بڑے جلسوں، لانگ مارچوں اور دھرنوں کی بہار آئی ہوئی۔ عام آدمی کے ذہن میں گاہے یہ سوال اٹھتا ہے کہ سیاسی جماعتیں آخر اتنے بڑے بڑے ہجوم جمع کیسے کر لیتی ہیں؟
یہی سوال میں نے ڈاکٹر عمیرانصاری سے پوچھا۔ سیاسی ابلاغ (Political Communication) ان کی دل چسپی کا خاص موضوع ہے۔ سیاسی جماعتیں جلسے کیسے کرتیں ہیں اور وہ کیا خفیہ راز ہیں جو ان جلسوں کو کامیاب بنانے کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ نہایت احتیاط کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر انصاری نے ان موضوعات کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔
جلسہ ہو، دھرنا یا لانگ مارچ، اسے کامیاب بنانے کے چار پانچ طریقے ہیں، شرطیہ، یقینی اور بے عیب۔
یہ الفاظ تو ڈاکٹر عمیر انصاری کے نہیں لیکن ان کی طویل، دلچسپ اور انکشاف انگیز گفتگو کی سرخی کم و بیش یہی بنتی ہے۔
‘ اصل میں یہ دو جادو گر ہیں جن کے چٹکی بجاتے ہی وہ کرشمہ رونما ہو جاتا ہے جس کے لیے پاکستانی اخبارات میں کسی زمانے میں فقید المثال یعنی بے مثال جلسے یا جلوس کی ترکیب استعمال کی جاتی تھی’۔
ڈاکٹر انصاری نے ان ‘ جادو گروں’ کی جادو گری کی جو تفصیل بیان کی وہ بڑی دلچسپ ہے۔
یہ جادو گر کون ہیں؟ ان میں ایک چھوٹی بڑی فیکٹریوں کو مزدور فراہم کرنے والا ٹھیکے دار ہے اور دوسرا وہ مکھیا ہے جس کے ہاتھ میں شہر کی پسماندہ اورغریب آبادیوں میں بسنے والے عوام کی چابی ہوتی ہے۔ جلسے کامیاب بنانے والی ان دو اہم شخصیتیوں کا انداز کار اور ان کے ساتھ معاملہ دو مختلف انداز میں کیا جاتا ہے۔
فیکٹریوں کو لیبر فراہم کرنے والا شخص ٹھیکے دار کہلاتا ہے، مزدوروں کی ایک بڑی تعداد ہر وقت اس کے رابطے میں ہوتی ہے اور وہ مختصر نوٹس پر مطلوبہ تعداد فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ضرورت کے موقع پر سیاسی جماعتیں اس کی خدمات سے استفادہ کرتی ہیں۔ وہ جس معاوضے پر لیبر فراہم کرتا ہے، اس کا ایک خآص حصہ وہ اپنی فیس کے طور پراپنے پاس رکھ لیتا لیتا ہے۔
کچی اور غریب آبادیوں کے مکھیا کے ساتھ معاملہ مختلف ہے۔ ضرورت مند سیاسی جماعتوں کے متعلقہ عہدے دار ایسے لوگوں کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کے خوشی غم میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ جب کبھی سیاسی طاقت کے مظاہرے کی ضرورت پڑتی ہے، ایسے لوگوں سے مدد لی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے مکھیا کو ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے سمیت دیگر ضروری اخراجات کے سلسلے میں اتنے وسائل فراہم کر دیے جاتے ہیں جو خود ان کے اور ان کے ‘ عوام’ یعنی جلسے جلوس میں شرکت کرنے والے افراد کی ضرورت کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
سینئر صحافی تنویر شہزاد جلسے میں حاضری بڑھانے کے ایک اور نسخے کا اضافہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
‘ سیاسی جماعتیں کسی بڑی سیاسی مہم جوئی کے موقع پر اپنے ارکان اسمبلی کو بھی یہ ذمہ داری دیتی ہیں کہ انھیں کسی خاص تعداد میں افراد کو جلسے، جلوس یا لانگ مارچ میں لانا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کا اہتمام کر دیتے ہیں۔ کسی دوسرے شہر جو عام طور پر بڑا شہر ہی ہوتا ہے، پہنچنے والے لوگوں کے لیے اس میں اضافی دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ انھیں سیر و سیاحت کے مواقع میسر آجاتے ہیں اور وہ ایسی جگہیں بھی دیکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، عام طور پر جنھیں دیکھنا کے ان کے مشکل یا ناممکن ہوتا ہے’۔
کیا پاکستان تحریک انصاف کے حالیہ لانگ مارچ بھی اسی منصوبہ بندی کے تحت ہوا، منصوبے کے مطابق جس کے بعد دھرنا دیا جانا تھا؟
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چودھری اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ اپنے مظاہروں اور دھرنوںِ خاص طور پر حکومت سے معزولی کے بعد کی سرگرمیوں کی بالکل مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے جب عمران خان کی حکومت کو ہٹایا گیا تو اس کا شدید ردعمل ہوا۔ پاکستان کے 57 شہروں میں لوگ ازخود نکلے،
‘ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی تعداد اگر کروڑوں میں نہیں تو لاکھوں ضرور تھی’۔
اتنا کہنے کے بعد انھوں نے اپنی بات میں اضافہ کیا:
‘ ہم صرف اعلان کرتے تھے اور لوگ لاکھوں کی تعداد میں نکل آتے تھے چناں چہ یہی سبب تھا کہ ہم نے لانگ مارچ یعنی حقیقی آزادی مارچ کا فیصلہ کیا’۔
اصل میں میرا سوال ان سے یہ تھا کہ آخر آپ کی جماعت نے لانگ مارچ اور دھرنے ہی کا فیصلہ کیوں کیا؟ معمول کی دیگر سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے بھی تو سیاسی دباؤ بڑھایا جا سکتا تھا؟
سینیٹر اعجاز چودھری کی گفتگو سے تو میں اس سوال کا جواب اخذ نہیں کر سکا التبہ تنویر شہزاد نے اس سوال کا جواب بڑی وضاحت سے دیا۔ وہ کہتے ہیں:
‘ احتجاج صرف سیاسی نہیں ہوتا، معاشرے کے مختلف طبقات احتجاج کرتے ہیں، سیاسی بھی، غیر سیاسی بھی، ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ تاثر عام ہے کہ سیدھے سادے احتجاج کا وزن کوئی محسوس نہیں کرتا۔ مثلاً اگر پر امن لوگوں کا ایک ہجوم پریس کلب کے سامنے بیٹھا رہے تو بیٹھا رہے، وہ کوئی بامعنی توجہ حاصل نہیں کر پائے گا لیکن اس کے مقابلے میں اگر کچھ لوگ لاشیں لے کر گورنر ہاؤس کے سامنے بیٹھ جائیں تو ایسے احتجاج کی صرف اہمیت میں کئی گنا اضافہ نہیں ہو جائے گا بلکہ مسئلے کے حل جانب مؤثر پیش رفت بھی ہو سکتی ہے’۔
گزشتہ چار دہائیوں کی سیاست کے مختلف انداز سینئر صحافی عظیم چودھری کی نگاہوں سے گر چکے ہیں، ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے دھرنوں کے پس پشت بھی یہی خیال کار فرما ہے۔
وہ کون سے عوامل ہیں جو کسی دھرنے، مارچ یا جلسے کو کامیاب بناتے ہیں؟ ان سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھنے والوں کے خیال میں یہ ایک پیکج ہے، تنویر کہتے ہیں:
‘ اس پیکج میں چند چیزیں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ بہت زیادہ لوگ اکٹھے کیے جائیں۔ دھرنا دینے والا کوئی اہم آدمی ہے تو وہ اکیلا بھی کافی ہے۔ موضوع یا بیانیہ، ذرائع ابلاغ میں اس کا کوریج اور دھرنا دینے کے لیے مناسب وقت کا انتخاب، سیاسی اعتبار سے بھی اور موسمی اعتبار سے بھی’۔
کسی دھرنے کو کامیاب بنانے کے اگر بیشتر عوامل میسر آ جائیں تو اس کے موضوع یا بیانئے کی تفصیلات بھی بعض اوقات اہم ہو جاتی ہیں۔ جیسے دھرنا دینے کا سبب جتنا جرنلائز ہوگا، کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے جیسے مہنگائی۔ اس کے علاوہ کوئی مذہبی مسئلہ یا بھارت اور امریکا کے خلاف کوئی مؤقف۔
‘ یہ سب عوامل اگر دستیاب ہوجائیں تو اس کے باوجود بھی ایک ایسا عنصر ہے جس کی عدم موجودگی دھرنے یا احتجاج کی کامیابی کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے’۔
تنویر شہزاد کے خیال میں یہ چیز وہ اشارہ ہے جو فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ ایک کال آئے گی اور بہت سارے لوگ دھرنے میں آ کر شریک ہو جائیں گے۔ ذرائع ابلاغ بھی اس کی طرف توجہ دینے لگیں گے اور دھرنے کی کامیابی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ مطلب یہ ہوا کہ دھرنے دینے والے بذات خود اتنے اہم نہیں بلکہ وہ عناصر اہم ہیں جو اس کے پیچھے ہیں، وہ اس کے لیے حالات ساز گار بناتے ہیں۔
کیا کسی دھرنے یا لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے محض وہ چند عوامل ہی ناگزیر ہیں جنھیں بالعموم ضروری خیال کیا جاتا ہے؟
پاکستان مسلم لیگ کے سینیٹر پرویز رشید بعض صورتوں میں اس سے اتفاق بھی کرتے ہیں اور ایک پہلو سے اس اختلاف بھی۔ کسی دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے وسائل کے استعمال کے علاوہ دیگر ظاہری اور پوشیدہ عوامل کے ضمن میں ان کا خیال ہے کہ اس کا تعلق مقصد سے ہے۔ اگر کوئی مقصد ایسا ہو، عوام کی اس کے ساتھ جذباتی وابستگی ہو تو ایسی سیاسی مہم کسی بڑے انتظام کے بغیر ہی کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ عدلیہ کی بحالی کے لیے نواز شریف کی قیادت میں کیے جانے والے لانگ مارچ کی مثال پیش کرتے ہیں:
‘ عدلیہ کی آزادی ایک ایسا معاملہ تھا، عوام کے دل جس کے ساتھ دھڑکتے تھے۔ اس لیے میاں محمد نواز شریف نے اس کے لیے لانگ مارچ کی اپیل کی تو لوگ خود امڈ کر آئے۔ اس مارچ کے لیے نہ بندے اکٹھے کرنے کے لیے کوئی جتن کرنا پڑا، نہ ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کے انتظامات کی ضرورت پڑی۔ لوگ از خود پروانہ وار نکلے۔ نواز شریف کو تو بس اتنا کرنا پڑا کہ گھر سے اپنی گاڑی میں نکل کھڑے ہوئے۔ اس مارچ کا وزن اور دباؤ محسوس کیا گیا۔ یہی سبب تھا کہ مارچ ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا’۔
جن سیاسی سرگرمیوں کے لیے بڑے پیمانے پر انتظامات کرنے پڑتے ہیں، سینیٹر پرویز رشید انھیں ‘ انجینئرڈ’ سرگرمیاں قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
‘ جیسے ابھی آپ نے دیکھا، ایک مارچ کیا گیا۔ اس مارچ کے انتظامات بھی کیے گئے، وسائل بھی صرف ہوئے لیکن توجہ اس کے باوجود حاصل نہ ملی تو توڑ پھوڑ کی گئی۔ دہشت گردی بھی ہوئی۔ زندگیاں بھی داو پر لگیں، اس کے باوجود کچھ نہیں بنا تو آگ لگا دی گئی، ایسی ہی سرگرمیاں انجینئرڈ ہوتی ہیں’۔
سینیٹر پرویز رشید جن سرگرمیوں کو فطری قرار دیتے ہیں، ان کی ایک صورت کی طرف ڈاکٹر عمیر انصاری بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑی اور نظریاتی سیاسی جماعتوں کو توجہ کے حصول اور مؤثر سیاسی مظاہروں کے لیے اس قسم کے سہاروں کی ضرورت نہیں ہوتی جس میں لوگوں کو جمع کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت پڑے یا ٹھیکے داروں سے مدد لی جائے۔ ان کے خیال میں دائیں یا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ایسی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی اپنی جماعت اور اس کے مقاصد کے ساتھ وابستگی اتنی گہری ہوتی ہے کہ انھیں جس قسم کے حالات میں بھی بلایا جائے، وہ پہنچ جاتے ہیں اور اپنی جماعت کی توقعات پر پورے اترتے ہیں۔
کیا پاکستان کے مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں نظریاتی جماعتوں کی تعریف پر پوری اترتی ہیں اور ان کے کارکن ہر قسم کے حالات میں انھیں دستیاب ہو جاتے ہیں؟ ڈاکٹر انصاری کے مطابق اس سوال کا جواب اتنا سادہ نہیں۔ وہ جماعت اسلامی، جمعت علمائے اسلام، پاکستان عوامی تحریک اور بائیں بازو کی خالص نظریاتی جماعتوں جن میں کمیونسٹ پارٹی، مزدور کسان پارٹی یا قومی محاذ آزادی جیسی جماعتوں کو نظریاتی جماعتوں کی ایک قسم قرار دیتے ہیں جن کے کارکن ہر قسم کی اپیل پر لبیک کہتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں ان کے خیال میں نظریاتی جماعتیں ہی ہیں لیکن پہلی قسم کی جماعتوں کی طرح ان کا ڈسپلن اتنا مؤثر ہوتا ہے اور نہ وہ کارکنوں کو بہت زیادہ آزمائش میں ڈالتی ہیں۔ ایسی جماعتوں کو افرادی قوت کے مظاہرے کے لیے اگرچہ مصنوعی طریقے اختیار نہیں کرنے پڑتے لیکن وہ کسی انتہائی صورت میں اپنے کارکنوں کو کسی مشکل میں ڈالتی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے وجود میں آنے کے بعد مرکزی دھارے کی جماعتوں میں ایک نئی قسم کی جماعت کا اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق ایسا سیاسی عمل جسے دیگر جماعتیں ماضی میں نہایت سنجیدگی سے انجام دیا کرتی تھیں، اس جماعت نے اسے انٹرٹینمنٹ یا دلچسپی میں بدل دیا ہے۔ ان کے خیال میں مقبول پاپ سنگرز کی پرفارمنس اور نوجوان مرد و زن کے ہجوم نے اس جماعت کی سرگرمیوں کو ایک نیا رخ دیا ہے جو خالص سیاست سے تفریح کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
سینیٹر اعجاز چودھری اس نقطہؑ نظر سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ نجم شیراز، سلمان احمد یا بعض دیگر مقبول فن کار جو تحریک انصاف کے مظاہروں میں آتے ہیں، دراصل قوم ہی کا ایک حصہ ہیں۔ وہ بھی سیاسی رائے رکھتے ہیں اور انھیں بھی اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے معاشرے کے ان طبقات کو بھی اسٹیج فراہم کیا ہے لہٰذا پی ٹی آئی کی ایسی سرگرمیوں کو تفریح قرار دینا درست نہیں۔
سینیٹر اعجاز چودھری کے مطابق تحریک انصاف نے فن کاروں کو سیاسی عمل میں شریک کر کے ایک نئی اور مثبت روایت قائم کی ہے۔ ڈاکٹر انصاری نئی روایت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اسے تحریک انصاف کی ایک کمزوری بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس اور بالائی طبقات کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ یہ ایسے طبقات ہیں جو سخت آزمائشوں سے نمٹنے کا تجربہ نہیں رکھتے۔ ان میں بھی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی کی تفریحی سرگرمیوں سے متاثر ہو کر ان کے مظاہروں کا حصہ بنتی ہے۔ ایسے لوگ مزاحمتی سیاست نہیں کرسکتے۔ اس کا ثبوت حالیہ لانگ مارچ کے موقع پر مل چکا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں لانگ مارچوں اور دھرنوں کے ذریعے سیاست کی روایت نے زور پکڑا ہے، کیا آنے والے دنوں میں بھی یہ روایت برقرار رہے گی؟
سینیٹر اعجاز چودھری کی گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی جماعت کو اپنی عوامی مقبولیت پر بھروسا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی پکار پر بڑے بڑے سیاسی مظاہرے کر سکتی ہے۔ سینیٹر پرویز رشید کا خیال ہے کہ حالیہ لانگ مارچ ناکام ہوا ہے، اس ناکامی نے اس جماعت کو صرف بدنام ہی نہیں کیا بلکہ اس سے وابستہ لوگوں کو ناراض بھی کیا ہے۔ اس بنا پر ان کا خیال ہے کہ اس واقعے کے بعد زبردستی دھرنے دینے اور مارچ کرنے کی روایت کمزور پڑ جائے گی۔ وہ کہتے ہیں:
‘ مستقبل قریب میں نہیں لگتا کہ اس قسم کے دھرنے اور مارچز ہوا کریں گے’۔
ہماری سیاست میں دھرنے یا لانگ مارچ کی روایت کہاں سے ائی؟ سینیٹر پرویز رشید کہتے ہیں کہ تحریک آزادی سے۔
‘ قائد اعظم محمد علی جناح کا طرز سیاست آئینی اور پارلیمانی تھا لیکن انھوں نے بھی تاریخی سیاسی سفر کیے۔ اسی طرح انھوں نے بہت بڑے بڑے جلسوں سے بھی خطاب کیا ۔ خود پاکستان کی بنیاد ایک جلسے میں پڑی یعنی لاہور میں 23 مارچ 1940ء کا جلسہ جس میں قرارداد لاہور منظور ہوئی جو پاکستان کو نظریاتی جواز عطا کرتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سیاست کا یہ اسلوب جاری رہا’۔
یہی سوال میں نے پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے لیے ترجمان رؤف حسن سے پوچھا۔ دونوں کو حیرت تھی کہ یہ کیا سوال ہے اور اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت کیا ہے؟
ان کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے راہ نما اور سندھ کابینہ کے رکن سعید غنی کا رد عمل خوش گوار تھا۔ وہ سینیٹر پرویز رشید کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا:
‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور دیگر سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ بڑے بڑے مارچز کیے ہیں لیکن ان مارچز اور پی ٹی آئی کی سیاست میں ایک بنیادی فرق ہے۔ دیگر جماعتیں اپنا سیاسی حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرتی تھی لیکن تحریک انصاف کا طریقہ مختلف ہے۔ اپنی سرگرمی سے قبل ہی یہ جماعت تشدد کا راستہ اختیار کر لیتی ہے’۔
پی ٹی آئی کی احتجاجی سرگرمی میں تشدد کی نوعیت کیا ہے؟
سعید غنی کہتے ہیں کہ جب اس جماعت کے قائدین مرنے مارنے، خود سوزی کرنے اور خانہ جنگی کی بات کرتے ہیں تو یہ تشدد ہے۔ اسی طرح اس جماعت کی طرف آئین سے ماورا مؤقف اختیار کر لیا جاتا جیسے سول نافرمانی ، یوٹیلیٹی بلوں کی عدم ادائیگی اور بینکوں کے بجائے ہنڈی کی حمایت۔
‘ پی ٹی آئی کا یہ طرز عمل ہے جو اس کی سیاسی سرگرمی کو معمول کی سیاسی سرگرمی پرتشدد سرگرمی میں بدل دیتا ہے’۔
یہ تحقیقی مضمون https://www.bbc.com/urdu پر بھی شائع ہو چکا ہے۔