اللّٰہ میڈیا سے وابستہ عام ملازمین کے حال پر رحم فرمائے ۔دور جدید کے ڈریکولاز کا محاسبہ کرے تاکہ میڈیا انڈسٹری کے مزدوروں کے استحصال کا خاتمہ ہو سکے
ڈریکولا جیسے عنوان سے لگے گا کہ تحریر میں ایک خون آشام بلا کی بات ہوگی ۔ جس کے طریقہ واردات سے سب آگاہ ہیں ۔ ہم بات کر رہے ہیں میڈیا انڈسٹری کی۔ اس دنیا کے ڈریکولا کا بھی یہی کام ہے جیسے اپنے شکار کو رجھا کر سبز باغ دکھا کر جال میں پھنسانا جسم سے سارا لہو نچوڑ لینا اور پھر لاش کو نکال باہر کرنا ۔ اس کے دام میں آنے کے بعد شکار کے تمام حقوق سلب ہوجاتے ہیں ڈریکولا جب چاہے جس وقت چاہے اسے لہو کا خراج دینا پڑے گا۔
نخرے دکھانے ،نہ کرنے یا کوئی مطالبہ کرنے پر آپ کا کام تمام۔ گزشتہ دنوں ایک چھوٹی سی خبر نظر گزری تو اچانک ڈریکولا کا کردار ذہن میں آیا۔ مہنگائئ،پٹرولیم کی قیمتوں کے شور میں خبر دب کر رہ گئی ۔ ایسا کچھ نہ بھی ہوتا تو خبر کو زیادہ لفٹ نہ ملتی ۔ خیر ایک نجی چینل نے تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ کرنے پر دس ملازمین کو نکال باہر کیا ۔ میں سوچتا ہوں کہ دور جدید کے ڈریکولا کو خوش کرنے کیلئے ان ملازمین نے اپنی کتنی خوشیاں قربان کی ہوں گی نہ جانے کتنی عیدیں ،بقرعیدیں اور تہوار دفتر کی نذر کئیے ہوں گے ۔ انگنت مرتبہ ہفتہ واری تعطیل کی بلی چڑھائی ہوگی ۔ سالانہ تعطیل لینے کیلئے افسران کے ترلے منتیں کی ہوں گی اور اس کے باوجود چھٹی نہیں ملی ہوگی ۔
یہ بھی پڑھیں:
دھرنے اور لانگ مارچ کامیاب بنانے والے چند جادو گر
سستا پیٹرول: ملائشیا ماڈل پاکستانی مسائل کا حل
لوڈ شیڈنگ سے فوری نجات کی ایک قابل عمل تجویز
معمولی خطا پر ملازمت سے برخاستگی کی دھمکی سن کر سہمے ہوں گے ۔ نہ جانے کتنے سالوں سے پرانی تنخواہوں پر کام کررہے ہوں گے ۔ مگر بڑھتی مہنگائی کے سبب لب کشائی پر مجبور ہوئے ہوں گے جس کی پاداش میں ساری خدمات ردی کی ٹوکری میں ڈال کر انہیں ہری جھنڈی دکھا دی گئی ۔ یہ حرکت کسی طور پروفیشنلز نہیں بلکہ اسے ویمپائرزم کہنا حق بجانب ہوگا ۔
یہاں ڈریکولا کا کا رول وہ سیٹھ نبھا رہا ہے جس کے سینے میں دل نہیں ۔ اسے ملازمین کا سو فیصد چاہیے بدلے میں لگی بندھی تنخواہ ۔مراعات کے نام پر مذاق ۔ میڈیکل کے نام پر مضحکہ خیزی ۔ نوکری ختم کرنے سے قبل کوئی پیشگی نوٹس نہیں ہاں اگر آپ اس ڈریکولا سے کسی دوسرے ڈریکولا کی جانب جارہے ہیں تو اسے ایک مہینہ پہلے بتائیں بغیر کسی تعطل کے کام پر آئیں پوری جانفشانی سے کام کریں اور مہینے بھر بعد دفع ہو جائیں آپ کے بقایاجات کا اللّٰہ حافظ ہے
سیٹھ یا حکام بالا کے نزدیک آپ ریس کے گھوڑے سے زیادہ کچھ نہیں جس کی رفتار کم ہوتے ہی اس کو گولی ماردی جائے گی۔ ہم سے کئی لوگ اکثر ایسی صورتحال سے دوچار ہوچکے ہیں خاص طور پر وہ لوگ جو نیوز چینلز سے وابستہ ہیں ۔ وہ نمبر ون نیوز چینلز جنہیں اپنے ملازم کے گھر کے سوا سارے جہاں کی خبر ہوتی ہے۔
کہتے ہیں وقت کرتا ہے پرورش حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔ کراچی میں یہی ہوا جب ڈاؤن سائزنگ کی آڑ میں ایک صحافی کو نکال باہر کیا گیا کچھ دن رکشہ چلانے کے بعد غریب نے خودکشی کرلی ۔ اس سے قبل ایک معروف چینل کا ملازم تنخواہ میں تاخیر کے سبب ادارے خودکشی کرچکا ہے۔ واقعے کا ذکر خود نصرت جاوید نے پروگرام کے دوران کیا اور بات آئی گئی ہوگئی ۔
یہ دونوں خبریں کسی نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کچھ نہیں ۔ آپ جئیں یا مریں سیٹھ یعنی دور جدید کے ڈریکولا کا کچھ نہیں جاتا ۔۔ اس کا ادارہ پھل پھول رہا ہے ۔۔بیںک بیلنس بڑھ رہا ہے ۔۔اس کے ارد گرد خوشامدیوں کی فوج ظفر موج ہے جو اسے آل از ویل بتا کر خوش کرتی رہتی ہے ۔۔بلکہ بعض مواقعوں پر شاہ سے زیادہ شاہ کے یہ وفادار سیٹھ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں ۔کہنا پڑے گا کہ نجی چینلز نے ملازمت کے مواقع دینے کے ساتھ استحصال کی نئی راہیں بھی دریافت کرلی ہیں ۔
میڈیکل کے نام پر ملازمین کی وہ خواری ہوتی ہے کہ اللّٰہ کی پناہ ڈرتے ڈرتے تنخواہ میں اضافے کی بات کریں تو آنکھیں دکھائی جاتی ہیں جواب ملتا ہے کام کرنا ہے تو کرو ورنہ چلتے بنو مارکیٹ بےروزگاروں سے بھری پڑی ہے تم سے کم پیسوں میں بندہ رکھ لیں گے ۔ یہ رویہ ان کی ہٹ دھرمی کے ساتھ بےخوفی بھی ظاہر کرتا ہے ۔۔ ملکی قانون کی ان کے نزدیک مذاق ہے ۔شاید ان لوگوں میں خوف خدا بھی نہیں۔۔۔
ہم امریکا میں تو رہتے نہیں جہاں گوگل مقدمہ ہارنے کے بعد ملازمین کو ہرجانہ ادا کرتا ہے یا ہراسگی کے کیس پر ایلون مسک جیسے بندے کی ساکھ داؤ پر لگی ہے ۔۔کیس ہارنے پر وہ کیا کچھ کھوئے گا اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔۔ہمارا صحافتی پس منظر رکھنے والا سیٹھ کھلے عام کہتا ہے کہ صحافتی اقدار سے میرا کوئی لینا دینا نہیں یہ میرا کاروبار ہے ۔۔غور کریں تو یہ محض جملہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کی عکاسی میڈیا انڈسٹری کے ڈریکولا کے رویوں سے عیاں ہے ۔۔ اب سوال یہ ہے ان دس گیارہ افراد کا کیا بنے گا جنہیں بیدردی سے نکال باہر کیا گیا ۔۔اللہ نہ کرے کہ ہمیں مزید خودکشیوں کی خبر سننے کو ملے ۔ دعا کرتے ہیں کہ خبر بنانے والے خود کوئی” چھوٹی “خبر نہ بنیں ۔کیونکہ ہمارا معاشرہ ایسی چھوٹی خبروں پر کوئی توجہ نہیں دیتا ۔۔پاکستان تیونس نہیں جہاں ایک ریڑھی بان کی خود سوزی انقلاب کا سبب بنے ۔۔ ہم دعا کے علاہ کچھ نہیں کرسکتے کہ اللّٰہ ان دس گیارہ افراد اور میڈیا سے وابستہ عام ملازمین کے حال پر رحم فرمائے ۔دور جدید کے میڈیا انڈسٹری کے ڈریکولا کا محاسبہ کرے یا پھر ان کے دلوں میں نیکی ڈالے۔