مسلم لیگ نون نے ماضی میں اپنے دور اقتدار میں ایک ایسی عوام دشمن پالیسی بنائی جس میں طے کیا گیا کہ پورے ملک میں جس علاقے میں بجلی کے بلوں کی جس قدر ریکوری کم ہوگی اس علاقے میں اسی تناسب سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جائے گی خواہ اس علاقے میں بجلی کے مکمل بل ادا کرنے والے پاکستانی کیوں نہ بستے ہوں۔ اس انسانی حقوق کی پامالی والی پالیسی کو قومی انرجی پالیسی کا نام دیا گیا۔ یہ پالیسی جوں کی توں جاری ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر کے بجلی سے متعلق اداروں نے بجلی کے اصل چوروں کو پکڑنا چھوڑ دیا اور اپنی کوتاہی و مجرمانہ غفلت کی سزا ان بے چارے پاکستانیوں کو بھی دینا شروع کردی جن کے محلے میں کوئی بجلی چور رہتا ہے۔ واضح رہے کہ ان بجلی چوروں کے ساتھ عام طور پر بجلی کی تقسیم سے متعلق اداروں کا عملہ بھی ملا ہوا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
مکالمہ: ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تنہا چھوڑ جانے والے ایس ایم ظفر کی کہانی
منشایاد کی ”بزمِ جہاں افسانہ ہے” داستان زیست کی کہی ان کہی
پانچ جون: آج علامہ سیماب اکبر آبادی کا یوم ولادت ہے
بدقسمتی سے کے الیکٹرک ان اداروں میں شامل ہے جو نجکاری کے نام پر عوام دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ اسی ادارے کو بجلی کی پیداوار اور تقسیم دونوں کی زمہ داری دے کر نجکاری کرنے والی مشرف حکومت بڑی غلطی کرچکی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ دس سال سے اب تک اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری کرنے والا ادارہ کراچی سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کرپایا۔ حالانکہ شارٹ فال شدید گرمیوں کا صرف 500 میگا واٹ کا ہے اور دن رات لوڈ شیڈنگ ایسے کی جارہی ہے کہ شارٹ فال 500 میگا واٹ نہیں بلکہ پیداوار ہی صرف 500 میگا واٹ ہے۔
گوکہ کے الیکٹرک کا دعویٰ ہے کہ 1750 میگا واٹ وہ خود بنارہی ہے اور 1000 میگا واٹ اسے نیشنل گرڈ سے مل رہی ہے اس طرح مجموعی دستیاب بجلی 2750 میگا واٹ ہے۔ گرمیوں کی پیک ڈیمانڈ 3300 میگاواٹ بتائی جارہی ہے۔ اس لحاظ سے طلب و رسد کا فرق صرف 550 میگا واٹ رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی وفاقی محتسب قسم کا ادارہ اچانک دورے کرے تو اسے معلوم ہوجائیگا کہ کے الیکٹرک نے فیول مہنگا ہونے کے بعد اپنے زیادہ تر پیداواری یونٹ بند کررکھے ہیں اور زیادہ تر گزارہ نیشنل گرڈ پر ہے۔
کسی معزز جج یا جنرل صاحب کو تو شاید سوال کرنے کی توفیق نہ ہو لیکن کراچی کے اسٹار صارفین خواہ ان کا تعلق چور علاقوں سے ہو یا شریف خاندانوں کے علاقوں سے، یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ 550 میگا واٹ کی کمی کو کس تناسب سے پورا کیا جارہا ہے۔
کیا چوری والے علاقوں میں دن بھر 9 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے بعد تھکے ہارے شہریوں کی بجلی رات بھر بند کرنے کا اختیار انہیں موجودہ لیگی حکومت نے دیا ہے۔ ؟ جبکہ لیگی حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ کسی علاقے میں تین گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہونی چاہیے۔
وفاقی حکومت کے احکامات نہ ماننے پر کراچی میں کے الیکٹرک کے خلاف عوامی احتجاج بڑھتا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی کی مسلسل مہم کے بعد اب اتحادی حکومت کا حصہ ایم کیو ایم بھی اس بدترین لوڈ شیڈنگ کے خلاف بول پڑی ہے۔ لیکن نجکاری کے حقوق حاصل کرنے والی کے الیکٹرک کی انتظامیہ کچھ سننے کو تیار نہیں ۔ صارفین کا کہنا ہے کہ اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ مبینہ ہنگامہ آرائی چاہتی ہے ۔ یعنی ملک میں عدم استحکام اور موجودہ بیساکھی حکومت کو مزید کمزور کرنا چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت شاید ابھی تک کے الیکٹرک کے اس باریک قدم کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ اقتدار کی نئی نویلی دلہن نے ابھی گھر کے کام کاج نہیں سنبھالے ہیں اور شاید ساس بھی یہی چاہتی ہے تاکہ اس کا کماؤ پوت یعنی زائد اور ناجائز بلنگ کا سلسلہ جاری رہے۔
ایک حالیہ بریفنگ میں کے الیکٹرک حکام میڈیا کے سامنے یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ پیداواری اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے۔ بینکوں نے مزید قرضے دینے سے انکار کردیا ہے۔ اب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم مہنگی بجلی بنائیں اور سستی فروخت کریں۔
سب کچھ اخباری رپورٹس کا حصہ ہے لیکن بے حسی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں۔ لگتا ہے ملک کا نظام آٹو پر ہے ۔۔ نیوٹرل پر نہیں۔