”بزمِ جہاں افسانہ ہے” اردوکے معروف افسانہ،ناول اورڈرامہ نگار محمدمنشایاد کی خودنوشت ہے۔جسے مرتب ان کے بھانجے نظم کے معروف شاعرخلیق الرحمٰن نے کیاہے۔جوپیش لفظ میں لکھتے ہیں۔” منشایاداپنی یادداشتیں بڑی دلچسپی اور شوق سے لکھ رہے تھے،جب وہ اس بائیوگرافی کی ٹرانس میں ہو تے توکئی کئی دن لکھتے چلے جاتے،اگردرمیان میںکسی افسانے کاخیال سوج جاتاتوکہانی کی طرف ملتفت ہوجاتے اور خودنوشت میں تعطل آجاتا۔
ان یادداشتوں کابہت ساحصہ منشایاد تواترکے ساتھ ایک ہی رو میں لکھ گئے مگراس خودنوشت کادوسراپڑاؤ انہوں نے فردفرد مضامین ، خاکوں اورتقریباتی مضامین کی شکل میں پھیلارکھاتھا،جسے میں نے بڑے جتن سے یکجاکیا،یہ حصہ وہ تھاجس میں انہوں نے اپنی ادبی زندگی کے گوشے بیان کیے تھے۔اس ادبی زندگی کازیادہ ترماخذوہ تحریریں ہیںجن میں ادیب وشعراء سے ان کے ذاتی مراسم کااحوال بیان ہوا ہے۔خاص طور پروہ بلندپایہ ادیب جن سے ان کاقریبی تعلق رہا ان کے بارے میں منشایادنے تحریری شکل میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھا۔ان تحریرو ں کازیادہ ترموادان کی آخری کتاب ”منشائیے”میں بھی بکھراپڑاہے۔
یہ بھی پڑھئے:
دل کا اجلا رنگ کا کالا، تصور رضا
طاہر حنفی کی یرغمال خاک، داخلی اور خارجی فضا سے تشکیل پانے والا تخیل
بلوچستان انتخابی نتائج: جماعت اسلامی کی تاریخی کامیابی، چار سوالات تین چیلنجز
یوںمنشایادکی زندگی کاوہ زمانہ جوخودنوشت میں لکھنے سے رہ گیاان تحریروں کے ذریعہ بہت حدتک پوراہوگیا مگران کی اچانک وفات کے باعث اس خودنوشت میں جوکمی اورتشنگی رہ گئی وہ پوری نہیں ہوسکتی۔ دراصل یہ کتاب ایک نایاب تحفہ ہے ان قارئین کے لیے جومنشایادکی تحریروں کے زبردست مداح ہیں۔اس کتاب کی شکل میں منشایادکی پوری زندگی ایک دستاویزکی شکل میں انہیں مہیاہوسکے گی۔منشایاد اردوافسانے کاوہ درخشاں ستارہ ہے جس نے کہانیوں ،کرداروں اورموضو عات کی ایک پوری کہکشاں اپنے افسانوں میں بکھیررکھی ہے۔آنے والے دورمیں بھی ان کے مداحین پیداہوتے رہیں گے تب یہ کتاب منشایاد کی شخصیت کے خدوخال سمجھنے میں ضرور معاون ثابت ہوں گے۔”
منشایاد5ستمبر197ء کوشیخوپورہ کے ایک چھوٹے گاؤں میں پیداہوئے۔ادبی زندگی کا آغازانہوں نے بطورشاعرکیا اور’یاد’ تخلص رکھا۔منشا یاد 1955ء میں پہلا افسانہ تحریرکیا۔جس کے بعدان کی شاعری پس منظرمیں چلی گئی۔لیکن یادان کے نام کاناگزیرحصہ بن گیا۔منشایاد اردو اور پنجابی میں دونوں میں لکھتے تھے۔ان کے افسانوں کے کئی مجموعے اورانتخاب شائع ہوئے۔جن میں ”ماس اورمٹی”،”وقت سمندر” ،” درخت آدمی”،”تماشا”،” دورکی آواز”بندمٹھی میں جگنو”،”خلااندرخلا”،”خواب سرائے”،”اک کنکر ٹھہرے پانی میں”اور”پانی میں گھرا پانی ” پنجابی میں ”اک سیٹی مارمترا”۔ ان کے افسانوں کے کئی انتخاب بھی شائع ہوئے۔جن میں امجداسلام امجدکا مرتب کردہ ”منشایادکے بہترین افسانے” ،”شہرفسانہ” کے علاوہ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے منشایادکے افسانوں کی ضخیم کلیات ”میں اپنے افسانوں میں تمہیں پھر ملوں گا” شائع کی۔
پنجابی ناول”ٹانواں ٹانواں تارا” کے علاوہ ٹی وی کے کئی مقبول سیریز بھی لکھے۔جن میں ”بندھن”،”جنون”،”آواز” اور ”پورے چاندکی رات ” شامل ہیں۔ پنجابی ناول ”ٹانواں ٹانواں تارا” کی ڈرامائی تشکیل ”راہیں” کے عنوان سے کی۔ جوبے حدمقبول ہوئی ۔پھراسی سیریل کی بنیادپراردوناول ”راہیں” تحریرکیا۔معروف ادیبوں ، شاعروں اور کتب کے بارے میں کتاب ”منشائیے ” بھی لکھی ۔ 2004ء میں حکومتِ پاکستان نے محمدمنشایادکوان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ”تمغہ حسنِ کارکردگی” پیش کیاگیا۔پنجابی کے بہترین ناول نگار کی حیثیت سے بابافریدادبی ایوارڈ اورعالمی فروغِ ادب ایوارڈ سے بھی منشا یادکونوازاگیا۔اردوادب کایہ اہم افسانہ وناول نگار 15اکتوبر2011ء کواچانک انتقال کرگیا۔
معروف افسانہ وناول نگار محمدحمیدشاہد نے ”بزم جہاں افسانہ ہے” کے بارے تاثرات ظاہرکرتے ہوئے لکھاہے۔”محمدمنشایادکے پاس مشاہدے کااپنازاویہ اور محسوسات کااپنانظام تھا،ایساکہ وہ افسانہ لکھ رہے ہوتے یاناول،ڈرامہ لکھ رہے ہوتے یاکوئی مضمون،ہربار اپنے ہم عصروں سے مختلف ہوجایاکرتے تھے۔وہ عصری سماجی زندگی کے حقیقی نباض تھے اور انسانی نفسیات کے گہرے رازوں کوکھوجنے کاہنر جانتے تھے۔یہی سبب ہے کہ وہ متنوع موضوعات کواپنے الگ مزاج میں ڈھال کراردوپنجابی فکشن کامستقل باب ہوگئے ہیں۔اس شاندار کامیابی کے پیچھے منشایادکی پون صدی پر مشتمل زندگی کاسفر ہے۔ وہ اس سفرکی روداد بھی لکھ رہے تھے۔
میں نے ان کی زندگی نامے کے کئی صفحات خودان کے سامنے بیٹھ کر،انہی کی زبانی سن رکھے ہیں تاہ انہیں مرتب کرنے سے پہلے انہیں اگلی منزلوں کوروانہ ہونا پڑاتھا۔ منشایاد کے چہیتے نظم نگار بھانجے خلیق الرحمٰن نے اپنی محبتوں کاقرض یوں چکایاہے کہ ان کی لکھی ہوئی مگربکھری ہوئی یادوں کومرتب کرکے گم ہونے سے بچالیاہے۔خلیق الرحمٰن نے یہ کتاب کچھ ایسے قریب سے مرتب کی ہے کہ منشایاد کی زندگی کی ساری تخلیقی،فکری،سماجی اور تہذیبی چہل پہلاس کے اوراق میں ایک دلچسپ کہانی کی صورت رواں ہوگئی ہے۔اسے پڑھتے ہوئے ہماری ملاقات فکشن نگار منشایاد سے توہوگی ہی، اس ننھے منشابھی ہوگی جس کے گھسے ہوئے تلووں والے جوتوں سے تپتی بلتی زمین پاؤں جلاتی تھی مگروہ علم کی تاہنگ میں آگے بڑھتے رہتے تھے۔
اس نوجوان منشایادسے بھی ،جس نے اپنی جوانی اسلام آبادکوایک تہذیبی شہربنانے میں جھونک دی اوراس منشایادسے بھی جواپنی زندگی کی آخری شام حلقہ ارباب ذوق اسلام آبادمیں گزارتاہے۔ادیبوں کے اس حلقے میں ،جس کا پوداانہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا اورجس کی دیکھ بھال ،گوڈی اور آبیاری وہ ساری عمرکرتے رہے تھے۔منشایاد ان لوگوں سے تھے ہی نہیں جواپنی زندگی میں مرجایاکرتے ہیں اورجنہیں باقی سانسیں اپنا مردہ گھسیٹتے ہوئے کھینچنا ہوتی ہیں کہ وہ زندگی سے اورجذبوں سے اور محبتوں سے کناروں تک بھرے ہوئے تھے۔ وہ اپنی آخری سانسوں تک زندہ رہے،زندہ لفظ لکھتے رہے اورزندہ لوگوں کے درمیاں رہے۔یہ کتاب اسی زندہ تخلیق کارکی ہڈبیتی ہے۔”
”بزمِ جہاں افسانہ ہے” کاپہلا حصہ ”برگدکی چھاؤں ” ہے ۔ جس میں منشایادکی پیدائش 1937ء سے 1949ء تک بچپن کے واقعات بیا ن کیے گئے ہیں۔محمدمنشایاد کااسلوب سادہ، پراثر ، دلچسپ اورشگفتہ ہے۔ان کے شگفتہ اندازِ بیان نے کتاب کی ریڈیبلٹی میں اضافہ کیاہے ۔سا تھ ہی وہ جن علاقوں میں رہے ان کارہن سہن،کلچر،لوگ، روایات، اہم مقامات ،تاریخ اوراہم شخصیات سے آگاہ کرتے ہوئے قاری کو ساتھ لے کرچلتے ہیں۔ ذرا کتاب کاآغاز ملاحظہ کریں۔”
پاکستان کے دل لاہور سے سرگودھاجانے والی سڑک اورفیصل آبادجانے والی ریلوے لائن پرشیخوپورہ سے آٹھ نومیل کے فاصلے پرمنڈی فاروق آباد کاشاداب اور شاندارقصبہ ہے جولوئرچناب کی گوگیرہ برانچ اورقادرآبادلنک کی دونہروں کے کنارے واقع ہے۔قریب ہی سکھوں کاایک مشہور اور تاریخی گاؤں چوہڑکانہ اورگوردوارہ سَچا سوداہے جسے سُچا سودابھی کہاجاتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت یہاں ایک بڑا ریفیوجی کیمپ قائم ہوگیاتھاجس سے فسادات کی بہت سی داستانیں وابستہ ہیں۔رامانندساگر کے مشہورناول’اورانسان مرگیا’ میں بھی اس کاحوالہ ملتاہے۔ ضلع شیخوپورہ کویہ افتخار بھی حاصل ہے کہ یہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک کی جنم بھومی ہے۔ضلع شیخوپورہ کودوسرا عزاز یہ حاصل ہے کہ پنجابی زبان کے شاعرِ اعظم سیدوارث شاہ یہاں پیداہوئے اورنواحی گاؤں جنڈیالہ شیرخاں میں ان کامزارہے جہاں ہرسال ساون کی پہلی تاریخ کوعرس کے موقع پرہیر پڑھنے کابہت بڑا مقابلہ ہوتا ہے۔”
محمدمنشایاد1937ء میں عیدکے دن پیداہوئے۔ عیدکے روز پیدائش کی نسبت سے والدنے ان کانام عیدمحمد رکھناچاہا مگران کی والدہ نے محمد منشانام پسندکیا۔یہ نام انھوں نے داستانِ یوسف سے لیاتھا جوان کی اوردیگرگھروالوں کی پسندیدہ کتاب تھی۔منشایاد نے والدین کی شادی اوراپنی پیدا ئش کااحوال کس شاعرانہ انداز میں کیاہے۔شایدآپ نے کبھی یہ اندازِ بیان نہ پڑھاہو۔” ایک روزدونوجوان لڑکیاں اپنے کھیت سے ساگ توڑ رہی تھیں۔
ابا کاکوئی مویشی ان کے کھیت میں چلاگیا۔وہ لٹھ لے کردوڑے اوراپنے مویشی کوواپس لے آئے مگران میں بڑی والی بہت خفاہوئی،لیکن دوسری خاموش رہی۔پھرکہا’جانے دوآپا۔اس بے چارے کاکیاقصور؟’ ابا کہتے تھے انھوں نے اپنے گھرتوکیاپورے گاؤں میں اتنی حلیمی سے بات کرنے والی عورت نہ دیکھی تھی۔ایک اجنبی لڑکی کے منہ سے ہمدردی،اپنائیت اورمحبت سے لبریزیہ سیدھاسادا ساجملہ ان کے دل میں اترگیا۔
انھوں نے اپنی والدہ سے ذکرکیا۔وہ ان سب کوجانتی تھیں۔بڑی چھوٹے بھائی کی اور چھوٹی بڑے بھائی کی بیٹی تھی۔وہ ایک دو روز میںچھوٹی کوابا کے لیے مانگ آئیں۔شادی کے ایک برس بعدان کے ہاں بیٹاپیداہوا،جس کانام محمداشرف رکھاگیامگر وہ جلد ہی فوت ہوگیا۔ابا کو سخت صدمہ ہوا۔وہ کھیتی باڑی کرتے ہوئے اداس قسم کے اشعارگنگنانے لگے۔
یوں میں بھی ان دنوں وہیں کہیں تھا۔میرابسراپاڑکے درختوںپرتھا اورمیں ابا کوبہلانے کی خاطران سے لکن میٹی کھیلتااورجب وہ کوئی فراقیہ دوہڑا گاتے تومیں کسی قریبی درخت کی ٹہنی یاپھول سے اڑکرآجاتااوران کی پشت کوچھوکرجلدی سے بھاگ جاتا۔ان کی اداسی کم ہوجاتی۔ماں جی بھی بے حداداس اور دکھی رہتی تھیں۔وہ اکثر میکے گاؤں جاتیں تومیں،جس کابسیرادرختوں ،پھولوں اوربادلوں پرتھا،کھیتوں کھلیانوں اور کچے راستوں پرروپ بدل بدل کرانھیں رجھاتااورکبھی سرسوں،کریر یا چنبے کاپھول یاکبھی سرخ بیر،پیلوبن کران کے راستوں میں انتظارکرتا کہ وہ مجھے سونگھ لیں یاتوڑ کرکھالیں اورمیں ان کے بطن سے جنم لوں۔پھرایک دن میں اپنے ارادے میں کامیاب ہوگیا۔
سال 1937ء کی عیدالفطرکے روز جب ابا،داداجی اور چچامحمدخلیل کے ساتھ نمازپڑھنے گئے ہوئے تھے،میںنے پہلی باراپنے گال پرمامناکے ہونٹوںکالمس محسوس کرکے آنکھیں کھولیں۔”یہی اسلوب پوری کتاب میں موجودہے اورقاری کوآگے کیاہوا کے تجسس میں مبتلارکھتاہے اورکسی وقت بھی دلچسپی کم نہیں ہوتی۔”میں اورکہا نی” کے ذیلی عنوان سے کیادلچسپ حقیقت بیان کی ہے۔ ” افسانہ منزل کے مقیم میرے پوتوں اور پوتیوں کوتویقین ہی نہیں آتاکہ کبھی ان کے دادابچہ بھی تھے۔چو نکہ انھیں معلوم ہے کہ میں کہانیاں لکھتاہوں۔اس لیے جب میں انھیں اپنے بچپن کاکوئی واقعہ سناآں تووہ مجھے یوں بے یقینی سے دیکھتے ہیں جیسے میں گپ ہانک رہایاکوئی انوکھی اورناقابلِ یقین کہانی سنارہاہوں لیکن ان کابھی کیاقصور، خودمیرے ذہن میں اپنے باپ اورداداکے بچپن کاتصور ٹھیک سے نہیں بیٹھتاتھا۔
میں اباکے چہرے سے ریش اورہیبت نکال کردیکھنے کی کوشش کرتاتووہ اباکی بجا ئے ان کاماڈل لگتے اوراگرباریش چہرے،بلندقدوقامت اور پرہیبت شخصیت سمیت انھیں بچپن کاروپ دینے کی کوشش کرتاتومنے سے ابا عجیب چیزبن جاتے۔شایدمیرے پوتے پوتیاں اورنواسے نواسیاں بھی میرے بچپن کاایساہی تصوررکھتے ہوں۔”
کہانی کے مختلف روپ بارے میں منشایاد لکھتے ہیں۔” بچپن کی کہانیاںہم جولیوں کی طرح ہوتی ہیں۔انھیں جب بھی پکاریں وہ دروازوں اورپردوں کے عقب سے نکل کرآجاتی اور ہمارے ساتھ گلی ڈنڈااورلکن میٹی کھیلنے لگتی ہیں۔عہدِشباب کی کہانیاں رسیلی اور خوشبو دار ہوتی ہیں اور ادھیڑعمری کی کہانیوں کے سارے ذائقے اورمعانی تبدیل ہوجاتے ہیں اوران کی نئی پرتیں دکھائی دینے لگتی ہیں۔کہانیوں کی کئی قسمیں ہیں ۔
بعض کہانیاںلباسوں کی طرح ہوتی ہیںجنھیں ہم کچھ عرصہ پہن اوراوڑھ کراتاردیتے ہیں۔بعض کہانیاں زیورات کی طر ح ہوتی ہیں جنھیں ہم ضرورت کے وقت اورخاص خاص موقعوں پراپنے حافظے کی الماری سے نکال کرتھوڑی دیرکے لیے پہن لیتے پھر گڈ ی کاغذ میں لپیٹ کررکھ دیتے ہیں۔بعض کہانیاں جسم پرچوٹوں،زخموں اورجلنے کے نشانوں کی طرح ہوتی ہیں جوہمارے ساتھ جوان اور بوڑ ھی ہوتی رہتی ہیں۔کہانیاں ہمارے ساتھ پیداہوتی اورہمارے بعدبھی زندہ رہتی ہیں۔کہانیاں دوردرازکے سفرکرتی ہیں اور وہاں بھی پہنچ جاتی ہیں جہاں ہم خودنہیں پہنچ پاتے۔
کہانیوں سے خالی ذہن اس بے داغ اورسپاٹ چہرے کی مانندہوتاہے جس کاکوئی شناختی نشان نہ ہو۔ میرا اپنا چہرہ ہی نہیں جسم بھی داغ داغ اور دھبہ دھبہ ہے۔کہانیاں پچاس ساٹھ برس سے ہل چلارہی ہیں۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہزاروں کہانیاں پڑھ اور سن چکاہوں۔سینکڑوں کہانیاں سوچ چکاہوں۔ان میں سے کچھ محفوظ ہوگئیں باقی جہاں سے آئی تھیں وہیں چلی گئیں مگربعض اب تک میرے اردگردچکرلگاتی رہتی ہیں کہ ہمیں لکھو۔ان میں کچھ کمزوراورمعمولی ہیں ان کالکھناضروری نہیں۔بعض کومیں کسی خوف،دل آزاری کے اندیشے اورمصلحت کی بناء پرنہیں لکھناچاہتا اوربعض اتنی میلی کچیلی اورٹوٹی پھوٹی ہیں کہ انھیں جھاڑنے ،پونچھنے، مانجھنے اورجوڑنے پر بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔بعض جگنوؤں کی طرح ہیں،لحظہ بھر کے لیے ٹمٹماتی ہیں اوراس سے پہلے کہ انھیں مٹھی میں بندکر لیاجائے نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔”
یاد تخلص رکھنے کی بھی ایک کہانی ہے جومنشایادکی زبانی ہی لطف دیتی ہے۔”میں نے بچوں کے رسالے ہدایت میں نظمیں اورکہانیاں لکھنا شرو ع کردی تھیں۔جلد ہی مجھے اندازہ ہوگیاکہ شاعرکے لیے تخلص بھی ضروری ہے حالانکہ بعد میں شاعروں اورادیبوں کے احمدمنشا،منشانذیر اورمنشاالرحمیں منشاجیسے نام دیکھ کر پتہ چلاکہ منشابھی تخلص کے طور پراستعمال ہوسکتاتھالیکن گھرکی مرغی دال برابر،میں ان دنوں نئے نئے مختلف الفاظ کی دمیں لگالگاکردیکھتارہتاکہ کیسی لگتی ہیں۔مثلاً منشاراہی، منشاناز،منشانذیر،منشابھٹی وغیرہ مگریہ پرانے لگتے تھیاور مجھے ایک مختصر اورجدیدترتخلص درکارتھاجسے آسانی سے شعروں میں استعمال کیاجاسکے اوربولنے میں بھی بھلالگے۔
ایک روزآدھی چھٹی کے وقت اسکو ل کے باغیچے میں، جہاں بیٹھ کرہم گھرسے لائی ہوئی روٹی کھاتے تھے،کوئی لڑکافلمی گیت گنگنا رہاتھا۔’کسی کی یادآئی،یادآئی،یاد آئی ہے” یاد کالفظ اوریہ خیال میرے ذہن میں بجلی کے کوندے کی طرح چمکاکہ شاعرکے لیے یادسے بہترکیاتخلص ہوسکتاہے۔کسی نہ کسی کی یادتوہرکسی کوآتی ہی رہتی ہے۔”
منشایادکے اسلوب میں ہلکی ظرافت کاعنصر بھی موجودہے ، جوتخلص کے واقعہ کی دلچسپی کوفزوں ترکرتاہے۔وہ اپنی داستانِ زیست بھی ہلکے پھلکے شگفتہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔جس سے کسی کہانی یاافسانے جیسالطف محسوس ہوتاہے۔”بزمِ جہاں افسانہ ہے” کا دوسرا حصہ” پوٹھو ہاردیس میں” 1957ء سے 1962ء کے دور پرمحیط ہے۔ جب بطورانجینئراورافسانہ نگارمنشایاد اپنے قدم جمارہے تھے۔بطور اوورسیئر انہیں راولپنڈی میں مکانوں کی سیریزایل سے زیڈتک کاعلاقہ دیاگیاجس میں امرپورہ اورگلاس فیکٹری سے جھنگی محلہ،بنی،ہری پورہ،کرتار پورہ،آراے بازار ،محلہ امام باڑہ، شان چن چراغ،پراناقلعہ،باغ سرداراں، ورکشاپی محلہ،راجہ بازار اور ڈھوک رتاامرال شامل تھے۔انہیں پانچ چھ لڑکوں کااسٹاف دیاگیا۔جس میں دوبہت اچھے تھے۔
ایک کم پڑھا لکھامگرتیزوطرارمحمداقبال اوردوسرامیٹرک پاس اور شریف اختر رشید۔ یہ اختررشیدمستقبل کے افسانہ نگار رشیدامجدتھے۔انہوں نے لکھناشروع نہیں کیاتھامگرناول اورافسانے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔اس وقت تک منشایادکی بہت سی کہانیاں اورمضامین مختلف رسائل میں شائع ہوچکے تھے۔رشیدامجدکے حوالے سے وہ لکھتے ہیں۔” رشیدکی ڈیوٹی تعمیراتی کاموں کی نگرانی میں میراہاتھ بٹاناتھامگرمیں اسے سائٹ کے بجائے زیادہ تراپنے ساتھ رکھتا۔اس کی حیثیت میرے دوست اور مصاحب کی تھی اور وہ چھٹی روز بھی رات گئے تک میرے پاس ہی رکا رہتا۔میں نوواردتھا اور وہ راولپنڈی کی ایک ایک گلی سے واقف۔ہما رے مشاغل بھی مشترکہ تھے۔وہ میرے چھپے ہوئے افسانے پڑھتا رہتااورمجھے افسانے لکھتے اور پڑھتے ہوئے رشک اورشوق سے دیکھتا یقینا اسے افسانہ لکھنے کاشوق وہیں سے پیداہوامگراس کے معروف افسانہ نگاربن جانے کے بعدمجھے حسرت ہی رہی کہ کبھی وہ اس کااعترا ف بھی کرتا۔
اکادمی ادبیات کی کتاب رشیدامجد،فن وشخصیت۔مرتبہ ڈاکٹرشفیق انجم میں دبے دبے لہجہ میں سہی اس بات کاتذکرہ ملتاہے۔’ ان دنوں رشیدامجد نے اگرچہ لکھناشروع نہیں کیاتھا لیکن والدکی ادبی وراثت ، منشایاد کی صحبت اورمطالعے کے بیحدشوقت نے ابتدائی زندگی کے اس حصے میں ہی ادب سے رغبت کی ایسی کیفیت پیداکردی تھی کہ اب اس ادبی ذوق کے اظہارکازمانہ قریب ترآگیاتھا’۔ رشیدامجدنے اپنی سوانح میں میرے بارے میں بہت سے باتیں ٹھیک بھی لکھی ہیں، لیکن پتہ نہیں کیوں ابتدائی دنوں کے حوالے سے،خاص طور پرمیرے افسانوں اور پہلی ملاقات کے بارے میں مبالغہ آمیزی اورغلط بیانی سے کام لیاہے۔”
دوست پبلشرنے اردواورانگریزی میں بہت عمدہ اوریادگارخودنوشت اورآپ بیتیاں شائع کی ہیں۔جن میں ادیب ،شاعر،سیاستدان ، فوجی جنرلز اوربیوروکریٹ شامل ہیں۔ محمدمنشایاد کی خودنوشت ”بزمِ جہاں افسانہ ہے” بھی دوست پبلشرنے اپنی روایتی اعلیٰ معیار،بہترین کتابت وطباعت کے ساتھ شائع کی ہے۔ چھ سوصفحات کی کتاب کی قیمت چودہ سوروپے ہے۔
محمدمنشایاد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آبادکے بنیادگزاروں میں شامل ہیں۔جب وہ بطور اوورسیئرشہرکی تعمیرکاحصہ بنے۔اسلام آباد کی تعمیرکی یادیں ان سے بہترکوئی نہیں بیان کرسکتا۔ابھی سی ڈی اے وجودمیں نہیں آیاتھا۔یہ فیڈرل کیپیٹل کمیشن کازمانہ تھا۔اب تک حتمی طور پریہ فیصلہ نہیں ہواتھاکہ دارالحکومت راولپنڈی کے شمال مشرق میں خاص کس جگہ بناناہے۔پنجاب حکومت کے زیراہتمام راول ڈیم زیرِ تعمیرتھا۔اس کے پاس ایک اونچے ٹیلے پرایف سی سی نے ایک چھوٹا ساانسپکشن ہاؤس بنایاہواتھاجہاں کھڑے ہوکرافسران بالادوربینوں سے سارے علاقے کاجائزہ لیتے۔شروع میں راول ڈیم کے مشرقی علاقے میں جوسملی ڈیم تک پھیلاہواہے، اسلام آبادبسانے کاپروگرام تھامگریونانی ماہرتعمیرات کے مشورے اورخوبصورت بیک ڈراپ کی وجہ سے اسے موجودہ جگہ پرتعمیرکرنے کامنصوبہ بنایاگیا۔
ستمبر1959ء میں نئے دارالحکومت کاماسٹرپلان تیارکرنے کے لیے فیڈرل کیپیٹل کمیشن بنایاگیا جس نے ابتدائی رپورٹوں کے بعدبیس فروری 1960ء کونئے دارالحکومت کے لیے اسلام آباد نام کی منظوری دی۔چوبیس جون کواسلام آباد کے حوالے سے پہلی کابینہ میٹنگ میں بھی منشایادموجودتھے۔ جس میں مجوزہ شہرکے مختلف مقامات اوراہم عمارتوںکی نشاند ہی اورسڑکوں،شاہراہوں کی ڈی مارکیشن کی گئی۔جیسے وزیراعظم ہاؤس ،پارلیمنٹ بلڈنگ،سپریم کورٹ کہاں کہاں واقع ہوں گے۔اس واقعہ کے تیس بتیس برس بعد جب شکرپڑیاں کے اسی مقام پرپہلی میٹنگ کی یادگارتعمیرہورہی تھی توسنگِ بنیادکی تقریب میں سی ڈی اے کے ڈائریکٹرپبلک ریلیشنزعلی تجمل واسطی نے چیئرمین فریدالدین احمداورحاضرین کوبتایاکہ ہمارے درمیان منشایاد بھی موجودہیں جواس پہلے اجلاس میں شریک تھے۔
اپنی خودنوشت میں منشایادنے بتایا۔” شکرپڑیاں ویوپوائنٹ پربہت سے سربراہان مملکت آتے رہتے تھے۔پنڈت جواہرلعل نہروبھی آئے اوراسلام آباد کی لوکیشن کی بہت تعریف کی۔ایک بار شاہ نیپال آئے توآندھی آگئی مگرشکرہے اصل فنکشن ختم ہوچکاتھا۔اس کے بعد بھی شکر پڑیا ں پرمختلف ممالک کے کئی صدور، بادشاہ اوروزرائے اعظم پودے لگائے اورشہرکامنظردیکھنے کے لیے آتے اور مختلف حیثیتوں میں میں استقبالیہ ٹیم میں شامل ہوتارہا۔چین کے وزیراعظم چواین لائی سے لے کرترکی کے صدر،سعودی عرب کے فرمارواؤں تک مجھے بہت سے سربراہوں سے متعارف ہونے اورہاتھ ملانے کاموقع ملا۔چودہ جون1960ء کوایک آرڈیننس کے ذریعے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی وجود میں آئی۔”
اسلام آبادمیں مکانات کی تعمیرسب سے پہلے آب پارا میں شروع ہوئی۔اس کااصل نام آب پاڑاتھا۔پاڑا بنگالی زبان میں قطعہ زمین کو کہتے ہیں۔اس لحاظ سے آبپارہ کے معنی ایسی جگہ کے ہیں جہاں پانی بہت ہوچونکہ اس علاقے میں بے شمار برساتی نالے تھے اس لیے یہ نام بے حدموزوں تھااورمشرقی پاکستان سے یک جہتی کااظہاربھی، لیکن اس سے پہلے اس علاقہ کی صرف ایک ہی اہمیت تھی کہ یہاں بری امام کے والدکامزارتھاجہاں دوردور سے لوگ سلام اوردعاکرنے اور منت ماننے کوآتے تھے۔
”بزم جہاں افسانہ ہے” کا تیسراحصہ”نوائے سروش” ہے۔جس مصنف نے 1970ء کے بعدکی زندگی کاذکرکیاہے۔انہوں نے 18 اپریل 1973ء کی ڈائری میں پاکستان کاآئین بننے پرخوشی کااظہار کیاہے۔لکھاہے۔” آئین بن گیااورایک بہت بڑا معرکہ سرہوگیاہے ۔ہم لوگوں نے توپوراجشن مناڈالا۔میرے جذبات اس وقت کیاتھے کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔خدااس ملک کومزیدپھلنے پھولنے کاموقع دے اور لوگوں کوتوفیق دے کہ وہ اس پیاری دھرتی کواپنے ایمان،جذبے اورقوت سے نئی شکل دے سکیں۔”
یہ ایک سچے ادیب کے جذبات ہیں۔ذوالفقارعلی بھٹوکابنایامتفقہ آئین پاکستان کواب تک متحد رکھے ہوئے ہے ۔کتاب کاچوتھااورآخری حصہ”ادب کی راجدھانی ” ہے۔ جس میںادب،ادیبوں اورادبی سرکاری وغیرسرکاری تنظیموں کاذکرہے۔احمدندیم قاسمی سے پہلی ملاقات کے بارے میں واقعہ بیان کرتے ہیں۔” قاسمی صاحب میرانام سن کربہت خوش ہوئے جس پرمجھے خوشگوارحیرت ہوئی کیونکہ میں افسانے ضرور لکھتاتھامگربطورافسانہ نگارابھی گمنام تھا۔پھرمجھ سے پوچھاشیخوپورہ میں منشانام اتنا مقبول کیوں ہے؟ میں نے انھیں بتایاکہ ایک پنجابی شاعر مولوی عبدالستارکی وجہ سے ۔انھوں نے اپنی کتاب قصص المحسنین (داستان یوسف زلیخا) میںلکھاکہ حضرت یوسف کی دعاسے زلیخا پھر جوان ہوگئی تھی اورانھوں نے اس سے عقدکرلیاتھا۔اان سے ایک بیٹاپیداہواجوحضرت یوسف ہی کی طرح خوبصورت تھا۔اب کون ایسے ماں باپ ہوں گے جواپنے بچوں کانام خوبصورت لوگوں نے نام پرنہ رکھناچاہیں گے۔”
ممتازمفتی کی ایک شرارت کاذکرکچھ یوں کیا۔” ایک روزکہنے لگے مجھے آٹھ جدیدافسانے چن کردومیں پڑھ کردیکھوں۔میں نے ان کی خوا ہش پور ی کردی۔کچھ دنوں بعدانھوں نے اطلاع دی کہ جدیدافسانے پڑھ کربہت متاثرہواہوں اورمیں نے بھی ایک جدیدافسانہ لکھاہے ۔اسے حلقہ اربابِ ذوق میں پڑھوانے کاانتظام کرو اورسارے جدیدافسانہ نگاروں اورنقادوں کوبلاؤتاکہ مجھے اندازہ ہوکہ تجربہ کیسارہا۔ انھوں نے حلقے کی پرہجوم محفل میں اپنا پہلا اور آخری جدید افسانہ پڑھ کرسنایا۔حاضری نے دل کھول کرداددی۔اہل نقدونظرنے علائم ورموز کی مختلف پرتیں دریافت کیں اورایسی ایسی انوکھی توجیہات اورمطالب بیان کیے کہ ممتازمفتی کی باچھیں کھل گئیںمگرجب اہل حلقہ تعریف کر چکے تومجھ سے رہانہ گیااور میں نے بتایاکہ مفتی صاحب آپ سب سے ہاتھ کرگئے ہیں،
یہ افسانہ جس کی آپ سب اس قدرتعریف کررہے ہیں آٹھ دس افسانوں کے مختلف ٹکڑے جوڑ کربنایاگیاہے۔ایسی ہی شوخیاں،خوش طبعیاں انھیں اندرسے جوان رکھتی تھیں اورہم جیسے لوگوں کوبھی حوصلہ دیتی تھیں۔”
قدرت اللہ شہاب کے بارے میں قرة العین حیدرنے”کارِ جہاں دراز ہے” میں بہت کچھ لکھاہے لیکن ایک چھوٹے سے اقتباس سے ان دونوں مصنفین کی سوچ کافرق معلوم ہوجاتاہے۔” ہم لوگ شہاب صاحب سے ملنے گورنرجنرل ہاؤس گئے۔گورنرجنرل غلام محمد کاانتقال چند روزقبل ہواتھا۔شہاب صاحب ان کے سیکریٹری تھے۔موصوف میز پربیٹھے ایک مضمون لکھ رہے تھے۔فرمایا،’ آپ کومعلوم ہے کہ مرحوم ومغفورولی اللہ تھے۔میں نے ان کوجذب کے عالم میں دیکھاہے۔اپنے مضمون میں مرحوم کی شخصیت کے اسی پہلوپرروشنی ڈال رہاہوں۔”
منشایاد کاکہناہے ۔”شہاب صاحب ایک اچھے فکشن رائٹرتھے انھوں نے اپنی خودنوشت”شہاب نامہ” میں فراوانی سے فکشن اوردعائیں شامل کردیں جس سے وہ شایدولی اللہ توہوگئے ہوں گے مگرقرة العین حیدرایک بڑی ادیبہ ہی رہیں۔اب پتہ نہیںتخلیق کارہونے کے سبب ایک شاعراورادیب بڑا ہوتا ہے یاولی اللہ کیونکہ اگرزیادہ فرق ہوتاتوغالب اپنی بادہ خواری چھوڑ کرضرور درجہ ولایت پرمتمکن ہوجاتے۔مگر مجھے یقین ہے کہ قرة العین حیدراردوادب کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔”
مزاح نگارشاعرکے بارے میں منشایادلکھتے ہیں۔”سیدضمیرجعفری جب پاکستان نیشنل سینٹرکے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تھے، انھوں نے حلقہ ارباب ذوق اوردیگرادبی انجمنوں کے سینٹرمیں اجلاس پر پابندی لگوادی۔میں نے سخت احتجاج کیاتوکوئی تسلی بخش جواب نہ دیا۔میراخیال ہے یہ فیصلہ کہیں اوپرسے آیاتھااورضمیرجعفری صاحب جتنے اچھے شاعراورانسان تھے اتنے ہی تابعدارافسربھی تھے۔عید،بقرعید کے روز وہ محکمے کے سربراہ اوراپنے باس کے ہاں مبارکبادکہنے ضرور جاتے ۔ظاہرہے افسران بے حد خوش ہوتے اوران کی انا پھول کرکپاہوجاتی کہ ملک کااتنابڑا شاعران سے عیدملنے آیاہے۔ میں نے کئی بار کہاکہ ان افسران کی آپ کے مرتبے کے سامنے کچھ حیثیت نہیں مگووہ بات کومذاق میں ٹال دیتے۔”
افتخارعارف اوراحمدفرازکے حوالے سے ”بزم جہاں افسانہ ہے” میں واقعہ درج ہے۔” افتخارعارف جب اردومرکز،لندن میں تھے احمدفراز کی ان سے بہت دوستی اور قربت رہی مگران کے اسلام آبادآنے کے بعدفرازان سے ناراض رہنے لگے۔میں نے اس کا سبب پوچھاتوانھوں نے بتایاکہ اردومرکزمیں فیض صاحب آتے جاتے رہتے تھے اورافتخار عارف ان سے بہت عزت واحترام سے ملتے اوران کارویہ بہت مودبانہ ہوتاتھا۔لیکن ایک بار وہ انھیں اسی مودبانہ انداز سے ملے مگر باہر آکر کہنے لگے پتہ نہیں یہ بوڑھے کب تک ہماری گردنوں پرسوار رہیں گے۔مجھے یہ بات بہت ناگوارگزری کہ اگران کافیض صاحب کے بارے میں یہ رویہ ہے تودوسروں کے بارے میں ان کی غیر حاضری میں کیاکچھ نہ کہتے ہوں گے۔بس تب سے یہ یہ شخص میرے دل سے اترگیا۔”
محمدمنشایادمرحوم کی خودنوشت ”بزمِ جہاں افسانہ ہے”ایک بہت دلچسپ اورقابل مطالعہ کتاب ہے۔ جس میں ایک بڑے افسانہ وناول اور ڈرامہ نگارکے بچپن سے زندگی کے تمام مراحل کا تفصیلی ذکر ہے اورقاری کوایک ادیب کے ادیب بننے کے پورے دورکابخوبی علم ہوتاہے ۔ اس کے ساتھ بطور اوورسیئرانہوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تعمیر میں نمایاں کردارادا کیا اوراس کتاب میں اسلام آبادکے تعمیروترقی کااحوال جاننے کاموقع بھی ملتاہے۔ ہم عصرمصنفین کے اہم واقعات بھی انھوں نے تحریر کیے ہیں۔
اس خودنوشت کومرتب کرنے پرمنشایادشاعربھانجے خلیق الرحمٰن قارئین کے بھرپورشکریہ کے مستحق ہیں۔جنہوںنے ایک عمدہ آپ بیتی کومنشا یاد کے انتقال کے بعدگم ہونے سے بچالیا۔