کسی ڈوبتے کو ہاتھ بڑھا کر باہر نکالنا، مشکل میں پھنسے کو سہارا دینا، زندگی اور موت کی کشمکش میں گھرے انسان کی تپتی پیشانی پر محبت بھرا لمس رکھنا، یہی انسانیت اور دنیا میں آنے کا مقصد ہے، اگر ہم ایسا کچھ نہیں کرتے تو پھر زندگی بے معنی اور فضول ہے، جسے رب کے ہاں کوئی قبولیت نہیں ہے۔
یہ جذبات اور احساسات ایک ایسے شخص کے تھے، جسے بظاہر سماجی تعلقات بنانے والا جنونی کہا جاتا تھا، تصور رضا کا ظاہری رنگ روپ کےبالکل برعکس اندرنہایت اجلا اور صاف تھا، دوسروں کا دکھ ، درد کسی قسم کی تکلیف ہمیشہ مقدم رکھنے والا ابلاغ کی دنیا سے وابستہ رہا،ساتھیوں کے حقوق کے لئے سرگرم تصور رضاکی شخصیت کے کئی پہلو تھے، دیہی پس منظر کے باعث دیسی چیزوں اور رسوم سے متعلق معلومات کاذخیرہ رکھے، دوسروں کو کبھی اپنے مشوروں سےمحروم نہ رہنے دیتے۔
یہ بھی پڑھئے:
طاہر حنفی کی یرغمال خاک، داخلی اور خارجی فضا سے تشکیل پانے والا تخیل
بلوچستان انتخابی نتائج: جماعت اسلامی کی تاریخی کامیابی، چار سوالات تین چیلنجز
وہ چند راز جن کی وجہ سے عمران دھرنا دیے بغیر لوٹ گئے
تصور نے ملک کےسب سے بڑے اشاعتی ادارے میں زیادہ دیر فرائض انجام دیئے، جہاں صحافت سے متعلق سرگرمیوں کے علاوہ لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات اور گہرے رشتے بھی استوار کئے،جسے عام دوستوں کا دوست کہاجاتاہے۔ تعلیمی اہلیت روایتی ضرور تھی، لیکن ذہانت کا درجہ بڑا تھا، انسان کی نفسیات بہت خوب جان لیتے، واقعات اور قصے کہانیاں، گفت وشنید میں جلدآجاتے، جن کے نتیجےمیں اکثر کئی گتھیاں سلجھانےمیں بھی مدد مل جاتی۔
طنزومزاح کی حس بھی خوب تھی، دوست احباب تصور رضا کی صحبت میں کبھی اکتاہٹ محسوس نہ کرتے اور کچھ نہ سوجھ پاتا تو اپنامذاق ہی اڑا لینےمیں کوئی تاخیر نہ کرتے، بات چیت میں دوسرے کو قائل کرنے کیلئےدلائل ہمیشہ موجود ہوتے۔ کسی کا ساتھ دینا ہے، یا اس سے فاصلہ رکھناہے، دونوں صورتوں کے لئے بڑا موثر جواب ہوتا۔کھانےپینے کے معاملات زیربحث رہتے، علاج بالخوراک کی نصیحتیں ماحضر ہوتیں۔ کسی بھی شےکےکھانے کافائدہ اورنقصان بتائے بغیر نہ رہ پاتے۔
تصور رضا میں وضع داری بھری پڑی تھی، ہمیشہ کھلے دل کا مظاہرہ کیا، حس جمالیت بھی خوب تھی۔
“خوبرویوں سے یاریاں نہ گئیں، دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں”ـ کے مصداق جوانی کے قصے قریبی حلقے میں سنادیا کرتے۔ بظاہر کوئی گپ اور گھڑا واقعہ لگتا لیکن وہ تصدیق اور سچائی ثابت کرنے کیلئے قسم تک اٹھالیتے۔ پھر وہ سب کچھ مان لینا ہی بنتا۔
خبر کی دنیا سے متعلق واقعات اور اس سے وابستہ افراد کی کہانیاں بھی تصور کی آرکائیو میں موجود تھیں۔ ٹریڈ یونین اور سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے،ساتھیوں کےحقوق کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کیلئے تیاررہتے۔
بچوں خصوصاً بیٹیوں سے بہت محبت کرتے۔ ان کی تعلیم پر توجہ دیتے اور کامیابی کیلئے دعاگو رہتے۔ ان کی سرگرمیوں کو دوستوں کی محفل میں اکثر زیربحث لاتے۔ حکمران ہوں، یا اخبار مالکان کسی رعایت کے بغیر کارکنوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کر دیتے۔
خطابت کا فن بھی کسی سے کم نہ تھا۔ اس کےجوش شروع ہونے والی تقریر تھمنے کا نام نہ لیتی۔ احباب نے ہمیشہ ان کی باتوں میں کبھی بوریت محسوس نہ کی۔ وہ سنجیدگی کا تسلسل زیادہ برقرار نہ رکھتے،درمیان میں مزاح بھرے جملوں کا بھرپور استعمال کرکے مخاطب کی طبیعت میں تازگی کے تاثرات چھوڑ دیتے۔
تصور جس کے ساتھ بیٹھے خوبصورت یادیں چھوڑیں۔ کسی کے ساتھ چلےتو راستے کی دشواریاں آسان بنادیں اور اگر کسی کا ہاتھ تھاما پھر اسے بچھڑ جانے کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ دنیا سے رخصت کیا ہوئے، سب کو اداس کرگئے۔