بلوچستان انتخابی نتائج کے چار پہلو توجہ طلب ہیں:
1- آزاد نمائندوں کی بڑی تعداد میں کامیابی
2- جمیعت علمائے اسلام کے بعد باپ پارٹی کے نمائندوں کی بڑی تعداد میں کامیابی
3- سیاسی جماعت کی حیثیت سے جمعیت علمائے اسلام کا سب سے زیادہ نشستیں لے کر پہلی پوزیشن پر آنا۔
4-گوادر کی حق دو تحریک کے جھنڈے تلے جماعت اسلامی کے نمائندوں کی متاثر کن کامیابی
جمیعت علمائے اسلام بلوچستان میں ہمیشہ سے ایک بڑی سیاسی قوت رہی ہے۔ اس کی انتخابی قوت بھی ہمیشہ متاثر کن رہی ہے۔ اس لیے اس کا بلوچستان انتخابی نتائج کے بعد صوبے کی بڑی جماعت کی جماعت کی حیثیت سے ابھرنا اس کی کامیابیوں ہی کا تسلسل ہے۔
جمیعت کی اچھی کارکردگی اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر مالک اور مینگل صاحب کی قوم پرست جمہوری جماعتوں کی کارکردگی سے مایوسی کا پہلو جھلکتا ہے۔ جمیعت اور قوم پرست جماعتوں کے مقابلے میں آزاد نمائندوں کی اتنی بڑی تعداد میں کامیابی نے جمہوری سیاسی جماعتوں کی کامیابی کو گہنا دیا ہے۔ یہ صورت حال صوبے میں جمہوری استحکام کی خوش خبری نہیں دیتی۔ اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ جمیعت جیسی جماعتوں کی انفرادی کامیابی کے باوجود یہ نتائج اسٹیٹس کو یعنی غیر جمہوری جوڑ توڑ کی راہ ہموار کرے گی۔
یہ بھی پڑھئے:
کوئٹہ ڈیلویلمپنٹ محاذ کے قیام کی تجویز
وہ چند راز جن کی وجہ سے عمران دھرنا دیے بغیر لوٹ گئے
پاکستان کا دارالحکومت پاکستان سے باہر منتقل کرنے کی سازش
خوفناک آوازوں سے روح لرز اٹھی لیکن امرؤالقیس کی تلاش کا سفر جاری رہا
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ بلدیاتی انتخابات کا ماحول اور اس کی حرکیات قومی انتخابات سے مختلف ہوتی ہیں لیکن سیاسی بنیادوں پر کرانے جانے والے انتخابات کے ایسے نتائج بہرحال ایسے نتائج رکھتے ہیں۔
ان انتخابی نتائج کے سیاسی کیسے ہوں گے؟
اس سوال کا جواب کچھ ایسا پیچیدہ نہیں۔ اس تجزیے سے خیال اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی طرف جاتا ہے۔ پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کی سیاسی تاریخ کے پس منظر میں ایسا گمان جواز رکھتا ہے لیکن باپ پارٹی کی انتخابی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ ماضی جیسی کوئی مداخلت نہ ہوئی ہو۔ اگر یہ مفروضہ تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبے میں جمہوری سیاسی جماعتوں کی بنیاد ابھی کمزور ہے۔ جمیعت علمائے اسلام اور قوم پرست جمہوری سیاسی جماعتوں کو اپنی کمزوری کے اس پہلو پر توجہ دینی ہوگی تاکہ ان کی کامیابی میں مزید وسعت آ سکے۔
بلوچستان انتخابی نتائج کے مطابق حق دو تحریک یا بالفاظ دیگر جماعت اسلامی کی کامیابی متاثر کن ہے۔ 1985ء کے انتخابات میں اس جماعت پہلی بڑی کامیابی حاصل کی تھی جب مولانا عبد الحق بلوچ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اس کامیابی کے بعد جماعت صوبے سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پائے تھی۔ اب تقریباً 35 برس کے بعد گوادر میں اس جماعت کو نمایاں کامیابی ملی ہے۔
جماعت کی کامیابی کئی اعتبار سے توجہ طلب
پہلی اور نمایاں بات گوادر سے مولانا ہدایت الرحمان جیسی عوامی شخصیت کا ابھرنا ہے۔ مولانا ہدایت نے جماعت کے عمومی مزاج کے متوازی نہایت جارحانہ عوامی لب و لہجہ اختیار کیا۔ ان کی یہ جدوجہد بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے طرز عمل کے خلاف احتجاجی رویہ رکھتی تھی۔ گوادر میں جماعت کا یہ چہرہ قومی سطح پر جماعت کی پالیسی کے متوازی دکھائی دیتا ہے۔ ان کی یہ ادا عوام کو پسند آگئی۔ نتیجہ سامنے ہے۔
قاضی حسین احمد کا نسخہ
جماعت کی اس کامیابی کا یہ پہلو اس اعتبار سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ جماعت نے یہ کامیابی محض اپنے بل بوتے پر حاصل نہیں کی بلکہ اس کامیابی میں گوادر ان قوتوں کا بھی بڑا دخل ہے جو دیگر بڑی جماعتوں کی طرح ممکن ہے کہ کوئی بڑا پلیٹ فارم یا نامور قیادت نہ رکھتی ہوں لیکن علاقے کے مسائل کے حل کے سلسلے میں بہرحال متحرک رہی ہیں ۔ یوں یہ کامیابی ایک بڑے پلیٹ فارم کی کامیابی ہے جس میں جماعت اسلامی کو قائدانہ حیثیت حاصل ہے ۔
کوئی پسند کرے یا نہ کرے، یہ بالکل وہی نسخہ ہے جس کا تصور جماعت اسلامی کے دو قائدین قاضی احمد اور خرم مراد جیسی نامور شخصیات نے پیش کیا تھا۔ نوے کی دہائی میں یہ تصور پاکستان اسلامی فرنٹ کی صورت میں سامنے آیا لیکن مختلف عوامل کی وجہ سے کامیابی اس کا مقدر نہ بن سکی ۔ اب گوادر میں نسبتاً محدود پیمانے پر یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔
کیا مستقبل میں ملک کے دیگر حصوں یا قومی سطح پر یہ تجربہ دہرایا جاسکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب تین عوامل سے مشروط ہے۔
1- گوادر کے تجربے کی کامیابی۔ یعنی جماعت اور مقامی قوتوں کے درمیان اتحاد کا برقرار رہنا اور مولانا ہدایت کی قیادت میں بلدیاتی حکومت کی کارکردگی بلکہ کامیابی۔
2- گوادر جیسا کوئی تجربہ دہرانے کے لیے جماعت اسلامی کی مختلف سطحوں پر پالیسی اور اجنبی قوتوں کو برداشت کرنے کے لیے لچک
3_ جماعت اسلامی کی اس کامیابی پر تشویش محسوس کرنے والی قوتوں کا طرز عمل کہ وہ اس تجربے اور تجربے کی کامیابی کو برداشت کرنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتی ہیں یا نہیں۔
علاقائی تزویراتی منظر نامہ
گوادر میں حق دو تحریک اور جماعت اسلامی کی اس کامیابی کو ایک مختلف تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کی بعض قوم پرست سیاسی قوتیں اور ناراض بلوچ گوادر کے ترقیاتی عمل، پاک اقتصادی راہداری اور دیگر اسٹریٹجک سرگرمیوں کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔
یہ صورت حال ان ترقیاتی منصوبوں کے لیے زیادہ خوش گوار نہیں تھی۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی کا ابھرنا خوش گوار بھی ہے اور حیران کن بھی۔ یہ سیاسی پیش رفت کئی سوالات بھی پیدا کرتی ہے۔ آنے والے دنوں میں ان سوالات کے جوابات سامنے بتدریج آئیں گے۔
یہ سب سوالات اور تحفظات اپنی جگہ لیکن جماعت اسلامی اگر گوادر کے تجربے کو کامیاب کر لیتی ہے اور عوام کو مطمئن کرنے میں بھی کامیاب رہتی ہے تو یہ واقعہ بلوچستان میں ایک نئے دور سیاسی کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے ۔