وزیراعظم کے گذشتہ شب کے قوم سے خطاب میں ایک طرف تو احساس شکست کے آثار نمایاں اور دوسری طرف آخری گیند تک مقابلہ کرنے کا عزم ۔
سچّی بات ہے کہ بدقسمتی سے ان میں حکمت ، تدبر اور صلاحیت کی کمی ہے، اس کے ساتھ خوفناک حدتک ضد و خود پرستی کا مریض جو اپنی غلطیوں پر نظر ثانی شدید مجبوری کے بغیر کرنے کا قائل نہیں ہے (اسوقت تک خاصا نقصان پہنچ چُکا ہوتا ہے جس کی قیمت ملک و قوم ہی کو ادا کرنی ہوتی ہے)۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
ہمیں پُرانے و آزمائے ہوؤں کی ضرورت نہیں ہے،اس کے ساتھ ہی اس خود پرست، خود پسند اور سیکھنے کی صلاحیت سے محروم شخص کی بھی نہیں جس کے پاس ممکنہ طور اچھے ارادوں اور جذباتی طور پر خوش کن بھاشن کے علاوہ عملی طور پر قوم کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔
ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حکومت کا خاتمہ ہی ملک و قوم کے لیے بہتر لگتا ہے۔لیکن اس کے جانے کے بعد دوبارہ اسی Status Quo کی اور انہی پُرانے کھلاڑیوں جن سے بیزار ہو کر لوگوں کو عمران خان جیسوں کی طرف متوجہ ہونے کے ضرورت پیش آئی کے واپسی پر شدید دُکھ ہے۔
جہاں تک امریکہ کی دھمکیاں اس سارے معاملے میں ضمنی امر ہیں کہ بطور قوم ہمارا غصہ بڑی حدتک فطری امر ہے لیکن محض ان دہمکیوں پر مشتعل اور جذباتی ردعمل کے طور پر ایک نااہل کے ہاتھ میں وطن عزیز کی ناؤ کی پتوار دئیے رکھنا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔
کیا اس قوم کے 22 کروڑ لوگوں میں کوئی جوہر قابل نہیں بچا جوہمیں پُرانے آزمائے ہوئے یا غیر سنجیدہ ضدی و خود سر حکمرانوں کے درمیان ہی کسی کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ یادرہے یہ قوم اتنی بانجھ نہیں ہوئی ہے۔ اب بھی جوہر قابل موجود ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
انتخابی نشان: کوے بھیڑئے اور کتے کیوں نہیں؟
قوم سے خطاب میں عمران خان کی چار خوف ناک غلطیاں
کیا بھٹو اور عمران خان کے خلاف سازش ایک جیسی ہے؟
ویسے تو فوجی حکومتیں عموماً اپنی حکومتوں کو سولین چہرہ دینے کے لیے فرمانبردار و تعبدار کاٹھ کے پتلے تلاش کرتے ہیں ۔ جن میں چوہدری شجاعت جیسے جہاندیدہ سیاستدان بھی اور ظفر اللہ جمالی بھی تھے جو جنرل مشرف کو اپنا آقا (باس) کہتے تھے لیکن وہ کمال نَے نوازی ان کے کسی کام نہیں آیا۔
پھر بھی ایک شخص یاد آتا ہے جنرل ضیا نے ایک غیر معروف سیاستدان محمد خان جونیجو کو بے ضرر و ہومیوپیتھک قسم کا شخص سمجھ کر وزیر اعظم منتخب کروایا تھالیکن درحقیقت وہ گذشتہ پچاس سے میں پاکستان کا بہترین وزیراعظم ثابت ہوا اور اس نے ملک میں فوجی آمریت کے رسّی کوکمزور کرنے میں ناقابل فراموش کردار انجام دیا۔
آخر کار ان سے جان چھڑانے کے لئے جنرل ضیا کو اپنے اختیارات استعمال کرنا پڑا اگر ان کی آستین کے سانپ کا کردار میاں نواز شریف نے ان کی پیٹھ میں چھُری گھونپنے کا کردار ادا نہیں کرتے تو شاید آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی ۔
اسی طرح 2017 میں عدالتی نااہلی کے بعد مختصر عرصے کے لئے عارضی وزیراعظم کی ضرورت محسوس ہوئی تو نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی کو مستقبل کے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اسی طرح سیاسی طورپر کم وزن شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمی کے لئے نامزد کیا اور ان کا دس ماہ کا مختصر دورانیہ اقتدار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں جوہر قابل اب بھی موجود ہے۔ بس موقع ملنے کی دیر ہے۔
زرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی
لیکن اس مٹی کو یہ نمی کون فراہم کرے گا؟ کہ ہمارے ہاں قیادت بونوں کے ہاتھ میں ہے وہ جوہر قابل کو پنپ کر اپنے متبادل بنّے کاموقع فراہم کرنا اپنی موت سے بدتر سمجھتے ہیں۔
اتنا بڑا دل نہ عمران خان میں ہے اور نہ ہی شریفین میں۔۔ نہ تو نواز شریف یہ تصور کرسکتا ہے کہ وزارت عظمی چاہے عارضی طور پر سہی ان کے یا ان کی رضیہ سلطانہ عرف مریم نواز کے علاوہ خاندان میں بھی کسی اور کے ہاتھ میں جائے۔نہ جانے کس بھاری دل سے وہ شھباز شریف کی وزارت عظمی پر راضی ہو گئے ہیں لیکن ۔۔
یہ تو وہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے
عدالتی نااہلی کے بعد 2017 میں ابتدائی طور شھباز شریف ہی کو بطور وزیراعظم نامزد کیا گیا تھا لیکن پُراسرار طور پر ان کے نام کو شاہد خاقان عباسی کے نام سے تبدیل کردیا گیا۔ اب بھی تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے تک تو شھباز شریف ہی کا نام دیا گیا ہے۔۔ کون جانے کامیابی کے بعد پھر کوئی شاہد خاقان عباسی یا ایاز صادق سامنے آجائے ؟ لیکن اس صورت میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حزب اختلاف میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔
اسی طرح عمران خان بھی اس بات کا تصور ہی نہیں کرسکتے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں تحریک انصاف سے کسی جوہر قابل کو وزارت عظمی کے لئے نامزد کردے۔ کہ یہی تقریباً تمام ہی کمزور اور احساس عدم تحفظ کے شکار قائدین چاہے (سیاسی جماعت ہو یا کاروباری دنیا کے) کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے یا اپنے اہل خانہ کے علاوہ کسی اور کو اعلی ترین عہدے کے لیے نامزد کرنے کئ ہمت نہیں رکھتے۔
ضرورت اس بات کئ ہے کہ قائدین قوم ذات خاندان سے اوپر اُٹھ کر ملک و قوم کے مفاد کے لیے فیصلے کریں پر اس کی اُمید کم ہی ہے۔ پھر بھی میری عمران خان سے یہ التجا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں، حزب اختلاف کو واک اور دینے کی بجائے اپنی جماعت سے کسی بھی جوہر قابل کو وزیراعظم کے لئے نامزد کریں ۔
یہ ان کے مفاد میں بھی ہے کہ ان کی حکومت نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور بیرون ملک پاکستانی تاریکین وطن کے ووٹوں کے لیے قانون سازی کئ ہے اور قوی امکان ہے کہ آئندہ حکومت اس دونوں معاملات کو سردخانے کی نظر کردے گی (ان دونوں معاملات میں میرے بھی تحفظات ہیں)، جسے یہ آئندہ انتخابات کے لئے ہر صورت میں نافذ کرانا چاہتے ہیں۔
اہم ترین امر نومبر میں ہماری اسٹیبلشمنٹ میں ہونے والے اعلی ترین تبدیلئ ۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو پاکستانی سیاسی تاریخ کے تناظر میں کوئی بھی اپنے مخالف کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑنا چاہتا بلکہ درحقیقت اس وقت تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا اصل محرک ہی یہی ہے۔ یقیناً عمران خان کے لیے بھی اس معاملہ کی ڈور مخالفین کے ہاتھوں چھوڑنا مشکل ہوگا ۔
اس کے علاوہ جیسا بھی ہے احتساب بالخصوص شہباز شریف ودیگران کے مقدمات کو سرد خانے میں جانے سے روکنا بھی عمران خان و تحریک انصاف کے لئے اہم ترین ترجیح ہے۔
اب تک تو وزیر اعظم عمران خان کا دعوی یا للکار ہے کہ وہ اقتدار سے باہر مزید خطرناک ہو جائیں گے لیکن جنگ و محبت میں (دشمنوں کے ساتھ) بلف کھیلنا جائز ہے۔ لیکن ان تمام سنجیدہ معاملات جو کہ ان کی سیاست کے لئے زندگی و موت کا سوال بن سکتے اور ان کے اپنے مفاد کا تقاضہ ہے کہ حتی الامکان کوشش کی جائے کہ فی الوقت عمران خان نہ سہی کوئی عمران خان کا متعین کردہ فرد ایوان وزیر اعظم میں ممتکن ہو۔
حالانکہ ہمارے خان صاحب اپنی ضد کے لئے مشھور ہیں لیکن اس وقت بہتر ہے غیر اعلانیہ طور پر وزارت عظمی کی کرسی کے لئے اپنی جماعت سے متبادل تلاش کرنے پر غور کرنا شروع کردیں۔ جہاں تک مزید خطرناک ہونے کا اردہ۔۔۔ پہلے تو وزارت عظمی اپنی جماعت کے ہاتھ رکھنے کی کوشش کرلیں۔۔ اگر ناکام رہے تو خطرناک ہونے کے لیے بہت وقت باقی ہے۔ اس وقت تک۔۔۔۔
اک یوٹرن اور مری جاں ابھی کھیل باقی ہے