دوستو!!
ہم مرد و خواتین اور بچے و بوڑھے خوش قسمت ہیں کہ رمضان المبارک کے نیک لمحات ہمارے زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے نصیب ہوئے ہیں،
ہماری زندگیوں میں کتنے رمضان آئے اور گزر گئے لیکن ہر ماہ رمضان اپنی بے تحاشا رحمتوں اور برکتوں سے امت کے ہر فرد کو فیضیاب کرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ یہ انسانی ظرف پر ہے جو جس سے جسقدر ہو سکا ہے اتنی زیادہ اپنی جھولیاں بھرتا گیا ہے۔ اور عمل و فکر کے میکنزم تشکیل دینے میں کامیابیاں حاصل کرتا رہا ہے، مذہب بنیادی طور پر انسانی شخصیات کی تعمیر و تکمیل کے فریم ورک پر ہی کام کرتاہے،
یہ بھی دیکھے:
اسلام ایک انتہائی پریکٹیکل مذہب ہے۔جس کا ہر قانون ،ہر عبادت،ہر عمل انسان کی زندگی کے انفرادی یا اجتماعی پہلو کو بہتر کرتا ہے۔اگر آج ہم ترقی یافتہ مسلم قوم نہیں ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو پورا کا پورا نہیں اپنایا۔ اور نہ ہی زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے مطابق پالیسیاں و دانش مندی تشکیل دینے کی صلاحیت و ظرفیت کو ڈیویلپ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بس محدود ظرف سے کام لے کر جو آسان لگا اس کو اپنایا اور جو مشکل لگا اس کو چھوڑ دیا جیسے آج ہم تجارت تو کرتے ہیں لیکن سود کو چھوڑنا ناممکن بن چکا ہے ۔ ٹیکنالوجی بیس معاشرے میں خواتین اور نوجوانوں و بزرگوں کے مسائل زندگی اور اقدار و روایات کی باہمی ہم آہنگی اور تعمیری مباحث و دانش مندی کا ادراک کیسے ممکن ہے؟، انسانی عقل و شعور اور لمحہ موجود میں حکمت قرآنی و دانش مندی کا ادراک کیسے ممکن ہے؟ اسے
بیسویں صدی کے معروف مصنف و دانش ور ماہر قرآنیات و اقبالیات مرحوم ڈاکٹر محمد رفیع الدین کشمیری لکھتے ہیں کہ,,, اگر ہم خود مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو اسلام کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ قرآن حکیم کے اس علم سے جو مسلسل ترقی کررہا ہے اپنے آپ کو واقف رکھیں،،، یعنی قرآن علوم انسانی شکل و صورت میں مسلسل ترقی پذیر ہیں،
یہ بھی پڑھئے:
اک یوٹرن اور مری جاں ابھی کھیل باقی ہے
انتخابی نشان: کوے بھیڑئے اور کتے کیوں نہیں؟
قوم سے خطاب میں عمران خان کی چار خوف ناک غلطیاں
جبکہ نامور محقق و مدبر اور دانش ور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کہتے ہیں کہ,,, میرا مقدمہ یہ ہے کہ قرآنی استدلال سے انسان کو کیسے باور کرائیں کہ ماضی،حال اور مستقبل قرآن سے الگ نہیں ہیں،،,, سوال قرآن سے انسان اور انسانیت کے استفادے کا ہے،، ,,, مطالعہ قرآن کی نئی جہتوں کے تناظر میں یہ سوال بنیادی حیثیت رکھتا ہے،،،
اس پس منظر میں رمضان کریم اور قرآن کریم کے باہمی تعلق و فکری مکالمے کے سلسلے میں مفید اور تعمیری مباحث و ماحول کی تشکیل و تعبیر نو کیسے ممکن ہے؟ یہ سوال بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے جواب کے لئے ہمیں نئے پیراڈایم میں عمرانی و سماجی شعور اور ارتقاء و فکری مکالمے کے سلسلے میں رمضان المبارک کے نیک اور پاکیزہ لمحات کو بھرپور توانائی و دانش مندی سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری ماحول کا تحفظ ممکن ہو سکے اور افادیت و معنویت کا انعقاد ممکن ہوسکے،
قرآن کریم اور رمضان کریم کے باہمی تعلق و فکری ربط و دانش مندی کو سنجیدگی سے ایڈریس کرنے اور سمجھنے کی کوشش درکار ہیں مرحوم خرم مراد لکھتے ہیں کہ,,,
رمضان کا مبارک مہینہ ان عظیم نعمتوں میں سے ایک انتہائی عظیم نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو عنایت فرمائی ہے اس ماہ میں ہمیں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نعمت رسالت عطاء کی گئی_ اس ماہ میں قرآن مجید ہمیں عطاء کیا گیا جو ہدایت ہے،فرقان ہے، رحمت ہے،اور شفاء ہے_ ،،،
خرم مراد مرحوم لکھتے ہیں کہ,, سب دن اور سب مہینے ایک جیسے ہوتے ہیں یہ سب اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا_ لیکن بعض لمحات ایسے آتے ہیں جن کے ساتھ ساری انسانیت اور ساری کائنات کا مقدر وابستہ ہوجاتا ہے ایسا ہی لمحہ وہ تھا جب غار حرا میں ہدایت الہی کی پہلی کرن داخل ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے امین و حامل بنے _ اسی عظیم لمحے کا امین ہے رمضان المبارک کا مہینہ اور یہی ہے رمضان المبارک کی عظمت و برکت کا راز،،،
قرآن کریم میں رمضان المبارک کی عظمت و رفعت اور لمحہ موجود میں حکمت قرآنی و شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و روشنی میں تحقیق و جستجو اور تخلیق و تدبیر کے اصولوں پر مبنی معاشرے کے قیام و دانش مندی سے پہلے انسانوں سے پورے کے پورے خلوص اور فراخدلی و یکسوئی سے ذہنی و فکری اور عملی و ادبی طور پر اسلام میں داخل ہونے کی بات دلچسپ انداز میں پیش کی گئی ہے،
سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 208 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
“ایمان والو:اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاوَ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔” یعنی نظام زندگی صحیح ترتیب و تنظیم کے ساتھ نہ ہو تو فساد برپا ہوتا ہے اور شیطان و نفس کے راستے پر چل کر خرابیوں کی روک تھام ممکن نہیں ہوپاتا ہے،اسلام ایک منفرد اور قابل غور خصوصیات کا حامل مذہب ہے۔یہ ہر لمحہ انسان کو دعوت تحقیق،غور،فکر اور علم دیتا ہے۔تاکہ انسان اپنی ذات کی گہرائیوں کا سفر طے کرتے ہوئے اپنے خالق کی حکمتوں کو دریافت کرتا ہوا انسانیت کی وہ معراج حاصل کرے جو عبادات کا مقصود ہیں۔کاملیت کا وجود ذات باری تعالی کے سوا کسی میں ممکن نہیں ہےلیکن آج کا انسان ترقی کی بے انتہا بلندیوں کو پاچکا ہے اور مزید کی جستجو میں گامزن ہے۔خلا کے دروازے کھولے جا رہے ہیں،بیماریوں کے علاج میں سائنس بہت آگے جا چکی ہے،معاشی پالیسیاں ہر لمحے نئی جہتیں اختیار کر رہی ہیں،سیاست میں یکے بعد دیگرے نئے نظام وجود میں لائے جاتے رہے ہیں غرض انسان کی زندگی مسلسل تغیر پذیری کے عمل کا شکار ہے۔اور اس تمام نئے پن کے باوجود اگر کچھ نہیں بدلا تو اسلامی عبادات کے طریقے۔وہ آج بھی وہی ہیں جو آج سے چودہ سو برس پہلے تھے۔رمضان کی برکتیں سمیٹنے کے ساتھ یہ مہینہ خصوصی طور پر غور و فکر کی دعوت کا بھی ہے سوالات کا اٹھایا جانا جوابات کی تلاش کرنا اور ڈھونڈنے کی جہد مسلسل میں رہنا ضروری ہے۔مذہب محض اطاعت و فرمانبرداری کا نام نہیں ہے کیونکہ زمانہ ازل سے جب بھی مذہب مقصدیت سے دور ہوئے تو مٹا دیئے گئے لیکن یہ الہامی مذہب انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو مربوط بنا کر دور حاضر کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رمضان المبارک کی مقصدیت و فکری مکالمے کے سلسلے میں رمضان کریم میں معنویت اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تعبیر نو بہت اہمیت کی حامل ہے اس لئے اس فکری مکالمے اور علمی و تحقیقی انداز تحقیق و جستجو میں ممکنہ طور پر لمحہ موجود میں نئے ابھرنے والے سوالات کے جوابات فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، رمضان المبارک کے نیک لمحات کی بھرپور منصوبہ بندی ہر لمحہ اور ہر قدم بہترین سرمایہ کاری کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے، آپ عمر کے جس حصے میں ہے جو مصروفیات رکھتے ہیں اور جو بھی پروفیشن اختیار کئے ہوئے ہیں رمضان المبارک کے نیک لمحات میں ذہنی و فکری اور عملی و تحقیقی مکالمے و دانش مندی کی آرزو مندی کے لئے مجلس فکر و دانش اور ادارہ حکمت قرآنی و سائنٹفک اسٹڈیز کے خدمات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔