فون تک میں سما گئی یہ دھند
شام ڈھلتے ہی چھا گئی یہ دھند بیس بندوں کو کھا گئی یہ دھند کر دیا بند سب کی آنکھوں...
عرفان صدیقی استاد ہیں، ادیب ہیں، شاعر یا کالم نگار؟ یہ بحث اب پرانی ہوئی۔ قدرت نے انھیں یہ سب خوبیاں عطیہ کی ہیں لیکن ایک انعام اس سے بھی بڑا ہے۔ ہمارے یہاں ادیب اور شاعر حضرات اپنے سیاسی نظریات چھپاتے ہیں لیکن عرفان صاحب نے ان مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر اپنی سیاسی شناخت کو اجاگر کرنے میں بھی کسی عذر سے کام نہیں لیا۔ یہ طرز عمل ہمارے ان بزرگوں کی پیروی میں تھا جنھوں نے قلم و قرطاس سے بھی اپنا تعلق رکھا اور اپنی آدرشوں کے لیے جدوجہد کے لیے سیاسی راستہ بھی اختیار کیا۔ عرفاں صاحب ہماری اسی تہذیب کی زندہ نشانی ہیں۔
شام ڈھلتے ہی چھا گئی یہ دھند بیس بندوں کو کھا گئی یہ دھند کر دیا بند سب کی آنکھوں...
لاہور سے ایک دوست کا فون آیا۔ اس کی آواز میں ارتعاش تھا۔ ''رؤف طاہر کا انتقال ہو گیا۔‘‘ اندر...
اک سلسلہ بارشِ بے نم عجیب تھا اُس شہر کم نصیب کا موسم عجیب تھا میرا ہے یا سپاہ عدو...
نہ اپنے بل پہ نہ جمہور کے جنوں کے طفیل وہ اس مقام پہ پہنچا ہے معجزوں کے طفیل براجمان...
حضرت عرفان صدیقی ان دنوں آمد کی کیفیت میں ہیں اور ایسا شعر کہہ رہے ہیں جو روایت کی بو...
بہادر شاہ ظفر رنگون میں قید ہوئے تو ان کی شاعری میں وہ کیفیت پیدا ہو گئی، ادب میں جسے...
© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions
© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions