حضرت عرفان صدیقی ان دنوں آمد کی کیفیت میں ہیں اور ایسا شعر کہہ رہے ہیں جو روایت کی بو باس رکھنے کے با وجود ماجرائے اہل کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ ہڈ بیتی از خود جگ بیتی بن جاتی ہے۔ بڑی شاعری کی خوبی بھی یہی ہے کہ وہ عاشق زار کا نالہ دل ہونے کے باوجود فریاد زمانہ بن جائے۔ عرفان صدیقی کی آج کی تازہ غزل اسی درد کے تجربے سے اٹھ خلق کے تجربے میں ڈھلتی دکھائی دیتی ہے۔ عرفان صدیقی کی یہ غزل پڑھئے اور اساتذہ کے رنگ میں رنگے ہونے کے با وجود نئے الفاظ اور نئے آہنگ کا لطف اٹھائے۔ ان کا تازہ کلام دکھے ہوئے دل کی پکار تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ اس دور کے نئے شاعر کے لیے استاد کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ نوجوان ان کے کلام سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ فن کو متاثر کیے بغیر وہ باتیں کیسے کہی جاسکتی ہیں جن کے کہنے پر قدغن ہے۔
٭٭٭٭٭٭
زیست ہم فقیروں کی یوں گزرتی رہتی ہے
دل دھڑکتا رہتا ہے سانس چلتی رہتی ہے
کیا عجیب رشتہ ہے موسموں سے یادوں کا
برف پڑتی رہتی ہے آگ جلتی رہتی ہے
چاند میری چھت پر ہے اور چاندنی جانے
کون سے خلاؤں میں رقص کرتی رہتی ہے
شام اک دیا لے کر رات کے جھروکوں سے
دور جانے والوں کی راہ تکتی رہتی ہے
شاید ایک دو دن کی زندگی بھی مل جائے
بس اسی بھروسے پر عمر کٹتی رہتی ہے
اب کسی قیامت کی دھمکیوں سے کیا ڈرنا
روز آتی رہتی ہے روز ٹلتی رہتی ہے
میرے اہل دانش کی سادگی و پرکاری
دھوپ چھاؤں کی صورت رخ بدلتی رہتی ہے
کیا عذاب پیہم ہے ایک جیسا موسم بھی
جانے کن جزیروں میں رت بدلتی رہتی ہے
پیچ و تاب کھاتی ہیں ظلمتیں بہت لیکن
رات کے نشیمن میں صبح پلتی رہتی ہے
گو کچھ بجھا تو دیتی ہے کچھ دیے رعونت سے
اور پھر ہوا برسوں ہاتھ ملتی رہتی ہے
دست زور ور کو بھی کچھ خبر نہیں ہوتی
ریت بند مٹھی سے یوں سرکتی رہتی ہے