نہ اپنے بل پہ نہ جمہور کے جنوں کے طفیل
وہ اس مقام پہ پہنچا ہے معجزوں کے طفیل
براجمان تو ہے تختِ بادشاہی پر
اِک اور شاہِ معظم کی بخششوں کے طفیل
بزعمِ خویش سہی رستمِ زماں لیکن
خبر ہے سب کو کہ جعلی مقابلوں کے طفیل
ہزار کوشش پیہم سے چل نہیں پائی
دکان کھل تو گئی تھی مربیوں کے طفیل
چھپائے چھپ نہیں سکتی برہنگی ہرگز
معاونین کی پیوند کاریوں کے طفیل
بہت عزیز ہے انصاف کا چلن اس کو
جزا سزا ہو مگر اپنے قاضیوں کے طفیل
جو نام ور کسی کرتب سے ہو بھی جاتے ہیں
مقام ور نہیں ہوتے مداریوں کے طفیل
شکستہ پا سا پڑا ہے خود اپنی چوکھٹ پر
وہ دیوتا کہ بنا تھا کہانیوں کے طفیل
قصیدہ خوانیِ ابنائے وقت اپنی جگہ
دلوں میں گھر نہیں بنتے سخن وروں کے طفیل
یہ ناتواں سا پرندہ، بھرے تو کیسے بھرے
اڑان، وہ بھی کسی اور کے پروں کے طفیل
بھرم تو ٹوٹ ہی جاتا ہے ایک دن آخر
بنی رہے بھی تو کب تک طفیلیوں کے طفیل