اک سلسلہ بارشِ بے نم عجیب تھا
اُس شہر کم نصیب کا موسم عجیب تھا
میرا ہے یا سپاہ عدو کا خبر نہ تھی
ہر لشکری کے ہاتھ میں پرچم عجیب تھا
ہر بار قتل گاہ میں پایا گیا ہے وہ
ہر بار اس کا گریہ و ماتم عجیب تھا
تیغ ستم کی دھار بہت تیز تھی مگر
نوک قلم کی کاٹ کا دم خم عجیب تھا
جنت بدر ہوا تو مسلسل سفر میں ہے
ذوقِ برہنہ پائیِ آدم عجیب تھا
ترک تعلقات کی جلدی بھی تھی اسے
پھر جب ملا تو دیدہ پرنم عجیب تھا
گہرا تھا زخم ہی کہ وہ ناسور بن گیا
یا اُس نمکِ سرشت کا مرہم عجیب تھا
کچھ بات تھی ضرور کہ آج اس کی بات کا
ہر لفظ اور لہجہءِ مبہم عجیب تھا
وحشت زدہ سا ایک جزیرہ لگا مجھے
اب کے گیا تو شہر کا عالم عیجب تھا