8 جولائی 2016 کو چھ دہائیوں تک دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والے فقیر منش اور درویش صفت انسان عبدالستار ایدھی کراچی میں وفات پاگئے۔ ان کے انتقال کی خبر نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔ عبدالستار ایدھی 28 فروری 1928 کو ریاست جوناگڑھ کے شہر بانٹوا میں ایک میمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ ان کی والدہ انہیں روزانہ ایک پیسہ اپنے لئے اور ایک پیسہ کسی غریب بچے کے لیے دیتی تھیں۔ والدہ فالج کا شکار ہوئیں اورآٹھ سال تک اسی حالت میں رہنے کے بعد وفات پا گئیں۔
یہ بھی دیکھئے:
ان کی تیمارداری کے دوران ہی ان کو دکھی انسانیت کی خدمت کا خیال آیا۔ انیس سو سینتالیس میں میں قیام پاکستان م کے بعد عبدالستار ایدھی کراچی آ گئے۔ انیس سو اکیاون میں انہوں نے کراچی کے علاقے کھارادر میں ایک ڈسپنسری قائم کی اور یوں ان کی عظیم سماجی خدمات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ وہ مذہب، فرقے، رنگ و نسل اور ادنیٰ و اعلی کی تفریق کے بغیر سب کی خدمت کے لیے ہمہ وقت مگن رہتے تھے۔وہ سڑکوں پر بیٹھ کر اور گلیوں میں در در جاکر چندہ اکٹھا کرتے اور ملنے والی رقم انسانیت کی خدمت میں لگا دیتے۔ انھوں نے میٹرنٹی وارڈ، مردہ خانے یتیم خانے، شیلٹر ہوم اور اور اولڈ ہوم بھی بنائے۔ وہ لاوارث اور تعفن زدہ میتوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دیا کرتے تھے۔
ملک کے چاروں صوبوں میں ان کی ایمبولینس سروس، لاوارث بچوں اور بزرگ افراد کے لیے مراکز اور منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے مراکز قائم ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران ریاض خان کی گرفتاری کیوں ضروری تھی؟
پاکستانی ادب کا ترک معمار، ڈاکٹر خلیل طوقار
ملک بھر میں جہاں بھی کوئی آفت آئے یا دہشت گردی ہو، ان کی گاڑیاں اور عملہ سب سے پہلے وہاں پہنچتے ہیں۔عبدالستار ایدھی کو انسانیت کی بے لوث خدمت پر بے شمار ملکی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔ انیس سو اسی میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز عطا کیا اور انیس سو بانوے میں افواج پاکستان کی جانب سے انھیں شیلڈ آف آنر پیش کی گئی۔ اسی برس انہیں سوشل ورکر آف داسب کانٹی نینٹ کا اعزاز دیا انیس سو چھیاسی میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن کا رومن Magsaysay ایوارڈ دیا گیا۔ انیس سو اٹھاسی میں انہیں لینن امن انعام سے نوازا گیا۔
2005ء اٹلی کی حکومت کے علاؤہ کئی ملکوں اور عالمی تنظیموں کی طرف سے انھیں اعزازات سے نوازا گیا۔ ایوارڈ ہارڈ کے علاوہ وہ بہت سے سے اعزازات نعت عطا کئے گئے گئے کو کو دو ہزار آٹھ میں آئی بی اے کی طرف سے سے انھیں پی ایچ ڈی کی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی۔ پاکستان کا ہر فرد جاتا تھا تھا کہ امن کے لیے بے لوث صفات پر پر انہیں نوبل انعام سے سے نوازا جائے ۔ اس لیے لیے کئی مرتبہ باقاعدہ تحریک بھی چلائی گئی تاہم انہیں یہ انعام نہیں دیا گیا۔
ایدھی صاحب نے اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے لیے ساری زندگی سادگی اپنائے رکھی۔اسی وجہ سے وہ بابائے خدمت کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کے گردے ناکارہ ہو گئے تھے ڈاکٹروں کے مطابق عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کے گردے تبدیل نہیں کیے جا سکتے تھے۔ وہ وہ تب سے ایس آئی یو ٹی میں میں زیر علاج تھے 8جولائی 2016 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کی آنکھیں عطیہ کر دی گئیں۔
ان کے انتقال کے خبر نشر ہوتے ہی پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا اور حکومت پاکستان نے ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا اس موقع پر قومی پرچم بھی سرنگوں رہا۔ ان کی تدفین پورے قومی اعزاز کے ساتھ انجام دی گئی۔ان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین انہی کپڑوں میں کی گئی جو انہوں نے پہن رکھے تھے ۔ انھوں نے اپنی قبر بھی 25 برس پہلے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کی تھی۔