پاکستان کی قومی قیادت اور جناب وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے لئے اطلاع ثانی ہے کہ کوئٹہ و بلوچستان دل گرفتہ ہے۔ تین دن پہلے اسلام آباد/ پنڈی سے آنے والی مسافر بس کھائی میں جا گری۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درازندہ میں کوئی پرسان حال نہیں ہے دو درجن سے زائد انسان لقمہ اجل بنے جس میں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے نصفِ درجن طلبہ بھی شامل تھے۔
ایک صوبے کے ڈپٹی کمشنر نے دوسرے صوبے کے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھا اور کمشنر ژوب ڈویژن نے سیکٹری ٹرانسپورٹ کو خط لکھا بس یہی انسانی زندگی کی قیمت ہے کیا؟
یہ بھی دیکھئے:
کیا ممکن نہیں ہے کہ اسلام آباد یا ہر شہر سے نکلنے والے بسوں کے لئے قانونی و آئینی تقاضے پورے کئے جائیں رات کو سفر پر پابندی عائد کردی جائے۔ منشیات کا دھندا جاری رہنے سے انسانیت شرمندہ ہوتی ہے بار بار_
ھائی ویز اور دیگر پولیس آفیسران و عملہ فعال ہو جائے تو ممکن ہے بے گناہ اور معصوم نوجوانوں کی زندگیوں کی حفاظت ممکن ہو سکے۔ لورالائی سے گزرنے والی خوبصورت شاہراہِ جو ملتان و کوئٹہ کو ملاتی ہے ممکن ہے کہ کوئٹہ سے خانوزئی رود ملازئی اسپرہ راغہ روڈ لورالائی سے میختر رکنی فورٹ منرو ڈیرہ غازی خان و ملتان تک موٹر وے بنایا جائے تو علاقے کے عوام و کاروبار کی پہنچ پنجاب و سندھ اور خیبرپختونخوا تک رسائی حاصل کرنا ممکن ہے اور بہت ہی آسان تر_
آخری بات صوبائی دارالخلافہ کوئٹہ میں آٹھ ماہ کے بعد زبردست بارش ہوئی جس میں ناقص اپروچ اختیار کرنے اور نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے برعکس کوئٹہ میں صوبائی حکومت کے کارندے عوام کے لئے رحمت و برکت اور انصاف و ترقی کی راہ ہموار کرنے کے بجائے وسائل کی ضیاع اور صلاحیتوں کے فقدان کا سامنا رہتا ہے۔
جناب وزیراعظم !
آپ یقین کریں کہ بلوچستان میں اتنی نا اہل حکمران ٹولہ کبھی مسلط نہیں رہا جس طرح جام کمال خان صاحب رہے یا آج قدوس خان بزنجو موجود ہیں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ باران رحمت زحمت بنی سریاب کے مکینوں کے لئے۔ ہم بار بار آپ سے پوچھتے ہیں کہ ترقیاتی اپروچ اختیار کئے بغیر تعبیر نو ممکن نہیں ہے سرباب اور کوئٹہ کے نصف درجن سے زائد علاقوں میں مشتمل میونسپل کمیٹیاں قائم کردی جائیں۔
یہ بھی پڑھئے:
آٹھ جولائی: بے گور و کفن لاشیں سنبھالنے والے عبدالستار ایدھی کی آج برسی ہے
عمران ریاض خان کی گرفتاری کیوں ضروری تھی؟
انھیں ضروری بلدیاتی اختیارات منتقل کئے جائیں یہ وہ وقت ہے جب عملاً مواقع استعمال کیا جائے اور اجتماعی مفادات کے تحفظ و کامیابی کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اختیار کئے ہوئے مشکل ترین صورتحال پر تبادلہ خیال اور عوامی کمیٹیاں ورکنگ گروپس تشکیل دئیے جا سکتے ہیں، مجلس فکر و دانش ( علمی و فکری مکالمہ) ، کوئیٹہ ڈولیپمنٹ محاذ کیو ڈی ایم، کے پلیٹ فارم سے اجتماعی ترقی و خوشحالی کے لئے نئے عمرانی ارتقاء و سماجی شعور کی بیداری و دانش مندی لمحہ موجود کی سب سے اولین ذمہ داری اور دانش مندی ہیں پاکستانی اشرافیہ و مقتدرہ کے لئے پیغام بیداری و دانش مندی ہیں ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں _
ہماری جدوجھد و جستجو اور تخلیق و تدبیر کی مجموعی آواز کو نہیں سمجھنے والے پاکستانی اشرافیہ و مقتدرہ اور قومی سیاست دانوں کے لئے کراچی کے ایک معزز بہن کی موثر و دانش مندانہ آواز و سفارشات پیش کرتے ہیں ،جب صوبائی و مرکزی حکومتی ادارےاور وزراء کرام و لیڈران کرام خاموش ہیں ،،
تو کراچی کے ادیبہ اور دانشورہ کی توانا آواز سماعت فرمائیں!!!
مون سون اور بلوچستان کے دگرگوں حالات- مجھے ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان کی والی وارث خود وہاں کی صوبائی حکومت بھی نہیں۔
تین دن کی بارشوں میں بلوچستان ڈوب چکا ہے، حادثات کا آغاز ایک بس کے پھسلن کی وجہ سے کھائی میں گر جا نے کے خوفناک واقعہ سے ہوا جس میں بقرعید کی چھٹیوں میں پنڈی اسلام آباد سے کوئٹہ جانے والے کم ازکم چھ طلبہ سمیت 19 افراد شہید ہو گئے جن میں سے ایک کا تعلق القادر یونیورسٹی اور 5 کا تعلق اسلامک یونیورسٹی سے تھا۔ یہ بہت بڑا قومی سانحہ تھا جو خاموشی سے گزر گیا ۔؟؟؟
اب مون سون نے جو تباہی مچائی ہوئی ہے وہ تو سب کو نظر آ رہی ہے لیکن وفاقی حکومت ہو کہ صوبائی انہیں اپنے
اقتداری مسائل سے ہی فرصت نہیں۔ انہیں اس سے کیا کہ بلوچستان کی مختلف آبادیوں میں 18 افراد ( پی ڈی ایم اے بلوچستان کے 06 جولائی کی شام تک رپورٹ میں 39) اس مون سون کا شکار ہو گئے ۔ ۔سینکڑوں کچے مکانات ڈھے گئے۔ رابطہ سڑکیں بہہ گئیں اور پورا صوبہ ایک نوجوان اجڑی بیوہ کی مثال بن گیا ہے ۔
رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا صوبہ معدنیات کے ذخائر کے اعتبار سے
پاکستان کا سب سے مالا مال صوبہ اپنے انفرا اسٹرکچر کے اعتبار سے کسی پسماندہ گاوں جیسا ہے۔ چند سال قبل جب میں خضدار، کوئٹہ اور زیارت وغیرہ بذریعہ کار گئی تھی، تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کسی گاوں میں آ گئے ہیں۔
کثرت سے کچے مکانات ہیں۔ پختہ مکانات صرف شہر میں ہیں ۔ یہاں اب بھی قبائلی نظام کی جڑیں مضبوط ہیں،معاشی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔
آبادیاں بکھری ہوئی اور دور دور ہیں۔ ان کے درمیان مواصلاتی سہولیات بھی غیر معیاری اور ضرورت کے مطابق نہیں۔
لہذا کسی بھی آفت سماوی یا ارضی کی صورت میں یہ آبادیاں ایک دوسرے سے کٹ جاتی ہیں ۔
ہر حکومت کو خواہ صوبائی ہو یا وفاقی، ان حالات کا علم ہے، پھر بھی بلوچستان کو ترقی کی دوڑ میں پاکستان کے دیگر صوبوں کے برابر لانے کی کوشش نہیں کی جاتی، اس میں مقامی سرداروں کا بھی کردار ہے۔