Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج جناب صہبا اختر کی برسی ہے۔ صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا اور وہ 30 ستمبر 1931ءکو جموں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد منشی رحمت علی، آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے اور اپنے زمانے کے ممتاز ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔
یہ بھی پڑھئے:
سترہ فروری: آج اردو کے عظیم محقق حافظ محمود شیرانی کا یوم وفات ہے
سترہ فروری: نامور شاعر شبنم رومانی کی آج برسی ہے
ریڈیو کا عالمی دن اور ہمارا ریڈیو
پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں ملازمت اختیار کی اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت ، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔
صہبا اختر 19 فروری 1996ءکو کراچی میں وفات پاگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
آج جناب صہبا اختر کی برسی ہے۔ صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا اور وہ 30 ستمبر 1931ءکو جموں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد منشی رحمت علی، آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے اور اپنے زمانے کے ممتاز ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔
یہ بھی پڑھئے:
سترہ فروری: آج اردو کے عظیم محقق حافظ محمود شیرانی کا یوم وفات ہے
سترہ فروری: نامور شاعر شبنم رومانی کی آج برسی ہے
ریڈیو کا عالمی دن اور ہمارا ریڈیو
پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں ملازمت اختیار کی اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت ، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔
صہبا اختر 19 فروری 1996ءکو کراچی میں وفات پاگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
آج جناب صہبا اختر کی برسی ہے۔ صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا اور وہ 30 ستمبر 1931ءکو جموں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد منشی رحمت علی، آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے اور اپنے زمانے کے ممتاز ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔
یہ بھی پڑھئے:
سترہ فروری: آج اردو کے عظیم محقق حافظ محمود شیرانی کا یوم وفات ہے
سترہ فروری: نامور شاعر شبنم رومانی کی آج برسی ہے
ریڈیو کا عالمی دن اور ہمارا ریڈیو
پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں ملازمت اختیار کی اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت ، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔
صہبا اختر 19 فروری 1996ءکو کراچی میں وفات پاگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
آج جناب صہبا اختر کی برسی ہے۔ صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا اور وہ 30 ستمبر 1931ءکو جموں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد منشی رحمت علی، آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے اور اپنے زمانے کے ممتاز ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔
یہ بھی پڑھئے:
سترہ فروری: آج اردو کے عظیم محقق حافظ محمود شیرانی کا یوم وفات ہے
سترہ فروری: نامور شاعر شبنم رومانی کی آج برسی ہے
ریڈیو کا عالمی دن اور ہمارا ریڈیو
پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں ملازمت اختیار کی اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت ، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔
صہبا اختر 19 فروری 1996ءکو کراچی میں وفات پاگئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ حکومت پاکستان نے انہیں ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔