آج میں 13 فروری “ریڈیو کے عالمی دن” کے حوالے سے کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں تو میرے سامنے اپنے بچپن کی تصویر آ گئی ہے جب کرکٹ کے شیدائی آصف اقبال، وسیم حسن راجا، ماجد خان اور کرکٹ کی دنیا میں نئے وارد ہونے والے جاوید میاں داد کے کھیل سے ریڈیو کمنٹری کے ذریعے لطف اندوز ہوتے تھے۔ حسن جلیل اورچشتی مجاہد جیسے کمنٹیٹر اپنی کمنٹری کے ذریعے کھیل کا ایسا منظر پیش کرتے تھے کہ محسوس ہوتا تھا سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب نظام دین، مہر صاحب اور اطہر شاہ خان جیدی جیسے لوگ عوام کے دلوں کی دھڑکن اور ریڈیو کی جان ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے میں صرف پندرہ منٹ کا پروگرام ” پنجابی دربار” جو شام سات پنتالیس سے آٹھ بجے تک ہوتا تھا سننے کے لئے مقررہ وقت سے دس منٹ قبل ہی ریڈیو کھول کر بیٹھا ہوتا تھا ۔فوجی بھائیوں کا پروگرام اور زمینداروں کا پروگرام “جتھے تیرے ہل وگدے ‘بہت مقبول پروگرام ہوا کرتے تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے جب ہر جگہ ٹی وی پہنچا تو دوسری طرف ایف ایم ریڈیو کا دور شروع ہوگیا ۔ایف ایم ریڈیو ایک کمرشل ریڈیو تھا ۔جن لوگوں نے لاکھوں لگائے کروڑوں کمانے کے چکر میں تھے۔ اس لیے براڈکاسٹنگ کا وہ معیار نہ رہا جو ہونا چاہیے تھا وہ لوگ بھی پروگرام کرنے لگے جن کے پاس نہ ذخیرہ الفاظ تھا نہ ہی تلفظ کی ادائیگی مگر وہ ایف ایم ریڈیو کو بزنس دے رہے تھے ،کماؤ پتر تھے تو سب چلتا تھا۔ اس کے برعکس مجھے ریڈیو پاکستان پر دو مرتبہ انٹرویو کے لئے جانے کا اتفاق ہوا ایک مرتبہ روبی امتیاز میزبان تھی اور دوسری بار مسعود ملہی ۔
یہ بھی دیکھئے:
ویلنٹائن ڈے: محبت اور حیا میں فاصلہ کیسا؟
تیرہ فروری: اس عہد کے سب سے بڑے شاعر فیض احمد فیض کی آج سالگرہ ہے
مرد عورت ، ذہانت و معاشرتی ترقی
میں حیران تھا کہ یہ لوگ کتنی نرول قسم کی زبان بول رہے تھے اور کتنی جاندار ادائیگی اور تلفظ تھا۔ مگر افسوس کہ ایف ایم ریڈیو کا بڑھتا ہوا رجحان ریڈیو پاکستان جیسے اہم ادارے کی تباہی کا سبب بن گیا لوگ سستی اور غیر معیاری تفریح کی طرف متوجہ ہوئے ۔جگت بازی نے سنجیدگی کی جگہ لے لی اور یوں ایک وقت آیا کہ حکومت جو اپنے حاخراجات پورے کرنے کے لیے ہر اس ادارے کو فروخت کرنے کا سوچنے لگی جہاں سے کچھ ملنے کی توقع تھی تو ایسے میں ریڈیو پاکستان کو بھی پرائیویٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ۔لوگ عدالتوں میں گئے، وعدے وعید، کمیٹیاں، میٹنگیں اور مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا، چل رہا ہے مگر ریڈیو کا معیار وہ نہیں رہا جو تھا۔
کسی بھی دن کے منانے کا مقصد صرف نعرے لگانا نہیں ہوتا بلکہ اس کے منانے کا مقصد پچھلے برس ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں پر نظر ثانی کر کے بہتری کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو آئیے آج ہم آج کے دن یہ عہد کرتے ہیں بلکہ ہم حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ جتنا زورحکومت مخالف بیانیہ کو روکنے پر لگا رہی ہے، اتنا زور ریڈیو کے معیار کو بہتر بنانے پر لگائے ۔محترمی راجا نیر سے انٹرویو کا وعدہ کر رکھا ہے فرصت ملتی ہے تو وہاں بھی اس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کروں گا کہ حکومت صرف لائسنس فیس کی بڑی بڑی رقمیں وصول کرنے کی طرف توجہ نہ دے بلکہ ریڈیو کے معیار کی طرف بھی توجہ دے۔ کسی بھی پروگرام کے میزبان کی تعلیمی قابلیت بہت کم ازکم ماسٹر ڈگری ہونی چاہیے۔ لمبی لمبی کمرشل بریکوں پر قابو پایا جائے اور سرکاری سطح پر ایک شیڈول بنا کر تمام ایف ایم ریڈیوز کو دیا جائے کہ اتنے گھنٹے مذہبی پروگرام، اتنے گھنٹےسیاسی پروگرام، اتنے ثقافتی شو اور اتنے تفریحی پروگرام ہوں گے۔ دوسری جانب ریڈیو پاکستان جیسے ادارے کی سرپرستی کرتے ہوئے اسے اونے پونے بیچنے کی بجائے اس کے معیار کو مزید بہتر بنایا جائے بلکہ ہر ضلعی اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر سے ریڈیو پاکستان کے پروگرام نشر کیے جائیں تو لوگوں کی دلچسپی بڑھے گی اور مزید بہتر نتائج نکلیں گے مگر بدقسمتی سے حکمران تو یہ سوچتے ہیں کہ خزانہ کیسے بھرنا ہے کیونکہ خزانے میں کچھ ہوگا تو ہی کچھ جیبوں میں جائے گا.