آج 10 جنوری کو معروف شاعر جناب حفیظ ہوشیارپوری کا یومِ وفات ہے۔ حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبدالحفیظ سلیم تھا۔ وہ 5 جنوری 1912ء کو دیوان پور ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے تھے مگر اپنے آبائی وطن ہوشیار پور کی نسبت سے ہوشیارپوری کہلائے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے اور حلقہ ارباب ذوق کے پہلے سکریٹری ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے۔ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے اور پھر تمام عمر اسی ادارے میں گزار دی۔
یہ بھی دیکھئے:
حفیظ ہوشیارپوری نے ابتدا میں نظمیں بھی لکھیں اور منظوم تراجم بھی کیے مگر ان کی شناخت ان کی غزل گوئی اور ان کی تاریخ گوئی بنی۔ انہوں نے لیاقت علی خان کی شہادت کی تاریخ علامہ اقبال کے مشہور مصرعے ‘صلۂ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ’ سے نکالی جو اس فن پر ان کے کمال دسترس کی آئینہ دار ہے ۔
یہ بھی پڑھئے:
نصیر ترابی نے جوش صاحب سے جب یادوں کی برات لکھوائی
نو جنوری: آج پاکستان کے نامور طبیب حکیم محمد سعید کا یوم ولادت ہے
آٹھ جنوری: جب کراچی کی ایلفی اسٹریٹ طلبہ کے خون سے رنگین ہوئی
حفیظ ہوشیارپوری کا مجموعہ کلام ‘مقام غزل’ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا ۔ 10 جنوری 1973ء کو وہ طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے۔
سوئیں گے حشر تک کہ سبک دوش ہوگئے
بار امانت غم ہستی اتار کے
حفیظ ہوشیارپوری کی ایک غزل
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک
شریک گریۂ شبنم نہ ہوں گے
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے
کہوں بے درد کیوں اہل جہاں کو
وہ میرے حال سے محرم نہ ہوں گے
ہمارے دل میں سیل گریہ ہوگا
اگر با دیدۂ پر نم نہ ہوں گے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
حفیظؔ ان سے میں جتنا بد گماں ہوں
وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے