کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
جون صاحب نے یہ شعر نہ جانے کس کیفیت میں کہا ہوگا۔ مگر جن کو یہ ادراک ہو گیا تھا کہ اب سانسوں کے ساتھ مزید رشتہ باقی نہیں رہے گا۔ ان کی کی کیفیت ایسی ہی ہوگی۔
سانحہ مری اس قدر دردناک ہے کہ بیان ہو ہی نہیں سکتا۔ جن کی ڈولیاں اٹھنی تھیں ان کے جنازے اٹھے۔ جن کے سروں پر سہرے سجنے تھے انہوں نے کفن پہنا۔ آپ کو یہ الفاظ ہوسکتا ہے بہت پھنکارتے ہوئے محسوس ہوں۔ جب ہمیں اور آپ کو اس قدر دکھ اور تکلیف ہے تو سوچئے ان کا کیا حال ہوگا جن کے پیارے بچھڑ گئے۔ مجھے ن م دانش یاد آگئے۔ کہا تھا کہ
جن بچوں نے ہنسنا بھی نہ سیکھا تھا ان بچوں نے سب سے پہلے دکھ دیکھے۔
سانحہ مری کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
https://youtu.be/Ar6zaeLZtaU
مری میں ٹریفک جام ہو جانا کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ آج سے 6 سال قبل میں جولائی کے مہینے میں اپنی فیملی کو وہاں پہنچتے ہی واپس لے آیا تھا۔ کیونکہ کہ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ خوبصورت جگہ اس قدر گاڑیوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی۔ ٹریفک جام ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ لوگ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہے۔
گزشتہ دو روز سے ہم سب اس سانحہ کی وجہ سے اداس بھی ہیں۔ اسے discuss بھی کر رہے ہیں مگر حادثے سے بڑا حادثہ یہ ہوا
کوئی ٹہرا نہیں حادثہ دیکھ کر۔
یہاں نہ ٹھہرنے سے مطلب یہ ہے کہ برف باری ایک قدرتی عمل ہے۔ مگر انفراسٹرکچر کا نہ ہونا ویسے ہی بے جیسے کہ ہم حادثہ دیکھ کر نہ رکیں.
یہ بھی پڑھئے:
دس جنوری: آج معروف شاعر حفیظ ہوشیارپوری کی برسی ہے
نصیر ترابی نے جوش صاحب سے جب یادوں کی برات لکھوائی
جب انتظامیہ کو معلوم تھا کہ ہزاروں گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں۔ محترم وزیر اسے حکومت کی سیاحت کو فروغ دینے کی پالیسی کی کامیابی بھی قرار دے رہے تھے۔ اس کے بعد تو انتظامیہ کو الرٹ رہنا چاہیے تھے۔
مرحوم ASI کے الفاظ اب بھی کانوں میں گونج رہے ہیں کہ یار اگر کرین پہنچ جائے تو بچت ہو جائے گی۔ مزا تو تب ہے جب یہاں سے نکل جائیں۔ یہ الفاظ کانوں میں گو بجتے رہیں گے مگر ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جن کے ذمہ ان مسائل سے نمٹنا ہے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
کیچڑ اچھالتے رہئے مگر کام بھی کیجئے
پاک فوج کے جوانوں جماعت اسلامی کے کارکنوں اور مقامی رضاکاروں کو بروقت مدد کے لیئے پہنچنے پر سلام۔ باقی لوگ حسب معمول ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہیں گے۔ حکومت کسی کی بھی ہو مگر بہت چھوٹے چھوٹے کام ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ کراچی کی مثال دیتا ہوں۔ ایک بہت اچھی سڑک پر صرف ایک گڑھا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے گھنٹوں لوگ ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس بات کی اطلاع کہاں دی جائے۔
آپ کو یہاں کی بہت سی سڑکوں پر یہ مسئلہ نظر آئے گا۔ شاہراہوں اور محلوں میں فٹ پاتھوں پر قبضہ ہے لوگ روڈ پر چلنے پر مجبور ہیں۔ کو ن اس مسئلے کو حل کرے گا؟
آج کل بہت سردی ہے۔ صبح کام پر جانے کے لیئے ہزاروں لوگ سواری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ انہیں خود نہیں معلوم کہ وہ چنگچی میں جائیں گے یا کسی بوسیدہ سی ویگن میں ان کو جگہ ملے گی۔ صرف ایک کوریڈور میں چند اسٹیشنز پر گرین لائن بس چلنا شروع ہوئی ہے مگر یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ کراچی کے شہری روزانہ اپنا قیمتی وقت سواری کے انتظار میں ضائع کر دیتے ہیں۔
مری کا انفراسٹرکچر ہو کراچی ہو یا پھر پورے ملک میں چلنے والی ٹرین کے گندے ڈبے ہوں یہ بھر پور توجہ مانگتے ہیں۔ آپ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کا شوق جاری رکھیں مگر ہمارے یہ مسائل حل کر دیں۔
جون صاحب کے شعر سے بات شروع کی تھی انہیں کے شعر سے ختم کرتے ہیں:
بے دلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
ایسے زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے