نصیر ترابی اس روز شعبہ ابلاغ عامہ میں تھے۔ یہ جان کر قد تھوڑا بڑا محسوس ہوا کہ وہ مادر علمی جس کی زمین و آسمان سے ہم نے جینے کا ہنر سیکھا، نصیر ترابی جیسی شخصیت بھی کبھی یہاں دیوار دبستان پہ لام الف لکھا کرتی تھی۔
محفل مختصر تھی، کچھ طلبہ تھے، کچھ اساتذہ، ایک استاد کہ زبان و بیان میں دل چسپی کچھ گہری رکھتے تھے، بات کہنے کے لیے ہمہمی باندھی، سیدھے بیٹھے ہوئے تھے، تھوڑا آگے ہوئے اور احتراماً بے نام سا جھک کر کہا:
نصیر بھائی، یہ بزرگ جو خوردوں کو میاں کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، اس کا پس منظر کیا ہے؟
یہ بھی دیکھئے:
نصیر بھائی کے بیان میں تھوڑا خلل واقع ہو گیا، صاحبِ سوال کی طرف دیکھا، معلوم نہیں مسکرائے کہ نہیں کہ بات کرتے ہوئے ان کے ہونٹوں کے ساخت اور اعضائے گرد پیش کی صورت سے ہمیشہ یہی لگتا کہ مسکرا رہے ہیں، کہا کہ ذرا دم لو میاں، ابھی اس پر بھی بات ہوتی ہے۔
سوال کرنے والے پر سکون ہوئے، نصیر ترابی نے سیگریٹ کا لمبا کش لیا اور کہا، ہاں تو ذکر تھا، یادوں کی برات کا۔ نصیر ترابی شعر تو غضب کا کہتے ہی تھے لیکن مجلس آرائی میں بھی یکتا تھے، وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔
تو اس روز وہ بتا رہے تھے کہ جوش صاحب سے انھوں نے یادوں کی برات کیسے لکھوائی۔
باتوں باتوں میں انھیں یاد آگیا کہ اس کتاب میں انھوں نے کچھ علمائے دین کا ذکر بھی کیا تھا اور ذکر بھی ایسا معیوب کہ خود بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر۔ اب جوش صاحب سے کون کہے کہ قبلہ یہ بات جوآپ نے لکھی ہے، روا نہیں۔
” بس، پھر میں نے دل کڑا کیا، جوش صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، جوش صاحب اس وقت بنت رز کے سرور میں تھے، مجھے دیکھا تو فرمایا، ہاں، نصیر میاں، کیسے آنا ہوا؟، بس میں نے ہمت پکڑی اور وہ بات ان کے گوش گزار کردی جس کے کہنے کا یارا نہ تھا”.
نصیر ترابی نے یہ مکالمہ کسی برجستہ شعر کی طرح سنا کر دائیں بائیں یوں دیکھا جیسے کوئی شعلہ بیاں ذاکر بات مکمل کر کے مجمعے پر نگاہ ڈالتا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
عمران خان کی دولت میں ایک ہزار فیصد اضافہ کیسے ہوا؟
پانچ جنوری: آج وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سال گرہ ہے
نصیر ترابی جملے کا سرور لے چکے تو بات وہیں سے شروع کی جہاں سے چھوڑی تھی۔ کہا کہ جوش صاحب نے میری بات سنی دھیرے سے سر اوپر سے نیچے ہلایا اور کہا کہ اچھا نصیر میاں، تم کہتے ہو تو کاٹ دیتے ہیں۔
نصیر ترابی نے بات ختم کی اور اپنے بیان کی داد ایک مرتبہ پھر لی۔
جوش صاحب کی یادوں سے ان کا خیال بیگم جوش کی طرف ہوا اور وہ بتانے لگے کہ وہ کس خوبی سے جوش صاحب کی ضروریات اور مشاغل کا خیال رکھا کرتیں:
” کند ھم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز، دیکھا دیکھی، جوش صاحب کی کئی عادات بیگم جوش نے بھی اختیار کر لیں، گویا خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔
نصیر ترابی باتوں کے دھنی تھے، جوش صاحب سے شروع ہوئے اور بیگم جوش تک پہنچے پھر بتایا کہ ان دنوں وہ سوچتے ہیں کہ کچھ اساتذہ کی شروحات لکھی جائیں۔
مثلاً؟
مثلاً غالب۔
انھوں نے بتایا اور کہا کہ یہ میں اس لیے سوچتا ہوں کہ ایک تو زبان و بیان اور محاورہ بہت بدل چکا۔ آج کا بچہ تو جانتا ہی نہیں کہ غالب جب گناہ، ثواب، مے، خم اور ساقی کا ذکر کرتے ہیں تو یہ فقط الفاظ نہیں ہوتے، تہذیب کا بیان ہوتے ہیں۔ تو میری خواہش یہ ہے اپنے بچوں کو اپنی تہذیب سے جوڑا جائے۔ ابھی ان کے یوں اچانک گزر جانے کی اطلاع ہوئی تو بے چین ہو کر میں نے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود سے بات کی، کہنے لگے کہ ان دنوں وہ غالب کی شرح لکھ رہے تھے۔ اس نشست کی یاد تازہ ہو گئی۔
غالب کی شرح ادھوری رہ گئی لیکن اردو نثر اور زبان کے استعمال پر “شعریات” کے نام سے انھوں نے جو کتاب لکھی، یہ تو وہی لکھ سکتے تھے۔
ایوان صدر کے دنوں کی بات ہے، انجمن ہلال احمر کے ڈاکٹر سعید الہی نے وہاں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا، نصیر ترابی صاحب کو بھی مدعو کیا گیا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ تو ادھر ہوتا ہے؟ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا، معلوم ہوتا تو تمھارے لیے کچھ لاتا۔ اچھا ٹھہرو، یہ لو اقوال علی، ابا نے مرتب کیے تھے۔ یہ کہا پھر دستخط کر کے کتاب میرے سپرد کی۔ اللہ تعالی انھیں اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائے، ان کی یادیں، ان باتیں ہمیشہ یاد آتی رہیں گی۔