مستقبل قریب میں ٹیکنالوجی بیس معاشرے کی تشکیل و تعمیر نو کے باعث معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں کے باعث معاشرتی اخلاقی اقدار اور خاص طور پر روزگار کے معا،ملات کیسے تبدیل ہو کر رہ جائیں گے یہ زندہ موضوع ہے جس پر دو ممتاز مصنفین نے گرانقدر خیالات و نظریات کا پرچار کیا گیا ہے جس کا مختصر تجزیہ و موازنہ پیش خدمت ہے۔
پروفیسر یوول نوح ہراری اس عنوان کے تحت بہت دلچسپ اور چشم کشا الفاظ میں لکھتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے ہیں کہ روزگار کی منڈی 2050 تک کیا صورت اختیار کرے۔ اس بات پر عمومی اتفاق رائے ہے کہ دہی جمانے سے یوگا سکھانے تک، مشینیں اور روبوٹکس ( خدمات) تقریباً ہر کام کی نوعیت اور زاویہ بدل دیں گی۔ تاہم اس تبدیلی کی نوعیت اور وسعت پر مختلف تصورات باہم متصادم ہیں_ کچھ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ایک یا دو دہائیوں میں اربوں انسان معاشی طور پر بے کار ہو جائیں گے۔ جبکہ دیگر سمجھتے ہیں کہ آٹو مشین روزگار کے نئے ذرائع پیدا کرتا رہے گی۔ اس طرح سب کی ترقی کا کچھ نہ کچھ بندوبست کر لیا جائے گا۔
سانحہ مری کے بارے میں یہ دیکھئے
https://youtu.be/Ar6zaeLZtaU
نوح ہراری سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ہم واقعی ایک خوفناک تبدیلی کے قریب پہنچ چکے ہیں یا پھر محض بے بنیاد ہوائی باتوں کی زد میں ہیں! کچھ کہنا مشکل ہے_ آٹو مشین کے سبب، بڑے پیمانے پر بے روزگاری کے خدشات انیسویں صدی میں بھی تھے،مگر وہ کبھی حقیقت میں نہ ڈھل سکے_ جب سے صنعتی عہد شروع ہوا ، ہر وہ روزگار جو مشین نے چھینا، اس کی جگہ نیا روزگار پیدا کر دیا گیا_ معیار زندگی ڈرامائی رفتار سے بہتر ہوا_ مگر اس بار صورت حال برعکس ہے اور ایسا سمجھنے کی کافی معقول وجوہات ہیں_ اس بار مشین درحقیقت گیم چینجر بننے جارہی ہے_
پروفیسر یوول نوح ہراری لکھتے ہیں کہ انسانوں میں دو طرح کی قابلیتیں ہوتی ہیں_ ایک جسمانی اور دوسری عقلی و ادراکی۔ ماضی میں مشینیں انسانوں سے جسمانی مہارتوں میں مقابلہ کرتی رہی ہیں۔ مگر انسان کی ذہانت اور منصوبہ بندی نے اسے ہمیشہ بہت آگے خاص مقام پر رکھا ہے_ جب زرعی و صنعتی روزگار مشینوں نے چھین لئے تو انسانوں نے وہ سارے کام سنبھال لئے، جن میں دماغی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ مگر ابArtificial intelligence مصنوعی ذہانت کا نیا نظام انسانوں کو ان سب کاموں سے نکال باہر کرے گا۔ وہ کام جن میں دماغ استعمال ہوتا ہے_
جسمانی و دماغی، ہم ان دو انسانی صلاحیتوں کے سوا کسی تیسری انسانی خاصیت سے واقف نہیں۔ جو اسے انفو بائیو ٹیک انقلاب سے محفوظ و مامون بناسکے۔ مسٹر ہراری لکھتے ہیں کہ یہ سمجھنا انتہائی اہم ہوگا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا انقلاب صرف کمپیوٹرز کی کارکردگی یا تیز رفتاری سے متعلق نہیں ہے۔ یہ علوم حیاتیات اور علوم سماجیات میں فیصلہ کن تبدیلیاں لانے کی توانائی سے بھرپور ہوگا_
یہ بھی پڑھئے:
سانحہ مری: بے دلی کا کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے
دس جنوری: آج معروف شاعر حفیظ ہوشیارپوری کی برسی ہے
نو جنوری: آج پاکستان کے نامور طبیب حکیم محمد سعید کا یوم ولادت ہے
جیسا کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بائیو کیمسٹری کا میکنزم انسانی جذبات،خواہشات اور پسند و نا پسند کو کس طرح تقویت دیتا ہے_ بالکل اسی طرح کمپیوٹرز بھی انسانی رویوں کا تجزیہ،انسانی فیصلوں کی پیش بینی اور انسانی ڈرائیورز،بینکرز اور قانون دانوں کی جگہ سنبھال سکتے ہیں۔
آخری چند دہائیوں میں نیورو سائنس اور معاشی رویوں کے علوم میں تحقیق سے یہ سامنے آیا ہے کہ سائنس دان بہت حد تک انسانی فیصلوں کو جاننے کے قابل ہوچکے ہیں_ یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ خوراک سے لے کر باہمی تعلقات تک ہماری ہر خواہش کا تعلق کسی پر اسرار آزاد ارادے سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ اربوں نیورونز کا وہ حساب و شمار ہے۔ جو امکانات مدنظر رکھ کر لمحے بھر میں فیصلہ کرتا ہے۔
انسانی بصیرت و وجدان کی شیخی دراصل صورت یا نمونے کی شناخت ہے۔ ماہر ڈرائیورز، بینکار اور قانون دان کسی جادوئی سمجھ کے سبب ٹریفک،سرمایہ کاری اور بحث و دلائل ممکن نہیں بناتے۔ بلکہ متواتر پیش آنے والی صورتوں (عادتوں) کی شناخت کے ذریعے لاپرواہ راہگیروں، نا تجربہ کار قرص خواہوں اور بددیانت عیار آدمی سے بچتے ہیں_
یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ انسانی دماغ کے بائیو کیمکل ایلگور تھیم بے عیب نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہر ڈرائیورز، سرمایہ کار اور قانون دان بھی احمقانہ غلطیاں کر جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانی دماغ کو بھی پچھاڑ سکتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو انسانی روح سے مسابقت کی کوئی ضرورت ہوگی؟ تو یہ ناممکن لگتا ہے۔ اگر Ai کو واقعی انسانی نیورون سسٹم سے مقابلہ کرنا پڑ گیا تو اس کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہ ہوگی_
بالخصوص یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانوں کے بہت سارے ایسے کام سنبھال لیں گے جن میں جھوٹ فریب کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانی کیفیات اور رویوں کا بہتر تجزیہ کرسکیں گے یہ بہترین ڈرائیور، بہترین سرمایہ کار اور بہترین قانون دان بن سکیں گے_ کون سا بچہ کب اچانک سڑک پر آ سکتا ہے؟ اور کیا یہ سوٹٹد بوٹٹد شخص میرا پیسہ لیکر بھاگ تو نہیں جائے گا؟ اور کیا یہ وکیل محض دھمکیاں دے رہے ہے یا واقعی کچھ کر گزرے گا؟ اگر یہ جذبات اور روئیے محض بائیو کیمسٹری ایلگور تھیم کا نتیجہ ہیں، تو پھر انھیں سمجھنے میں کمپیوٹرز کیوں انسانوں سے پیچھے رہ سکتے ہیں؟ یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس چہروں کے تاثرات تک پڑھ سکیں گے۔ آواز کا اتار چڑھاؤ محسوس کرسکیں گے۔ ہاتھ پاؤں کی حرکات سے اندازہ لگا سکیں گے کہ سامنے والا کیسا ہے؟
مستقبل کی نوکریوں کو صرف انفو ٹیک سے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ بائیو ٹیک بھی بہت بڑی تبدیلیاں لارہا ہے۔ دماغ کے سائنس دان ایسی چیزوں پر کام کر رہے ہیں جو 2050 تک ماہرین نفسیات اور محافظوں کی جگہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی تقرری ممکن بنادیں گی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں صرف انسانی خوبیاں ہی نہیں بلکہ غیر انسانی صلاحیتیں بھی حیرت انگیز ہیں۔ ان میں سے ایک بہترین رابطہ اور دوسری اپ ڈیٹنگ کی اہلیت ہے۔ کروڑوں انسانوں کی جگہ سنبھالنے کے لئے کروڑوں روبوٹس یا کمپیوٹرز کی ضرورت نہیں یہ ایک جدید نیٹ ورک کے ذریعے بہت کچھ سنبھال سکیں گے۔ مثال کے طور پر انسان ڈرائیورز عموماً ٹریفک قوانین سے بہت زیادہ واقف نہیں ہوتے۔ حادثات کے خدشات ہمیشہ رہتے ہیں۔ جبکہ باہم ربط و ضبط کا نظام آرٹیفیشل انٹیلیجنس خود کار گاڑیوں کو حادثات سے بہت زیادہ محفوظ رکھ سکے گا۔ اسی طرح جب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو کسی نئی بیماری یا دوا کا علم ہوگا تو تمام انسان ڈاکٹرز کو اس بارے میں اپ ڈیٹ رکھنا نا ممکن ہوگا۔ جبکہ اس کے برعکس اگر دینا بھر میں دس ارب آرٹیفیشل انٹیلیجنس ڈاکٹر بھی ہوں گے تو فوراً سب ہی اس بیماری اور دوا سے واقف ہوجائیں گے۔ اس سے انسانی معاشرے کو صحت عامہ میں بے حد فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ انتہائی سستا علاج آسان ہوسکتا ہے اسی طرح ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی خدمات انسانوں کے لئے بہت مفید ہوسکتی ہیں کیونکہ یہ بہت فعال اور غلطیوں سے پاک ہوگی۔ دارصل انسانوں کا روزگار بچانے کے لئے ٹرانسپورٹ اور صحت عامہ کے شعبے میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا راستہ پاگل پن ہوگا۔ کیونکہ ہمیں انسانوں کو محفوظ بنانا ہے۔ روزگار کو نہیں۔ فارغ ڈاکٹرز اور ڈرائیورز کوئی اور کام بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔
پروفیسر یوول نوح ہراری کے اس طویل اقتباس سے مستقبل قریب میں ٹیکنالوجی بیس معاشرے کی تشکیل و تعبیر نو کے خدو خال واضح ہوتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کیا ہے۔ معروف مصنف و مؤلف ذیشان الحسن عثمانی لکھتے ہیں:
,, مصنوعی ذہانت مشین کی صلاحیت کا نام ہے۔ جس کے ذریعے وہ قدرتی یا انسانی ذہانت کی نقالی کرسکے۔ اگر کوئی مشین کسی مسلے کا وہی حل یا اس سے بہتر حل تجویز کرے جو عام حالات میں انسان یا جانور تجویز کرے تو ہم ایسی مشین یا پروگرام کو مصنوعی ذہانت کہیں گے_ اگر ہم مزید گہرائی میں جائیں تو ,مصنوعی ذہانت ایجنٹ کی وہ صلاحیت ہے جو اپنے ماحول کو پہچانیں اور وہ اقدامات کرے جن کی مدد سے اسے اپنے متعین کردہ یا مطلوب مقصد میں کامیابی حاصل ہو یا اس کے امکانات میں اضافہ ہو_ ،،
ایجنٹ سے مراد یہاں مشین، کمپیوٹر،روبوٹ یا پروگرام ہے۔ ماحول سے مراد اصل دینا مثلاً سڑک، شاپنگ مال، گھر یا ورچوئل دینا ہے۔ جیسے کہ کمپیوٹر گیمز یا کمپیوٹر سائمویشن ہے_ اقدامات یا ایکشن سے مراد چلنا،پھرنا ،کسی شئے کو پکڑنا یا ورچوئل اقدامات جیسے ڈیٹا سے پیشنگوئی،گراف وزیولائزیشین یا گیم کے اندر لڑائی جھگڑا اور مقصد سے مراد وہ آخری منزل ہے جہاں ہمیں پہنچنا ہے۔ مثلاً گیم کی آخری فتح، پیشن گوئی کا گراف یا کمرے کی صفائی۔
یعنی اب ایجنٹس لکھے گئے پروگرام اور ماحول سے سیکھنے کے عمل کے ذریعے وہ بہترین اقدامات کریں گے جس سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں_ اس وقت دینا بھر کے اے آئی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ریسرچرز اور ڈویلپرز اسی مصنوعی ذہانت پر کام کررہے ہیں _
آج مصنوعی ذہانت کچھ کام کر سکتی ہے اور کچھ نہیں مثلاً اے آئی ٹیبل ٹینس کا میچ کھیل سکتی ہے_ ٹیڑھے میڑھے روڈ پر ڈرائیو کرسکتی ہے۔ انٹرنیٹ پر خریداری کر سکتی ہے۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرسکتی ہے۔ مگر خود سے ایک نئی کہانی نہیں لکھ سکتی۔ جو انسان کی لکھی ہوئی کہانی کا مقابلہ کرسکے۔ مارکیٹ سے گروسری خرید کر گھر نہیں لاسکتی۔ روتے ہوئے بچے کو تھپکی دے کر نہیں سلاسکتی اور گھر کے پالتو جانوروں کو واک پر نہیں لے جا سکتی_
بحث و دلائل کو سمیٹتے ہوئے مصنف,, اے آئی کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
,, ہم مصنوعی ذہانت اور مشینگ لرننگ کے دور میں داخل ہورہے ہیں۔ مستقبل میں بہت سی نوکریاں اور روزگار جو صرف و صرف انسانوں سے وابستہ تھے، روبوٹ اور الگورتھمز سر انجام دے رہے ہوں گے_ کیونکہ سافٹ ویئر انڈسٹری ایک بہت بڑی تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہے۔