8 جنوری 1953ء کا دن کراچی میں طلبہ سیاست کی تاریخ میں بڑا یادگار دن مانا جاتا ہے۔ ہر سال 8 جنوری کو طلبہ اپنے ان ساتھیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ یہ طلبہ کے مطالبات کے سلسلے میں احتجاج کرتے ہوئے اس دن ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے تھے۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ تھا کہ 1952 میں جب کراچی کے کالجوں میں طلبہ یونینوں کے بعد پہلی مرتبہ ایک انٹر کالجیٹ باڈی کا قیام عمل میں آیا۔ اس طرح طلبہ نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کے تحت اپنے مطالبات منوانے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔
یہ بھی دیکھئے:
ان کے خاص خاص مطالبات یہ تھے کہ فیسوں میں کمی کی جائے‘ لائبریری اور تجربہ گاہوں کا معقول انتظام کیا جائے۔ طبی امداد کی سہولت فراہم کی جائے۔ اور حصول روزگار کی ضمانت دی جائے۔ طلبہ نے اس سلسلے میں اپنے مطالبات مرکزی وزیر تعلیم کی خدمت میں پیش کرنا چاہے۔ انہوں نے طلبہ کو وقت دینے سے انکار کردیا تو طلبہ نے 7 جنوری 1953ء کو کراچی کے ڈی جے کالج میں ایک جلسہ منعقد کیا۔ جلسہ کے بعد طلبہ نے چاہا کہ وہ ایک جلوس کی شکل میں وزیر تعلیم کی کوٹھی پر جاکر انہیں اپنے مطالبات پیش کریں۔ اس جلوس کے راستے میں پولیس مزاحم ہوئی۔ اس نے اشک آور گیس برسائی پھر بھی طلبہ وزیر تعلیم کی کوٹھی تک پہنچ گئے۔ مگر وزیر تعلیم نے طلبہ کا ایک مطالبہ بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
یہ بھی پڑھئے:
ن لیگ میں تقسیم کے لیے قومی حکومت کا منصوبہ
فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی خود اپنے جال میں پھنس گئی
اگلے دن 8 جنوری کو طلبہ نے پھر ہڑتال کی۔ طلبہ نے ڈی جے کالج میں ایک جلسہ منعقد کرکے ایک جلوس کی شکل میں وزیر اعظم کی کوٹھی تک جانا چاہا۔ بدقسمتی سے اس مرتبہ بھی پولیس ان کے راستے میں مزاحم ہوئی۔ یہ جلوس الفنسٹن اسٹریٹ تک پہنچا تو پولیس نے پہلے اشک آور گیس اور پھر فائرنگ کے ذریعے اسے منتشر کرنا چاہا جس کے نتیجے میں کم از کم دس افراد ہلاک اور 80 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔
کراچی کے شہری اس خونیں ڈرامے کی تاب نہ لاسکے اور 9 جنوری کو انہوں نے طلبہ کی حمایت کا اعلان کردیا اس دن کراچی میں مکمل ہڑتال رہی عوام اور پولیس میں متعدد مقامات پر تصادم ہوا۔ اس تصادم کے نتیجے میں مزید دس افراد ہلاک ہوگئے۔
جنوری تحریک کے رہنمائوں میں محمد سرور‘ مرزا محمد کاظم‘ سید احمد اقبال‘ معیز الدین فاروقی‘ خواجہ عدیل احمد اور محمد شفیع کے نام قابل ذکر ہیں۔ 13 فروری 1953ء کو حکومت نے ان ہنگاموں کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا۔ یہ کمیشن مسٹر جسٹس ولی محمد ویلانی پر مشتمل تھا۔ اس کمیشن نے 24 مئی 1953ء کو اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی۔ اس رپورٹ میں 8 جنوری کے سانحے اور طلبہ تحریک کا پس منظر بالکل مختلف بیان کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ فسادات اتفاقیہ نہیں تھے۔ بلکہ کمیونسٹوں کی منظم سازش کا نتیجہ تھے۔ رپورٹ کے مطابق یہ فسادات راولپنڈی سازش کیس کے فیصلے کے ردعمل کے طور پر کروائے گئے تھے۔