شاہدحمید نے1970ء میں”انصاف لائبریری ” کے نام سے آنہ لائبریری قائم کی۔تعلیم کے ساتھ تین سال اس لائبریری کوپروان چڑھایا ، خود بھی پڑھتے،لوگوں کوبھی پڑھاتے۔کتاب پراپنی رائے دیتے اورخوبیاں اس اندازسے بیان کرتے کہ لوگ خریدنے کی خواہش کرتے ۔ تین سال بعدلائبریرین سے کتب فروش بن گئے۔مین بازار میں نکڑوالی دکان لے لی،نام رکھا”بک کارنر”۔ہرگھر میں ہوگاکتاب کاکونا، یہی سلوگن اورمشن تھا۔منافع کم اوربکری زیادہ پریقین رکھتے۔سستے داموں کتاب دیتے،مجبوری میں بے مول بھی دے دیاکرتے۔قصہ کوتاہ ،پڑھنے پڑھانے کاشوق چھاپنے کی اسٹیج پر لے آیا۔پہلی کتاب 1980ء میں شائع کی۔
”شاہدحمید:اے عشق جنوں پیشہ” انہی محترم ومکرم شاہد حمیدکوان کے لائق بیٹوں گگن شاہد اورامرشاہدکی جانب سے نذرانہ عقیدت ہے۔ شایدہی کسی والدگرامی کوان کے فرزندگان نے ایسا بے مثال خراج تحسین پیش کیاہو۔جس کے لفظ لفظ اورسطرسطر سے محبت وعقیدت کے گلزاراجاگر ہوتے ہیں۔ یہ کتاب صرف شاہدحمیدکی داستانِ جنون نہیں، بلکہ ان کے قائم کردہ ادارے ”بک کارنرجہلم” کے قیام اور فروغ ادب میں اس کی کامیابیوں کی کہانی بھی ہے۔
سراپاکتابوں کے عشق میں غرق محترم شاہدحمید کے بارے میں معروف شاعرامجداسلام امجدکاکہناہے ۔”بک کارنرکے حوالے سے عام طور پرگگن شاہد اورامرشاہدکے نام ہی سامنے آتے ہیں مگربقول شاعر’کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں’ تو وہ باکمال ہستی شاہد حمید مرحوم کی ہی تھی جنھوں نے ساری زندگی کتاب سے محبت کے ساتھ بسر کی۔میرے نزدیک کتاب کے حوالے سے جہلم شہرکو اردو دنیاکے نقشے پر نمایاں اورمستحکم کرنے کاکریڈٹ اگرکسی آدمی کودیاجاسکتاہے تو وہ صرف اورصرف شاہد حمید مرحوم تھے۔”
نامورادیب افسانہ وناول نگارحسن منظرکہتے ہیں۔”شاہدحمیدکی زندگی میرے نزدیک قابل رشک تھی۔امرشاہد اورگگن شاہدمیں مجھے ان کے مرحوم باپ نظرآتے ہیں۔اس وقت اردوپبلشنگ کی دنیاکومکمل طور پراشیائے غیرضروری کی منڈی بن جانے سے روکنے کے لیے ان کی ان تھک محنت،مستعدی کار اوراخلاق کوآنے والاوقت سراہے گا۔یہ ادارہ پبلشنگ ورلڈمیں آئے زوال کوروکنے کے جوہررکھتاہے۔”
کثیرالتصنیف ادیب مستنصرحسین تارڑان الفاظ میں بک کارنر،شاہدحمید اوران کے لائق فرزندگان گگن اورامرشاہد کوخراج تحسین پیش کرتے ہیں۔”میں نے اپنے کسی ناول میں لکھاہے کہ سیلف میڈلوگ دوقسم کے ہوتے ہیں۔زیادہ ترکسی بلندمقام پرپہنچ کردوسرے لوگوں سے اپنی محرومیوں کاانتقام لیتے ہیں اور چندایک ہوتے ہیں جوزندگی کی کٹھالی میں پگھل کرایک پارس کی شکل اختیارکرجاتے ہیں، پتھر کوچھو جائیں تواسے سوناکردیتے ہیں۔شاہدحمیدایسے ہی شخص تھے۔امر اورگگن پانسے کاخالص سونانہیں تو اورکیاہیں!”
اردو کے نامورمصنف ،ادیب اورشاعرکس شخص کے لیے رطب السان ہیں۔ شاہد حمید کیا بے مثال شخصیت کے مالک تھے۔جومحنت ،لگن اور تندہی سے نصف صدی تک کتاب کی اشاعت اورمطالعے کے فروغ کے جنون میں مبتلارہا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی محنت اورلگن کورائیگاں نہ جانے دیا اوراس کام اورادارے کولائق ،فرمابرداربیٹوں گگن شاہد اورامرشاہد کی شکل میں زندہ جاویدبنادیا۔مارچ 2021ء میں شاہد حمید ظاہری طور پراس فانی دنیاسے کوچ کرکے عالم جاودانی کوروانہ ہوگئے ، لیکن ان کالگایاپودابک کارنرجہلم کی صورت میں ایک چھتنار پیڑکی شکل اختیارکرگیا۔ 2023ء میں بک کارنرجہلم کے قیام کی نصف صدی مکمل ہوگئی اور ادارے کی گولڈن جوبلی پرگگن اورامرشاہد کا”شاہدحمید:اے عشق جنوں پیشہ” سے بہتروالدکوکیاخراج تحسین ہوسکتاتھا۔کتاب کی بے مثال پرنٹنگ،بہترین آرٹ پیپرپر انتہائی دلکش اوردیدہ زیب چھپائی۔شاہدحمید اوران کے اہل خانہ کی رنگین تصاویرسے آراستہ اس کتاب کی ہرسطر سے گگن شاہد اورامرشاہد کی اپنے والدبے پناہ محبت وعقیدت کا اظہار ہوتاہے۔ملک کے اٹھاون ناموراہل قلم کا شاہدحمیدکی شخصیت،کردار،کتاب سے محبت میں گزری زندگی کوشاندارانداز میں خراج تحسین پیش کیا۔واصف سجادنے ”وہ آنکھیں کتنی روشن تھیں” میں منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔محمدانجم الامین عروس فاروقی نے قطعہ تاریخ کہا اوردورِحاضرمیں طنزومزاح کے سب سے بڑے شاعرانورمسعود کاشاہد حمید کی یاد میں کیا حقیقت بیانی کی ہے۔
وہیں پر ہے اشاعت کا وہ مرکز
جو شاہد کی مشقت کا ثمر ہے
بہت مشہور ہے اب شہرِ جہلم
وہی جہلم جہاں بک کارنر ہے
شاہد حمیدصاحب کا آنہ لائبریری کے قیام کامقصدمحض سکون سے کتابیں پڑھنا اورجوتھوڑی بہت آمدنی اس سے ہوگی، اس سے مزید کتابیں خرید کراپنا شوق پورا کرنا تھا۔یہ آنہ لائبریری نصف صدی بعدبک کارنرجہلم میں ڈھل کرپاکستان کاسب سے بڑا اشاعتی ادارہ بن چکاہے۔شاہد حمیدصاحب کاانتقال مارچ 2021ء میں ہوا۔ لیکن وہ اپنے قابل اورہنرمندفرزندگان گگن شاہد اورامرشاہد کے روپ میں آج بھی زندہ ہیں اورہمیشہ ادارے کی شائع کردہ کتابوں کی شکل میں زندہ جاوید رہیں گے۔
یہ بھی پڑھئے:
مریم نواز نے ووٹروں کو کیا مشورہ دیا؟
مہر محمد بخش نول کی تاریخ مخزن پاکستان کی اشاعت
انیق احمد نے کیوں کہا کہ نریندر مودی خطے کو نیتن یاہو ہے؟
چودہری سرور اب کس جماعت میں جانے والے ہیں؟
سیلف میڈشخص کی ایسی مثال شاہد حمیدکے سوا شاید ہی کہیں اورمل سکے۔ادبی مراکز سے دورجہلم جیسے چھوٹے شہر میں کتابوں کی اشاعت، اورفروخت کے لیے ”بک کارنرجہلم” کا قیام اورنصف صدی تک اسے جاری رکھناان کالازوال کارنامہ ہے، جسے ان کے بعدبھی لائق فرزند جاری رکھے ہوئے ہیں۔گگن شاہد اورامرشاہد نے ناصرف اپنے والدکے شوق،جنون اورکتاب سے محبت کے اس سفرکوجاری رکھا، بلکہ اسے بام عروج پر پہنچادیا۔جہلم شہرکتاب سے محبت کااستعارہ بن گیا اور وہ شہرجوکبھی عسکری فوج کے تعلق کے لیے مشہورتھا، اسے کتاب دوستی اور فروغِ مطالعہ کا مرکز بنادیا۔
2023ء بک کارنرجہلم کے قیام کاگولڈن جوبلی سال ہے اس گولڈن جوبلی کے موقع پرامرشاہدنے ‘شاہدحمید:اے عشق جنوں پیشہ” کی تالیف و تشکیل سے باثروت بنادیا۔ ثوری ومعنوی حسن سے آراستہ اس کتاب کاشماراردوکی چندانتہائی دلکش کتابوں میں کیاجائے گا۔کتاب کا انتساب”اہل قلم کے نام۔۔۔انھوں نے ”بک کارنر” کوآنہ لائبریری سے عالم گیراشاعتی ادارہ بنادیا”۔ اس انتساب سے انھوں نے ان تمام ادیبوں اورشعراء کونصف صدی سے جاری بک کارنرجہلم کی کاوشوں میںشامل کرلیاہے۔شاہدحمیداورفیملی کی رنگین تصاویر نے اسے مزیددیدہ زیب بنادیا ہے۔
کتاب کے آغاز میں محمدحسین آزاد کی اردوکے مایہ نازشعراء کے تذکرے پر مبنی بے مثال کتاب”آب حیات” کے دیپاچہ سے معنی خیز اقتبا س پیش کیاگیاہے۔ جس سے محترم شاہدحمیدلازوال شخصیت کی بقائے دوام کی نشاندہی ہوتی ہے۔
”اب انصاف کروکیایہ تھوڑے افسوس کامقام ہے کہ ہمارے بزرگ خوبیاں بہم پہنچائیں،انھیں بقائے دوام کے سامان ہاتھ آئیںاوراس پر نام کی زندگی سے بھی محروم رہیں۔بزرگ بھی وہ بزرگ کہ جن کی کوششوںسے ہماری ملکی اورکتابی زبان کالفظ لفظ اورحرف حرف گراں بارِ احسان ہو۔ان کاموں کااس گم نامی کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹنابڑے حیف کی بات ہے۔ جس مرنے پران کے اہل وعیال روئے،وہ مرنا نہ تھا،مرناحقیقت میں ان باتوں کامٹناہے جس سے ان کے کمال مرجائیں گے اوریہ مرناحقیقت میں سخت غم ناک حادثہ ہے۔ ایسے بزرگانِ باکمال کے رویے اوررفتاروں کادیکھناانھیں ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ کردکھاتاہے اورہمیںبھی دنیا کے پیچیدہ راستوں میں چلناسکھاتا ہے اوربتاتاہے کہ کیوں کرہم بھی اپنی زندگی کواتناطولانی اورایساگراں بہابناسکتے ہیں۔”
محترم شاہدحمیدکاعکس تحریربھی کتاب کااختصاص ہے۔جس سے ان کی خوب صورت ہینڈرائٹنگ ہی نہیں،پسنداورمیلان طبع کا بھی اندازہ ہوتاہے۔جیسے وہ لکھتے ہیں۔”بندہ اس وقت شناخت پاتاہے جب وہ اپنے شعبے میں کامیاب اورکامران ہوکرمعاشرے کابہترانسان بنتا ہے۔” ایک اوراقتباس میں کیاعمدہ بات کی ہے۔”ہرانسان دوسرے میں خامیاں تلاش کرتارہتاہے۔آپ کسی دوسرے کواپنی مرضی کے عین مطابق نہیں ڈھال سکتے صرف اورصرف ایک ایساہے جسے ہم بدل سکتے ہیں اور وہ ہماری اپنی ذات ہے انسان صرف خودکوبدل لے اورپھرخوش ہو جائے کہ جس کوبدلنے پروہ قادر ہے اسے بدل لیا۔”
”شاہدحمید:اے عشق جنوں پیشہ ” کاسرورق مغربی بنگال کے مصوررجیب گائن کے ہنرکاکمال ہے۔ جن کے تعارف کے مطابق رجیب گائن 1981ء میں کلکتہ میں پیداہوئے۔بنگال فائن آرٹ کالج، چندپارا میں داخل ہوئے اورسمیرگھوش کی نگرانی میں واش میڈیم پر پریکٹس شروع کی۔تب سے وہ مسلسل اس تکنیک پرکام کررہے ہیں۔تعلیم کے ابتدائی دنوں میں قابل احترام فن کاروں ابنیندرناتھ ٹیگور، عبدالرحمٰن چغتائی،بدری ناتھ آریہ، کشتیندراناتھ مجمدار،نندلال بوس کے کاموں کی پیروی کی۔کثیرمہارت نے اس مقام پرلاکھڑا کیاکہ اب اپنا اچھوتا اندازمتعارف کروانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
گگن شاہد اورامرشاہد نے اپنے عظیم والد کی زندگی ہی میں ان کامشن سنبھال لیاتھا اوراسے خوب سے خوب تربنانے میں کوشاں تھے اور امرشاہداپنی تحریر”ابا” میں ان الفاظ میں پیش کیاہے۔” مجھے ابا کے جانے کے ماتم نہیں کرناتھا۔ٹھیک دو روز بعداپنے دفترآگیا۔اس روز معمول سے ہٹ کرزیادہ کام کیا۔جانتاتھا،ابادیکھ رہے ہوں گے،انھیں اطمینان دلانا تھا،آپ کامشن نہیں رکا، سب ویساہی ہے۔ یہ سلسلہ رکے گا نہیں،یہ اورتیز ہوگا،گزشتہ تین برس میں اشاعت کی سالانہ اوسط بیس سے سوکتابوں تک ہوگئی۔ پاک وہندکے معروف ومستندلکھاریو ںکوبک کارنرسے محبت ہے۔اب تک ہماری ہر اشاعت پر مستندادیبوں نے اپنے اپنے خیالات کاجس طرح اظہارکیاہے وہ سب تعریفیں شاہد حمیدکی تحریک اورہمت کوسزاوارہیں۔
ہو تم زندوں کے زندہ ، تم کو مردہ کون کہتا ہے
تمھاری نیکیاں زندہ تمھاری خو بیاں باقی ”
شاہدحمیدصاحب کوخراج تحسین پیش کرنے والوں میں مستنصر حسین تارڑ، شکیل عادل زادہ، افتخارعارف، حسن منظر، امجداسلام امجد، بشریٰ رحمٰن، باباعرفان الحق، ڈاکٹرمحمدامجدثاقب، ہارون الرشید، حسن نثار، محمداظہارالحق، عرفان صدیقی، شاہدصدیقی، خالدمسعودخان، رؤف کلاسرا،عامرخاکوانی، ڈاکٹرانعام الحق جاوید، ڈاکٹراظہارہاشمی، محمدعارف ،سیدوقاص جعفری، عرفان جاوید، مبشرعلی زیدی، اسلم ملک،راجہ انور،محمدحمیدشاہد،نصیراحمدناصر، علی اکبرناطق، محمدحفیظ خان، یاسرجواد،صدف مرزا، ذوالفقاراحمدچیمہ، عمارمسعود، عارف انیس، حسنین جمال ،ڈاکٹر ہارون الرشیدتبسم، شاکرحسین شاکر،آصف محمود، حسن رضاگوندل، ڈاکٹرسید محمدتقی عابدی، حسن عسکری کاظمی، پروفیسرحمیداللہ ہاشمی، ڈاکٹر انورنسیم، عارف الحق عارف، شہزادنیر، ارشدعلی، احمدلطیف، سہیل پرواز، مرزامحمدمعین اللہ خان، قیصر ہ شفقت، فاطمہ نجیب، عافیہ مقبول جہانگیر،منور راجپوت، خالد یزدانی، راؤمحمدشاہد اقبال، قدیر احمدکھوکھر، راشدعزیز وارثی، عطاالحسن طاہر اورحامدمحمود شامل ہیں۔آخر میں بک کارنرکی چندقارئین کی آراء بھی مختصراً شامل کی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر ایک خفیہ ایجنڈا
ایران کی خوش فہمی کیسے دور ہوئی؟
مسئلہ قیدی نمبر 804 کا کیوں نہیں جمہوری رویے کا کیوں ہے؟
”کلمہ تشکر” میں گگن شاہد اورامرشاہدنے لکھاہے۔” شاہدحمید:اے عشق جنوں پیشہ” آپ کی نذر ہے۔ یہ ہمارے والدشاہدحمیدکی داستان ہے اوربک کارنرکی آپ بیتی بھی۔اس میں آپ کوجملہ مشاہیرکے مطبوعہ وغیرمطبوعہ شہ پارے پڑھنے کوملیں گے۔ اہلِ علم نے ان کے سفر کو کیساجانا، اس کاکچھ اندازہ آپ کواس کتاب سے ضرورہوگا۔ کتاب کی تکمیل اورترتیب میں اہلِ قلم حضرات کا قلمی تعاون حاصل رہا۔اکثر حضرات ایسے ہیں جنھیں دنیا جانتی ہے۔ان کاتعارف سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ جس محبت اورعقیدت سے یہ تحریریں تخلیق کی گئی ہیں اس پرشکریہ اداکرنے کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں۔ہم دونوں بھائی آخری دم تک ان کے احسان مند رہیں گے۔”
شکیل عادل زادہ نے اپنے مخصوص مختصراورجامع انداز میں کیاکمال بات کی ہے۔” جسمی وجود ایک بڑی حقیقت ہے لیکن بہت بے ثبات،ناپائداراور عارضی۔اصل تووہی کچھ ہے جوجسمی وجود کی نابودی کے بعد بھی برقراررہے، مستقل پردہ کرلینے اورکبھی نہ واپس آنے والے آدمی کے نقوش، اس کا سایہ ،اس کے ثمرات۔شاہدحمیدکا شماربھی ان نادرونایاب لوگوں میں ہوتاہے جواس جہانِ فانی سے کوچ کر جانے کے باوجوداپنے شان دارادارے اورلائق وفائق بیٹوں کے درمیان بہ تمام وکمال موجود ہیں۔چھوٹے شہر،چھوٹی دکان اورنہ ہونے کے برابرسرمایے سے شاہد حمید نے کتاب کاکاروبار شروع کیاتھا۔ان سطورکے راقم کا بھی زندگی بھرنشرواشاعت کے معاملات سے واسطہ رہاہے۔اندازہ ہے کہ کتاب کے کاروبار میں کیسے پیچیدہ اوردشوارمراحل کاسامناکرنا پڑتاہے۔جہاں خواندگی کا اوسط شرمندگی کاباعث اور کتاب پڑھنے کاشوق شرم ناک حدتک مایوس کن ہو، وہاں کتاب کاکاروبارکرنے والے کوبہت صبروضبط اورعزم وحوصلہ چاہیے۔مختصر دکان سے ایک قابل رشک ،مثال آفریں اشاعتی مرکز،نصف صدی کی ریاضت کاحاصل ہے اوراس ریاضت میں ہمت واستقامت،محنت ومشقت ہی نہیں دیانت، جذبہ وجنوں، جودتِ طبع اورندرتِ فکربھی شامل ے۔ جوشخص ان سارے اوصاف سے متصف وممیزتھا،اس کانام شاہدحمید تھا۔نادرہ کارشاہد حمید کی روح پرفتوح یقینا طمانیت اور آسودگی سے سرشار ہوگی کہ اس کے ہم نفس، ہم شعاربیٹوں گگن اورامر نے ادارے کومزید وسعت دی ہے۔ان دونوں کے روزوشب کاوظیفہ اپنے گرامی قدر والدکے نقوشِ قدم کی عمل پیرائی ہے۔کتاب کامتن ومواد اپنی جگہ ،کتاب کی زیب وزینت بھی کتاب کی اہمیت فزوں کرتی ہے۔ یہ ماجرا بھی کیاخوب ہے کہ بہت سے لکھنے والوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی کتاب بک کارنرسے اشاعت پذیرہو۔”
شکیل عادل زادہ نے کس عمدگی سے گگن اورامرشاہد اوربک کارنرکی شکل میں شاہدحمیدکی دائمی زندگی کی نوید دی ہے۔ہرشعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے دیگر مشاہیر نے بھی شاہدحمیدمرحوم کوخراجِ تحسین پیش کیاہے اوراس کے ساتھ بک کارنرکی آپ بیتی بھی بیان ہوئی ہے۔
روحانی اسکالراورمصنف باباعرفان الحق نے شاہد حمید صاحب کاواقعہ بیان کیاہے۔”میں صحیح بخاری کامجموعہ لینے کے لیے خود ان کے پاس گیا۔ میں نے ایک مجموعہ اٹھالیا،اس کی تین جلدیں تھیں۔انھوں نے وہ جلدیں میرے ہاتھ سے کھینچ لیں۔ کہنے لگے ،عرفان صاحب یہ آپ نے نہیں لینی،کیونکہ اس کی جوجلد دوم ہے اس میں کچھ ورق جلد سے اکھڑے ہوئے ہیں،اوریہ نقص والی چیزمیں نہیں دوں گا۔میں حیران اس بات پرہوا،ایک تویہ کہ نقص والی چیزانھوں نے نہیں دینی۔ دوسرایہ کہ انھیں کتنامعلوم تھاکہ میری کونسی کتاب ،کہاں پڑی ہوئی ہے،کیا خرابی اورکیاخامی اس میں موجود ہے۔ اس سے پتہ لگتاتھاکہ ان کے اندراپنے اس شعبے سے کتنی زیادہ دل چسپی موجود تھی کہ انھوں نے وہ جلد مجھے نہیں دی،بلکہ نئی جلد،نیاسیٹ نکال کرمجھے دیاکہ یہ آپ لے جائیں۔کبھی کبھی کچھ دیر کے لے رک جاتاتوشاہدصاحب کودیکھتا کہ کبھی فارغ نہ بیٹھتے۔بلکہ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے۔میں جس کتاب کوہاتھ لگاتا اس کے مندرجات کاانھیں بخوبی علم ہوتا۔ ایسالگتاتھاجیسے ہر کتاب انھوں نے پڑھ کر وہاں رکھی ہوئی ہے۔”
شاہدحمید کے کتاب سے عشق نے ہی بک کارنرکوبک کارنربنایا۔گگن شاہدوالدکی یادوں کو”پاپا” میں تازہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں۔ ” 1973ء میں ایک دن والدصاحب مین بازارجہلم سے گزر رہے تھے کہ کارنرپرایک خوب صورت اورجدیدطرزسے آراستہ عمارت بنتے دیکھی۔خیال آیاکہ اگریہ کونامیسرآجائے تووہ یہاں کتابوں کا نیاجہان بنائیں گے اورکارنرکی مناسبت سے بک کارنرنام رکھیں گے۔قبولیت کی گھڑی تھی۔ ٹھیک ایک ماہ بعداسی مقام پربک کارنرنامی چراغ روشن ہوا۔پاپارشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اورزندگی کے نئے سفر کا آغازکیا۔امی شاہین نواب سے شاہین شاہدہوگئیں۔امی اورپاپاکاخوش گوارساتھ رہا۔پاپاگھرمیں بھی کتابوں کی باتیں کرتے تھے۔ امی کویہ بات بری لگتی تھی۔ اس پرکبھی کبھی بحث بھی ہوجاتی تھی۔امی چڑکرکہتیں کہ کتابوں اورکاروبارکی باتیں دکان پر ہی چھوڑکرآیاکریں۔ پاپا کا ایک ہی جواب ہوتاکہ جس طرح خواتین ہروقت کپڑوں،جوتوں اورزیورات کی باتیں کرتے نہیں تھکتیں،اسی طرح میں بھی کتابوں کی باتیں کرتے نہیں تھکتا۔ہم دونوں بھائیوں کی کامیاب زندگی میں سب سے زیادہ کردارہمارے والدکاہے۔شاہدحمیدصرف والدنہیں تھے ،دوست تھے،مربی تھے ،محسن تھے، استادتھے،صاحب ذوق تھے،کتاب دوست تھے،آرٹسٹ تھے۔وہ ہمارے لیے جدوجہداورہمت کا استعارہ تھے اوربہترین رول ماڈل تھے۔انھیں دیکھتے دیکھتے ہم بڑے ہوئے اورآخردم تک ہم ان سے سیکھتے رہے ۔آج بھی یہی محسوس ہو تا ہے کہ پاپایہیں کہیں آس پاس ہیں، ہمیں دیکھ رہے ہیں اورہماری کامیابیوں پر خوش ہورہے ہیں۔
دل ہے کہ تری یاد سے خالی نہیں رہتا۔۔شاید ہی کبھی میں نے تجھے یاد کیاہو”
یہ ایک باپ سے صرف محبت وعقیدت نہیں گہری انسپائریشن کی کہانی ہے۔محترم شاہدحمید نے اپنے فرزندگان پراپنازندہ جاویداورگہرا نقش چھوڑا ہے ۔جوکبھی ماند نہیں پڑے گا اورنہ گگن شاہد اورامرشاہد کوخوب سے خوب ترکی جست جومیں کبھی آرام کرنے دے گا۔
شاہدحمید صاحب نے نہ صرف بک کارنرکی ترقی میں بے پناہ محنت اورکتابوں سے عشق کیابلکہ اپنے بیٹوں کوبھی نامحسوس انداز میں اس کا عادی بنادیا۔امرشاہد”ابا” کے ذکر میں لکھتے ہیں۔”ابانے زندگی میں کبھی کلائی پرگھڑی نہیں باندھی۔کام کام اورصرف کام کاپاٹھ کرنے والے کووقت سے کیاسروکار۔میری تھکن زدہ شکل اورباہرکااندھیرا انھیں واپسی کی خبردیتا۔اباایک سیلف میڈ آدمی تھے،اب تھک محنت سے ایک مقام حاصل کیا۔مجھے اوربھائی گگن کوبھی ہمیشہ سیلف میڈبننے کاسبق دیا۔تدبر،جدت خیالی اورطرزِنوکواپنانے کی ترغیب دیتے۔ آسا ئش کے ماحول میں محنت ومشقت کی باتیں جتنی اباکرتے تھے شاید ہی ہمارے خاندان کے کسی گھرمیں ہوتی ہوں۔وہ ہمیں زندگی کی سختیوں اورجدوجہد کے لیے ذہنی طور پرتیارکرتے رہتے۔گرمیوں کے موسم کی شدت میں اباکی قمیص جسم سے چپک چپک جاتی، مگروہ خوش رہتے کہ دن بڑاہے اورکام کرنے کاموقع خوب مل رہاہے۔صرف ہمیں ہی نہیں ،دوسروں کوبھی محنت کی تلقین کرتے۔ بے روزگاروں کی ہمت بندھا تے اورکام یابی کارستہ دکھاتے۔ کیااپنے کیاپرائے،کتنوں کی پشت بانی کی۔انھیں اپنے پاؤں پرکھڑا ہوناسکھایا۔اباکچھ پرانے اداروں کو روبہ زوال ہوتے دیکھ رہے تھے۔انھیں لگتاتھا اورشایددرست بھی ہوکہ ان اداروں کے وارثان کوکتاب سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ کوئی بے یارومددگاررہاتوکسی کے جانشین اپنے آبا کی میراث کواپنے شوق کی بھینٹ چڑھاگئے۔”
شاہدحمید کے بعدگگن شاہد اورامرشاہد بک کارنرجہلم کوترقی وکامیابی کاسفرمیں بام عروج پرلے جارہے ہیں اوراس سے ان کے خیالات کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ مرحوم نے اپنے بیٹوں کومحنت کاعادی اورکتابوں کاعشق ورثہ میں دیا۔جسے دونوں بھائی بہت خوبی سے پروان چڑھارہے ہیں اوراپنے والدکے خوابوں کوحسین ترتعبیرسے روشناس کررہے ہیں۔
کاروباردرازہوتاگیا۔بک کارنرکے دوشعبے بنادیے گئے۔سیلنگ اورپبلشنگ۔شروع سے کتاب کی تزئین،زیبائش،ایڈیٹنگ اورطباعت امرشاہدکی توجہ کامرکزرہی۔انھوں نے شوروم کے پہلوہی میں اپناالگ گوشہ بنایااورخلوت نشین ہوگئے۔ یہ کام تنہائی کے ساتھ عرق ریزی اورجگرسوزی کاطلب گارہوتاہے۔کتابوں کواپنے رنگ اورڈھنگ سے شائع کیا۔اردوکلاسیکی اورعالمی ادب شروع سے پسندیدہ تھے،اس لیے ان پرزیادہ توجہ رہی۔سیلنگ اورمارکٹنگ کی تمام ذمہ داریاں گگن شاہد نے سنبھال لیں۔شوروم کواپنی فہم وفراست سے چلایا۔بک کارنر شوروم کونئی بلندیوں پرلے گئے۔شوروم کی کام یابی اوربہترین کتابوں کی اشاعت نے آپس ہی میں مقابلے کی فضابنادی۔بک کارنربہ مقابلہ بک کارنر ہوگیا۔دونوں شعبے ایک دوسرے کی طاقت بن گئے۔شوروم کی کام یابی سے پبلشنگ کوتقویت ملتی،دوسری طرف دیدہ زیب اشاعت سے آن لائن اسٹوراورشوروم پربک کارنرکی کتابیں تیزی سے بیسٹ سیلرہونے لگیں۔قارئین کی آرااوراطمینان ادارے کاحقیقی سرمایہ اورنظریہ ہوگیا۔
امرشاہد کہتے ہیں۔”ابافوت نہیں ہوئے،بس دورہوگئے۔اپنااورجہلم کانام بھی روشن کرگئے۔ایسے شخص کی عاقبت بہتوں سے یقینابہتر ہوگی۔مئی انیس سواکیاون میں پیدائش اورمارچ دوہزاراکیس میں وفات کے مطابق عمران کی ستربرس تھی۔مگرعمروں کوبرسوں کے اعتبار سے ناپنانہیں چاہیے۔ عمران کی زیادہ ہوتی ہے جوکام زیادہ کرتے ہیں۔اب اپنی جگرکاری اورجاں فشانی کی تابانیوں میں سدازندہ رہیں گے۔ان کی محنت بک کارنرکی شائع ہونے والی ہرکتاب میں عکس ریز رہے گی۔منٹو،فیض،یوسفی چلے گئے توکیاوہ ہمیشہ کے لیے چلے گئے؟ نہیں ایسانہیں، وہ اپنے عہد میں بھی زندہ تھے، وہ آنے والے زمانوں میں بھی زندہ رہیں گے۔یہ لوگ اپنااپناکردارنبھاکرچلے گئے،ہمیں بھی اپناکردارنبھاناہے۔
بک کارنرجہلم کی دن دونی رات چوگنی ترقی کا اندازہ بک فیئرکراچی کے لیے”شاہدحمید:اے عشق جنوں پیشہ”عامرخاکوانی کی”خیال سرائے”،سلمیٰ اعوان کی ”تنہا”،یاسرجوادکے آپ بیتی”آبادہوئے بربادہوئے”، حسن منظرکی خودنوشت”گزرے دن”،عابدحسن منٹوکی ”پون صدی کاقصہ”،حناجمشیدکی ”کھلی تاریخ”،شاہدصدیقی کی ”پاکستان،تعلیم اوراکیسویں صدی” اورکئی اورکتب کا خصوصی طور پربک فیئرمیں اجراء ہوا۔ جبکہ یکم فروری سے لاہوربک فیئرکے لیے جن نئی کتب کااعلان ہواہے۔ اس میں ”سب رنگ کہانیاں 7” کاقارئین کو بے چینی سے انتظارہے۔ نامورشاعروادیب انورمسعودکی کلیات غزل ونظم”شیرازہ”، ان کے صاحبزادے عمارمسعودکی”بغاوت” راجہ انور کی دوکتب”بن باس ” اور ”قبرکی آغوش” اورطاہراقبال کی ”زمیں رنگ ”کی اشاعت نو،ظفرمحمودکاناول”مفرور” اور رؤف کلاسراکی”جونا گڑھ کاقاضی،دکن کامولوی” رسم اجراء کی جائے گی۔اس طرح شاہدحمیدکاجلایاچراغ پوری تابانی سے علم وادب کوروشن سے روشن ترکررہا ہے۔
”شاہدحمید:اے عشق جنوں پیشہ” ایک ایسی کتاب ہے۔ جس کا مطالعہ ہرصاحب ذوق کوکرنا چاہیے۔ اس کتاب سے قاری کوایک شخص کی نصف صدی کی بے مثل جدوجہدکاعلم ہوگااور بک کارنرجہلم کی ترقی سے انہیں انسپائریشن ملے گی کہ ایمانداری سکی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ کتاب کی دلکشی بھی بہت کشش رکھتی ہے۔اس صوری ومعنوی حسن سے آراستہ کتاب کی اشاعت پر گگن شاہد اورامرشاہد کوبھرپور مبارک باداورشاہدحمیدکی مغفرت کے لیے بے شماردعائیں۔